(سلسلہ نمبر: 407)
اجیر کا دوسرے کو اجیر رکھنا
سوال: ہمارے ساتھ بلجیم میں کچھ مہاجرین ہیں جن کو اب تک نيشنلٹى نہیں ملى ہے اور وہ کام کاج کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اپنے ان دوستوں کے ساتھ جن کو نيشنلٹى ملى ہے کچھ اس طرح بات کرتے ہے کہ آپ پيزا ڈلورى سے اپنے نام پر کام لے لیں، (ان کا کام کچھ اس طرح ہے کہ آپ لوگوں کے گھر پيزا آڈر پہنچائیں گے اور کمپنى آپ کو روزانہ ساٹھ ايرو يعنى ماہانہ اٹھارہ سو ايرو دے گی) اور آپ یہ کام ہمیں دے دیں ہم آڈر گھر تک پہنچائیں گے اور آپ سے سولہ سو ایرو لیں گے، اس طرح آپ کو دو سو ایرو بچ جائیں گے، تو کیا اس طرح سے کام کرنا شریعت کى رو سے جائز ہے يا نہیں؟
المستفتی: ابو حمزہ توخى، بروکسل، بلجيم۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
ملازمت میں عموماً عمل اور شخص دونوں مقصد ہوتے ہیں، یعنی مالک یہ چاہتا ہے کہ متعین شخص ہی اس کا مقررہ کام انجام دے؛ لہٰذا مسئولہ صورت میں ملازم کا اپنی جگہ دوسرے کو مقرر کرنا مالک کی اجازت کے بغیر جائز نہ ہوگا، اگر مالک کو پوری صورتِ حال کا علم ہوجائے اور بخوشی اجازت دیدے تو پھر ایسا کرنا شرعاً جائز ہوگا۔
الدلائل
وإذا شرط عمله بنفسه بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك لا يستعمل غيره. (الدر المختار).
(قوله لا يستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي. (رد المحتار: 6/ 18).
قال – رحمه الله – (ولا يستعمل غيره إن شرطعمله بنفسه) يعني ليس للأجير أن يستعمل غيره إذا شرط عليه أن يعمل بنفسه؛ لأن المعقود عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة كما إذا استأجر رجلا للخدمة شهرا لا يقوم غيره مقامه في الخدمة ولا يستحق به الأجر. (البحر الرائق: 8/ 9).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
26- 11- 1441ھ 18- 7- 2020م السبت.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.