ریاض العلوم گورینی کا ایک تاریخی سفر
بقلم: محمد ہاشم قاسمى بستوى
ایک مدت سے مدرسہ ریاض العلوم گورینی جونپور کو دیکھنے کی تمنا تھی مگر اس کى تكميل کا کوئی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ہمارے کرم فرما، ہم وطن اور مخلص دوست مفتی اظہار الحق قاسمی( استاذ مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ یوپی انڈیا) کو کہ ان كى وجہ سے یہ ديرينہ تمنا شرمندۂ تعبیر ہوئى۔ موصوف ریاض العلوم گورینی کے مایہ ناز اور لائق فائق سابق طالب علم ہیں، دارالعلوم دیوبند سے تکمیل ادب، افتا، مرکز المعارف ممبئی سے انگریزی زبان وادب کی تعلیم حاصل کى ہے، منفرد اسلوب و انداز کے شاعر ہیں، برجستہ زود نویس اور خوش نويس ہیں، مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں، لیکن ان کے حوصلوں کی اڑان، ان كےشوق ولگن كى جولانى، بلند ہمتی، ثابت قدمی اور ان كى بے لوثی کو دیکھ ہم بڑے بھی ان پر رشک کناں ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقیات سے نوازیں۔ بدقسمتى سے موصوف سے آشنائی بہت دیر میں ہوئی،… خير دير آيد درست آيد…. ابھی کوئی ڈیڑھ دو مہینہ پہلے ان سے باضابطہ تعارف اور تعلق ہوا ، لیکن اس کے بعد سے ما شاء اللہ تعلق میں پختگی آتی گئى، اسی تعلق کی بنا پر موصوف اپنى گونا گوں مصروفيات كے باوجود بقرعید کے موقع پر اٹاوہ سے چل كر بستی پھر اعظم گڑھ تشریف لائے اور بالمشافہ ملاقات کی تکلیف گوارہ فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان كو جزائے خیر دے۔
براہیمى نظر پيدا مگر مشكل سے ہوتى ہے
ہوس چھپ چھپ كے سينوں ميں بنا لیتى ہے تصویریں
مفتى اظہار الحق صاحب 13 جولائی بروز بدھ 2022 كو صبح 8 بجے جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ تشریف لائے، نگاہ اولیں میں بندہ ان کی ظاہری سادگی سے بہت متاثر ہوا،ملاقات كے کچھ گھنٹوں کے بعد مجھے احساس ہوا کہ موصوف کے بارے میں جتنا سمجھا تھا ما شاء الله وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہیں، سادہ اورشگفتہ مزاجى اور مرنجا مرنج طبيعت كے ساتھ ساتھ تحریکی مزاج رکھتے ہیں، سستی اور تھکاوٹ کا ان کے کوچے سے گزر نہیں، ہر فن مولا، ہر مجلس كے روحِ رواں، مزید برآں اعظم گڑھ میں بھى ما شاء الله ان كے اچھے خاصے تعلقات ہیں، یہاں کی چھوٹی بڑی بہت سی شخصیات سے ان کے مراسم ہیں۔
ع اس شمع فروزاں کے پروانے ہزاروں ہیں
مدرسہ ریاض العلوم گورینی كى طرف روانگى اور اس كا مختصر تعارف
جامعہ ميں موصوف كى آمد پہلى بار ہوئى تھى، اس كو ديكھ كر انھوں نے بڑى خوشى كا اظہار كيا، ناشتہ، ظہرانہ اور قيلولہ سے فارغ ہوكر ہم لوگ شام کو چھ بجے کے قریب مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کے لیے روانہ ہوئے اور مغرب کےبعد تقریباً 8 بجے ہم لوگ رياض العلوم پہونچ گئے۔
مدرسہ ریاض العلوم گورینی مشرقی یوپی کا ایک مشہور ومعروف دينى ادارہ ہے، اس کے بارے میں ناچیز نے بچپن ہی سے سن رکھا تھا، یہ غالباً 1998 کی بات ہے ہم عربی اول دوم کے طلبہ میں بھی اس مدرسہ کی شہرت کا چرچا تھا کہ وہاں بڑی اچھی تعلیم ہوتی ہے، میرے جاننے والوں میں ضلع بستى كے کچھ طلبہ بھی یہاں زیر تعلیم تھے، ان کی زبانی مدرسہ کی تعلیم کے بارے میں سن کر اس کی قدر و منزلت دل میں گھر کرتی چلی گئى، اسی وقت سے مدرسہ دیکھنے كى آرزو تھی جو ما شاء اللہ اب جاکے پوری ہوئی۔
ع عمر بھر كى بيقرارى كو قرار آ ہى گيا
مدرسہ ریاض العلوم کے بانی مشرقی یوپی کی ہر دل عزیز شخصیت، سابق رکن شوری دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب مظاہرى جونپوری رحمہ اللہ ہیں (متوفی 1999م) ، مدرسہ ضیاء العلوم مانی کلاں جونپور سے علیحدگی کے بعد حضرت نے 1973 میں چوکیہ، گورینی گاؤں میں مدرسہ ریاض العلوم کی بنیاد رکھی ، بانی مدرسہ کی نیک نیتی اور خلوص وللہیت کا ثمرہ ہے کہ آج مدرسہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے، روز اول ہى سے اس کے برگ وبار میں اميد افزا اضافہ ہو رہاتھا، اوراس وقت ما شاء الله وه شہرت کے آسمان پر آفتاب وماہ تاب بن کر چمک رہا ہے، اور گورینى رياض العلوم ہى كى وجہ سے مشہور ہے۔
بہار اب جو گلشن ميں آئى ہوئى ہے
يہ سب پود انہیں كى لگائى ہوئى ہے
مدرسہ جون پور شاہ گنج شاہ راہ سے متصل ہے، ىہاں سے جونپور لگ بھگ 22/ كلو ميٹر، اور شاہ گنج 14 كلو ميٹر دور ہے، مدرسہ میں حفظ کے دس سے زائد درجات ہیں، پرائمری سکشن بھی ہے جس میں ہزار کی تعداد میں نونہالانِ قوم زير تعليم وتربيت ہيں، اور درجہ فارسى سے لے كر دورہ حدیث شریف تک تعلیم دی جاتی ہے، مقیم طلبہ كى تعداد ما شاء الله ايک ہزار كے قريب ہوتى ہے۔ اس کے علاوہ شعبۂ افتا، شعبۂ قرات بھی ہے۔ ىہاں سے اردو زبان ميں ايک ماه نامہ “رياض الجنة” بھى نكلتا ہے، جو علمى حلقوں ميں خاصا مقبول ہے، یہاں کے فارغین بانی مدرسہ حضرت مولانا عبد الحليم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے حلیمی لکھتے ہیں، اس وقت اس کے مہتمم بانی مدرسہ كے خلف رشيد حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب مظاہری مد ظلہ العالی ہیں، جو مدرسہ كى تعميرو ترقى ميں دل وجان سے مشغول ہيں۔
حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات
مدرسہ پہونچنے كے معًا بعد ہم نے مغرب کی نماز پڑھی، مفتی اظہار صاحب نے مہتمم صاحب سے ملاقات کا وقت لیا ،ہم سوا آٹھ بجےکے قریب ان کے گھرپر حاضر ہو گئے، یہ میری حضرت سے با ضابطہ پہلی ملاقات تھی، جو كافى مفيد اور معلومات افزا تھى، حضرت مہتمم صاحب کی زبانی مدرسہ کے نئے پرانے حالات سے واقفیت ہوئی، انہیں کی زبانی يہ بھى معلوم ہوا کہ مدرسے میں ڈاک کا ایک نظام ہے جس میں طلبہ اپنی شکایات درج کرکے ڈال دیتے ہیں اور صبح دفتر کھلنے کے بعد ساری پرچیاں ہمارے پاس آتی ہیں اور ان پر فوری طور پر کاروائی ہوتی ہے، یہ ہم سب کے لیے بہت سود مند ہے، اور ڈاک خانے کی وجہ سے سارا عملہ حرکت میں رہتا ہے۔ مدرسہ كے شروعاتى دور كا تذكرہ كرتے ہوئے حضرت نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائى دور میں جبکہ مدرسہ میں تقریباً 200 طلبہ مقیم تھے اس وقت صفائی کرنے والا کوئی ملازم نہیں تھا اس وقت …….. بعد کا جملہ حضرت نے حذف کردیا۔ اس كے علاوہ انھوں نے اور بہت سى باتيں کیں جن سے ميرى معلومات ميں اضافہ ہوا، مجلس كے اخير ميں مفتی اظہارالحق صاحب نے مہتمم صاحب سے ریاض الجنہ کے بارے کچھ ضروری گفتگو كى، عشاء کی اذان پر مجلس برخاست ہو گئی۔
راقم نے حضرت مہتمم صاحب کا حال دیگر مدارس کے مہتممین سے بالکل الگ پایا، اتنے بڑے مدرسے كے مہتمم ہونے كے باوجود بھی کوئی مہتممانہ ٹھاٹ باٹ نہیں، گھر بھی سادہ گودہ، اور وہ خود بھی سادگی کے پیکر نظر آئے، گھر کے باہر كھلے آسمان كے نيچے ہماری مجلس تھی، اس وقت ہوا بھى بند تھى، وہ بھی پسینہ سے شرابور اور ہم بھی، مگر ماتھے پر حرف شکن نہیں، كافى معلوماتى اور دلچسپ مجلس رہى، عمر ما شاء اللہ 70 پار ہے، مگر انتظام وانصرام کے معاملہ میں انتہائی چاق و چوبند، اور اس سے بھی بڑھ کر مدرسہ کے بارے میں انتہائی مخلص، کسی کی زبان پر ان کے لیے کوئی حرف شکایت نہیں، ہرايک كو ان كى تعريف ميں رطب اللسان پايا، غرض کہ میر کارواں کے لیے جن صفات کا ہونا ضروری ہے وہ ان کے حامل ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے، اور ریاض العلوم کے ادھورے کاموں کی ان کے ذریعے تکمیل فرمائے، ان کی مجلس سے اٹھ کر بے ساختہ مجھے کلیم عاجز صاحب کا شعر یاد آگیا:
میاں بس ہمیں تو پسند آگئیں
تری سادگی تیری سچائیاں
ترے طرز اسلوب و انداز کو
دعا دیتی ہیں دل کی گہرائیاں
مولانا وحافظ وصی اللہ صاحب کے دولت کدہ پر
حضرت مہتمم صاحب کی مجلس سے نکل کر ہم لوگ ریاض العلوم سے متصل چوک پر آگئے، اور چوک ہی کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز پڑھی، نماز کے بعد ہماری منزل مولانا وصی اللہ صاحب کا دولت کدہ تھی، جہاں انھوں نے عشائیہ کا انتظام کر رکھا تھا، مولانا وصی اللہ صاحب ہمارے رفیق سفر مفتی اظہارالحق صاحب کے ہمدرس، ہم نوالہ ہم پيالہ جگری دوست ہيں، بلكہ ديہاتى زبان ميں لنگوٹیا یار ہیں، دونوں حضرات میں حد درجہ بے تکلفی ہے، مولانا وصی اللہ صاحب کی فراغت 2009 میں ریاض العلوم گورینی سے ہوئی، فراغت کے بعد ریاض العلوم گورینی میں ان کا تقرر درجہ حفظ میں ہوا، تا حال وہ اسی ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ کپڑے کی تجارت بھی کر رہےہىں، اس طرح وہ ما شاء اللہ دین ودنيا دونوں کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے کاروبار میں برکت عطا فرمائے، یہیں پر مولانا وصی اللہ صاحب کے والد محترم مولانا وکیل صاحب دامت بركاتہم سے بھى ملاقات ہوئى، موصوف حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کے کاتب خاص تھے، عمر 80 سے متجاوز ہے، اس وقت بھی ریاض العلوم کے دفتر محاسبی میں ہیں، اور اپنے فرائض کی انجام دہی پوری جانفشانی سے کر رہے ہیں، اور چہرے بشرے سے اللہ والوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے اور ان کے سایۂ عاطفت کو تا دیر قائم رکھے۔ عشائيہ پر مولانا وصی اللہ صاحب نے حد درجہ اہتمام كر ركھا تھا ، ہمارے اعزاز ميں انہوں نے اپنے كچھ اور احباب كو مدعو كر ركھا تھا، كافى دلچسپ مجلس رہى، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
مولانا ثمامہ صاحب الہ آبادی کی قیام گاہ پر
عشائیہ سے فراغت کے بعد رفیق محترم راقم کو مولانا ثمامہ صاحب الہ آبادی استاذ شعبۂ عربی مدرسہ ریاض العلوم گورینی کی رہائش گاہ پر لے گئے جو مدرسہ سےمتصل چوک پر ہے، جہاں ہمارا رات میں قیام تھا، موصوف بھی مفتی اظہارالحق صاحب کے بے تکلف دوستوں میں ہیں، يہ ان سے جونيئر ہيں، موصوف ریاض العلوم کے سابق مایہ ناز طالب علم ہیں، ریاض العلوم سے فراغت کے بعد موصوف نے 2014 ء میں دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث كيا ہے، اس طرح ان كو ڈبل دورہ كرنے كا بھى شرف حاصل ہوا، اور اس کے بعد انھوں نےمرکز المعارف ممبئی سے انگریزی زبان وادب کی تعلیم حاصل کی ہے، ابھى كچھ سال پہلے ریاض العلوم گورینی میں شعبۂ عربی و فارسی میں ان كا تقرر ہوا ہے، تا حال وہ بحیثیت استاذ اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہىں، انگریزی کے ساتھ ساتھ زبان وادب، اور شعر وشاعرى كا بھى اچھا ذوق رکھتے ہیں، انہیں اشعار کی پرکھ بھی ہے، ان سے دیر رات تک شعری موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، کتابوں کے تئیں ان کا شوق قابلِ رشک ہے، ان کی ذاتی لائبریری دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ ظاہری رکھ رکھاؤ کے ساتھ وہ خاصے مہمان نواز بھی ہیں، ان كى مجلس میں مجھے ذرہ برابر بھى اجنبیت کا احساس نہیں ہوا، ایسا لگا گویا وہ میرے اپنے ساتھی اور دوست ہیں، سچ کہتے ہیں کہ:
ع غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
اور اس کا انھوں نے پورا خيال بھى کیا، بس دعا ہے کہ ان سے ملاقات کا موقع پھر میسر آئے، ان کی کرم فرمائیوں کا اللہ تعالیٰ انہیں بہترین اجر دے۔
مفتی محمد اظہار صاحب بستوی استاذ ریاض العلوم گورینی سے ملاقات
گورینی کے سفر کا ایک اہم مقصد مفتی محمد اظہار صاحب سے ملاقات بھی تھا، مفتی صاحب میرے ہم وطن ہیں، دار العلوم دیوبند کی طالب علمانہ زندگی ہی سے ان سے جان پہچان، اور دوستانہ مراسم ہیں، موصوف کی گنتی اس وقت دیوبند میں بھی نمایاں طالب علموں میں ہوتی تھی، فراغت دار العلوم ديوبند سے 2007 کی ہے، مجھ سے تین سال جونیئر ہیں، اس کے بعد دار العلوم ہی سے تکمیل ادب وافتاء بھی کیا ہے، تقریباً 11 سالوں سے ریاض العلوم گورینی میں پہلے مرتب فتاویٰ ریاض العلوم اور اب استاذ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، انھوں نے فتاویٰ ریاض العلوم کو باشتراک 7 ضخیم جلدوں میں بڑی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے، اس کے علاوہ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں، عربی اردو زبان وادب سے انہیں خاص دلچسپی ہے، تعالوا نتکلم کے نام سے عربی بول چال پر ایک کتاب بھى مرتب کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ جلد از جلد زیور طبع سے آراستہ کرائے۔
موصوف سے مولانا ثمامہ صاحب کے مکان پر فجر کے بعد ایک اجتماعی مجلس میں ناشتہ پر ملاقات ہوئی، بڑى خندہ پيشانى كے ساتھ بغل گير ہوئے، اور كافى دير تک ہم بھولى بسرى ياد تازه كرتے رہے، اسى مجلس میں مولانا اسعد صاحب نائب ناظم مطبخ مدرسہ ریاض العلوم گورینی، اور مولانا وجیہ الدین صاحب حلیمی قاسمی مدنی مقیم حال کویت سے بھی ملاقات كا شرف حاصل ہوا۔ الله تعالى سب كو اپنى حفظ وامان ميں ركھے۔
مفتى ضمير احمد صاحب سے ملاقات
یہاں سے فراغت کے بعد مفتی محمد اظہار صاحب باصرار اپنی رہائش گاہ پر لے گئے جو مدرسے ہى كے احاطے ميں ہے، اور ہمارے انكار كے باوجود ڈبل ناشتہ كرايا، ان كى بے لوث محبت کے نتيجے ميں ہميں بھى سرِ تسليم خم كرنا پڑا، یہیں پر مفتی ضمیر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، آپ کا شمار ریاض العلوم کے موقر ترین اساتذہ میں ہوتا ہے، اور بقول ہمارے رفیق سفر مفتی اظہار الحق صاحب کے کہ آپ ان کے محبوب ترین اساتذہ میں سے ہیں، آپ امبیڈکر نگر کے رہنے والے ہیں، مفتی محمد اللہ صاحب شعبہ انٹرنیٹ دار العلوم دیوبند کے ساتھیوں میں سے ہیں، ان سے ایک سال پہلے دیوبند سے فراغت ہوئی تھی، دار العلوم دیوبند ہی سے ادب و افتاء بھی کیا تھا، تقریباً بیس سالوں سے ریاض العلوم میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، طلبہ ان سے حد درجہ مطمئن رہتے ہیں، وقت مختصر تھا اسی وجہ سے ان سے افادہ واستفادہ کا موقع نہ مل سکا، جس کا افسوس رہے گا۔
مفتی حبیب اللہ صاحب اشہر بستوی کے دولت خانہ پر
مفتی حبیب اللہ صاحب سے غائبانہ آشنائی ماہ نامہ ریاض الجنہ کے واسطے سے ہوئی، موصوف اس کے مستقل کالم نگار ہیں، مفتی صاحب کی فراغت ریاض العلوم گورینی سے 1992 میں ہوئی، اس کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں 2 سال تخصص فی الأدب کا کورس کیا، مولانا میرے ہم وطن اور رفیق سفر مفتی اظہار الحق صاحب کے گاؤں كُسَوْری ضلع بستى کے ہیں، چوبیس پچیس سالوں سے ریاض العلوم میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، ايک بہترين استاذ ہونے ساتھ ساتھ ایک اچھے قلم کار اور قادر الکلام شاعر ہیں، صبح دس بجے کے قریب مولانا کے گھر پر حاضری ہوئی، انھوں نے بھى حسبِ دستور ضیافت کا حق ادا کیا، اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ان کے سایۂ عاطفت کو ہم پر تا دیر قائم رکھے۔
مولانا یاسین صاحب حلیمی اور حافظ ذکوان صاحب سے ملاقات
ریاض العلوم کا چکر لگانے سے پہلے رفیق محترم مجھے مولانا یاسین صاحب استاذ مدرسہ کے گھر لے گئے، موصوف بھی رفیق محترم کے اچھے دوستوں میں سے ہیں، موصوف کی فراغت ریاض العلوم ہی سے 2012 میں ہوئی اور یہیں سے افتاء بھی کیا ہے، اس کے بعد مرکز المعارف ممبئی سے انگریزی میں ڈپلومہ بھی کیا ہے اور ادھر کئی سالوں سے ریاض العلوم کے شعبۂ عربی و فارسی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانا بظاہر خاموش طبع ہیں، لیکن اپنے مفوضہ کاموں کو نہایت دلچسپی اور پورے شوق ولگن اور دل جمعی کے ساتھ انجام دیتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے بارے یہ شعر کہا جاتا ہے کہ:
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
موصوف سے میری یہ پہلی ملاقات تھی، جو علیک سلیک سے آگے نہ بڑھ سکی، لیکن رفیق محترم کے ساتھ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ موصوف اپنی آستین میں یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں، حضرت مہتمم صاحب موصوف کے والد محترم حافظ ابو بکر صاحب کے خالِ مکرم ہیں۔ ہمارے اعزاز میں موصوف نے لمبا چوڑا دسترخوان بچھا رکھا تھا جس سے ہم لطف اندوز ہوئے، اور یہیں پر موصوف کے بڑے بھائی حافظ ذکوان صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ بھی ریاض العلوم کے پرائمری سکشن میں استاذ ہیں، اللہ تعالیٰ دونوں بھائیوں کی بے لوث عنایات کا بہترین اجر دے۔
ریاض العلوم ترقی کی راہ پر
اساتذہ ریاض العلوم سے انفرادی اور اجتماعی ملاقات سے گیارہ بجے تک ہم لوگ فارغ ہوگئے، اس کے بعد ہم نے پورے مدرسے کا ایک چکر لگایا، ما شاء الله يہ اداره تقريبا 12 ايكڑ زمين ميں پھيلا ہوا ہے، صفائى ستھرائى اور خوبصورتى بهى اطمئنان بخش ہے، ہر ايک چيز سے سادگى چھلكتى ہے، كسى بھى چيز سے نام ونمود كا شائبہ نہىں ہوتا ہے، اس طرح كے اداروں كا اپنا ايک فطرى حسن ہوتا ہے، مدرسے كے احاطے ميں دومنزلہ درسگاہيں ہيں، طلبہ كى رہائش كے ليے دو منزلہ دار الاقامہ، دارالحديث اور کتب خانہ كى عمارت ہے، اساتذہ كى رہائش كے ليے دار المدرسين كى بھى عمارتيں ہيں، اس كے علاوہ مدرسہ كے مغربى حصہ ميں ايک نئى عمارت كى تعمير ہو رہى ہے، بقرعيد كى مناسبت سے اس وقت مدرسہ ميں چھٹى چل رہى تھى جس كى وجہ سے تعليمى سرگرميوں كا ہم مشاہدہ نہ كر سكے۔ الله تعالى ادارے كو زمانے كے شرور وفتن سے بچائے، اس كى تعمير و ترقى كے ليے غيب سے انتظام كرے۔
مدرسے كى زيارت سے فراغت كے بعد ساڑھے بارہ بجے کے قريب رفيقِ محترم مجھے مولانا محمد شاہد صاحب استاذ عربی مدرسہ ریاض العلوم کے گھر لے گئے، جہاں ان کے بھتیجے کا ولیمہ تھا، ہم بھى اس دعوت سے لطف اندوز ہوئے۔ الغرض اكثر احباب سے الوداعى مصافحہ كے بعدعصر کے وقت ہم واپسی کے لیے نکلے۔ شاہ گنج سے مولانا اظہار صاحب بستى كے ليے روانہ ہوگئے، اور راقم ىہاں سے بذریعہ بس شام كو ساڑھے سات بجے كے قريب جامعہ لوٹ آيا۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.