hamare masayel

وراثت کے نام پر زندگی میں جائیداد دینے سے وراثت سے حصہ ختم نہیں ہوتا

(سلسلہ نمبر: 822).

 وراثت کے نام پر زندگی میں جائیداد دینے سے وراثت سے حصہ ختم نہیں ہوتا

سوال: مفتی صاحب قرآن وحدیث کی روشنی میں درج ذیل مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے۔

اکبر کے تین بیٹے اصغر، ارشد، افسر، اور دو بیٹیاں فاطمہ، اور عائشہ ہیں، بیوی کا انتقال اکبر کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔

اکبر کی جائیداد میں زمین، پینشن کی باقی ماندہ رقم، اور ایک فیکٹری کا پلاٹ ہے جسکو کرایہ پر دے رکھا ہے۔

فیکٹری کا پلاٹ اکبر اور انکے بڑے بیٹے اصغر کی شمولیت میں ہے جسکا 50,50 فیصد حصہ اکبر اور بڑے بیٹے اصغر کا ہے۔

اکبر نے اپنی زندگی میں ہی اپنے پانچوں بچوں کے علم‌ میں لاکر فیکٹری کے اپنے حصّے میں سے وراثت میں جتنا لڑکیوں کا حصہ بن رہا تھا اسکی قیمت اپنی دونوں بیٹیوں فاطمہ اور عائشہ کو یہ کہکر دیا کہ ہم اپنی زندگی میں ہی تم لوگوں کو فیکٹری کی وراثت دے رہے ہیں، اب فیکٹری میں صرف بیٹوں کا حق رہےگا سارے بچوں نے اکبر کے اس فیصلے پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا تھا اور آج بھی اس فیصلے پر راضی ہیں۔

اب اکبر کا انتقال ہوگیا ہے انکی متروکہ املاک میں کھیت، پنشن کا باقی ماندہ پیسہ اور فیکٹری کا پلاٹ ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ اکبر کی متروکہ املاک میں دونوں بیٹیوں کا پینشن، کھیت، اور فیکٹری تینوں املاک میں حصہ رہےگا کہ صرف کھیت اور پینشن کے پیسے میں؟ درآنحالیکہ فیکٹری کا حصہ وراثت کہکر دیا جاچکا ہے اور بیٹیاں بھی اس فیصلے پر آج بھی راضی ہیں. بینوا توجروا

دستخط: اصغر ارشد افسر ، فاطمہ ،عاءیشہ۔

المستفتی: محمد عامر سلطان پور یوپی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: آدمی کا مال، اُس کی وفات پر وراثت کا مال ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔ اور زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ وعطیہ ہوتا ہے، وہ وراثت یا وراثت کا عوض نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے اگرچہ دیتے وقت صراحت کردی جائے؛ لہٰذا اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں اپنی کسی اولاد کو کوئی زمین یا رقم وغیرہ اس شرط پر دی کہ وہ باپ کی وفات پر ہر قسم کی میراث سے محروم رہے گا تو یہ شرط لغو اور کالعدم ہوگی اور باپ کی وفات پر دیگر اولاد کی طرح وہ بھی حسب شرع وراثت کا حق دار ہوگا اور اُسے اپنے لیے میراث کے دعوی کا حق ہوگا.

البتہ اگرکوئی بیٹا، باپ سے اُس کی زندگی میں بہت سارا مال ودولت پاچکا ہو اور دیگر وارثین کو باپ نے زندگی میں کچھ نہ دیا ہو تو اُسے دیانتاً چاہیے کہ باپ کے ترکہ سے کوئی چھوٹی موٹی چیز لے کر دیگر وارثین کے حق میں دست بردار ہوکر تخارج کی صورت اختیار کرے ؛ تاکہ اس کا حصہ وراثت کے ساتھ مل کر دیگر وارثین سے بہت زیادہ نہ ہو. (مستفاد فتویٰ دار العلوم دیوبند)

لہذا صورت مسئولہ میں اکبر نے گرچہ اپنی بیٹیوں کو پلاٹ کی قیمت ان کے حصے کے بقدر رقم دیدی تھی پھر بھی انتقال کے بعد بیٹیاں کھیت اور باقی ماندہ پنشن کی طرح پلاٹ میں بھی حصے دار ہیں البتہ ان کے لئے دیانۃ بہتر یہی ہے کہ کھیت اور پنشن سے اپنا حصہ لے لیں اور پلاٹ کے حصہ سے تخارج کرلیں، یعنی اس میں حصہ نہ لیں تاکہ بھائیوں کا حصہ کم نہ ہو۔

الدلائل

الإرث يثبت بعد موت المورث.(البحرالرائق، كتاب الفرائض، 9/ 364).

واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز، وبه أفتى بعضهم، وقيل لا. (رد المحتار کتاب الوصایا، 655/6، ط:سعید).

قال النووي: أجمعوا على أن من وعد إنسانا شيئا ليس بمنهي عنه فينبغي أن يفي بوعده…فلو تركه فاته الفضل وارتكب المكروه كراهة شديدة۔(مرقاة المفاتیح، کتاب الأدب، باب المزاح: 9/ 130).

 والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

21- 3- 1446ھ 25-9- 2024م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply