بانجھ ہونے کی تحقیق اور نکاح پر اس کا اثر

میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے بانجھ ہونے کی تحقیق اور نکاح پر اس کا اثر

میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے بانجھ ہونے کی تحقیق اور نکاح پر اس کا اثر

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

اگر مرد کے مادہ منویہ میں تولیدی صلاحیت نہ ہو تو عورت کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار نہیں ہوگا، حنفیہ مالکیہ شافعیہ اور حنابلہ اسی کے قائل ہیں اس لیے کہ یہ کوئی متعدی بیماری نہیں ہے اور نہ ہی حصول لذت میں رکاوٹ ہے۔

اس کے  برخلاف حضرت عمر فاروق سے منقول ہے کہ انھیں معلوم ہوا کہ ایک بانجھ شخص نے نکاح کرلیا ہے تو اس سے پوچھا کہ کیا تم نے  نکاح سے پہلے بتادیا تھا کہ تم بانجھ ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرمایا: جاؤ اسے بتا دو اور پھر اسے نکاح ختم کرنے کا اختیار دو۔ [1]

اور حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اگر مرد عورت میں سے کوئی بانجھ  ہو تو ہر ایک کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا۔ [2]

اور امام احمد نکاح فسخ نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچہ کے نہ پیدا ہونے کا کوئی یقینی ذریعہ موجود نہیں ہے کیونکہ بارہا دیکھنے میں آتا ہے کہ جوانی میں کسی کے یہاں بچہ پیدا نہیں ہوتا اور بڑھاپے میں اس کی امید پوری ہوجاتی ہے۔ [3]

امام احمد کے اس قول کا تقاضہ ہے کہ اگر میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ مرد میں باپ بننے کی صلاحیت نہیں ہے تو عورت کو فسخ  کا اختیار ملنا چاہیے۔ چونکہ اس دور میں اس طرح کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا اس لیے انہوں نے فرمایا کہ بانجھ ہونے کے بارے میں یقینی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت میں ماں بننے کا جذبہ بڑا شدید ہوتا ہے اس کے بغیر اس کے وجود کی تکمیل نہیں ہوتی اور اولاد سے محرومی متعدد نسوانی اور دماغی امراض کا ذریعہ ہے اور اکثر یہ چیز سخت نفرت اور کشیدگی کا ذریعہ بن جاتی ہے بلکہ عورت کی عفت کے لیے شدید خطرہ ہوتا ہے اور حنفیہ میں سے امام محمد اس بات کے قائل ہیں کہ اگر مرد میں کوئی ایسا عیب ہو جس کی وجہ سے عورت کو اس کے ساتھ رہنے کی استطاعت نہ ہو تو وہ نکاح فسخ کراسکتی ہے؛ کیونکہ اس کے لئے اپنے حق کو حاصل کرنا دشوار ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ نامردی وغیرہ۔ [4]

اور علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ قیاس کا تقاضا ہے کہ ہر وہ عیب جس سے میاں بیوی میں سے کوئی ایک وحشت اور نفرت محسوس کرے اور مقصد نکاح یعنی  محبت و مہربانی میں رکاوٹ ہو تو اس کی وجہ سے فسخ کا اختیار ضروری ہے۔ [5]


حواشى

[1]  إن عمر بن الخطاب بعث رجلا على بعض السعاية فتزوج امرأة وكان عقيما فقال له عمر: أعلمتها أنك عقيم؟ قال:لا. قال: فانطلق فاعلمها ثم خيرها.( مصنف عبد الرزاق 10346. رجاله ثقات)

[2]  وما عدا هذه من العيوب لا يثبت الخيار وجها واحدا كالقرع والعمي والعرج وقطع اليدين والرجلين لأنه لا يمنع الاستمتاع ولا يخشى تعديه ولا نعلم في هذا بين أهل العلم خلافا إلا أن الحسن قال: إذا وجد أحدهما الآخر عقيما يخير (الشرح الكبير مع المقنع507/20)

[3]  ولأن ذلك لا يعلم فإن رجالا لا يولد لأحدهم وهو شاب ثم يولد له وهو شيخ ولا يتحقق ذلك منهما. (الشرح الكبير مع المقنع507/20)

[4]  قال محمد:ترد المرأة إذا كان بالرجل عيب فاحش بحيث لا تطيق المقام معه لأنها تعذر عليها الوصول إلى حقها لمعنى فيه كالجب والعنة ( تبيين الحقائق 25/3)

[5]  والقياس أن كل عيب ينفر الزوج الأخر منه ولا يحصل به مقصود النكاح من الرحمة والمودة يوجب الخيار( زاد المعاد166/5)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply