رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ احاديث كى روشنى ميں
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
خلق: عادت ، خصلت ، خو ، خلق جمع اخلاق۔ عقائد و عبادات کے بعد تعلیمات نبوی کا تیسرا باب اخلاق ہے۔ اخلاق سے مقصود باہم بندوں کے حقوق و فرائض کے وہ تعلقات ہیں جن کو ادا کرنا ہر انسان کے لیے مناسب بلکہ ضروری ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس دنیا کی ہر شے سے تھوڑا بہت اس کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اس تعلق کے فرض کو بحسن و خوبی انجام دینا اخلاق ہے۔ اس کے اپنے ماں باپ ، اہل و عیال ، عزیز و رشتہ دار ، دوست و احباب سب سے تعلقات ہیں بلکہ ہر اس انسان کے ساتھ اس کا تعلق ہے جس سے وہ محلہ ، وطن ، قومیت ، جنسیت یا اور کسی نوع کا علاقہ رکھتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حیوانات تک سے اس کے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کے سبب سے اس پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔
دنیا کی ساری خوشی ، خوشحالی اور امن وامان اسی اخلاق کی دولت سے ہے۔ اسی دولت کی کمی کو حکومت و جماعت اپنے طاقت و قوت کے قانون سے پورا کرتی ہے اگر انسانی جماعتیں ، اپنے اخلاقی فرائض کو پوری طرح از خود انجام دیں تو حکومتوں کے جبری قوانین کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو۔ اس لیے بہترین دین و مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دباؤ اپنے ماننے والوں پر اتنا ہو کہ وہ ان کے قدم کو سیدھے راستے سے بہکنے نہ دے۔ دنیا کے سارے مذاہب نے کم و بیش اس کی کوشش کی ہے اور اس دنیا کے آخری دین و مذہب اسلام نے بھی یہی کیا ہے۔ اسلام کی ان مساعی اور کوششوں کا باب اتنا لمبا ہے کہ اس جگہ تفصیل کی گنجائش ممکن ہی نہیں ہے اور اختصار سے کچھ کہنے کے سوا چارہ بھی نہیں ہے۔ نبی اعظم و آخر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ : (بعثت لأتمم مکارم الأخلاق و محاسن الاعمال) ” میں بزرگ ترین اخلاق اور بہت ہی اچھے اعمال کی تکمیل کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
کسی قلم میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے مناقب بیان کرسکے ، کسی شخص میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے اخلاق کا تصور کرسکے۔ اور اس عظیم سرٹیفکیٹ کی تشریح کرسکے۔ یہ عظیم کلمات رب عظیم کی طرف سے ہیں۔ اور رب تعالیٰ اپنی اس عظیم شہادت کی تشریح کرسکتا ہے۔ اللہ کے ہاں عظمت کے کیا پیمانے ہیں ، اس کا بندہ کس قدر عظیم ہے ، یہ وہی جانتا ہے ۔ جس نے کہا :
﴿وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ (٨٦ : ٤) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ یہ خلق عظیم وہ ہے جس کا تصور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود عقل وادراک سے اس کا تصور کرسکے۔ لیکن مختلف پہلوؤں سے آپ کے اخلاق ” عظیم “ تھے۔
سب سے پہلا پہلو تو یہ ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہی ہے۔ رب تعالیٰ آپ کو خلق عظیم کا لقب عطا فرمارہا ہے۔ اس میں اللہ کی مخلوق اور اس کی ناپیداکنار کائنات بھی شامل ہے۔ اور ملاء اعلیٰ کی تمام مخلوقات جو رب تعالیٰ کی کائنات کے کارندے ہیں ، سب اس میں شامل ہیں۔
آپ کے خلق عظیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ نے یہ ربانی شہادت حاصل کی۔ اپنے رب کی طرف سے حاصل کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس عظیم کائنات کا عظیم باری تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے ” یہ ایک بہت اعزاز ہے “۔ ان کلمات کا ایک عظیم مفہوم ہے ، ان کی ایک وسعت ہے ، ان کی ایک بلند گونج ہے۔ آپ جانتے تھے کہ کس عظیم ذات کی ہے یہ شہادت اور یہ شہادت کیس قدر عظیم ہے۔
یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا ظرف تھا جو اس عظیم شہادت کو قبول کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ صرف آپ ہی کا حوصلہ تھا کہ اس عظیم مصدر سے یہ شہادت پائے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی جگہ اور مقام پر قائم رہے۔ اور اس عظیم شہادت کے دباؤ اور اثر کو برداشت کرسکے۔ یہ ایک تعریف تھی لیکن آپ کی ذات کے اندر کوئی حرکت ، کوئی اضطراب پیدا نہ ہوا۔ نہایت اطمینان ، نہایت توازن اور سنجیدگی کے ساتھ آپ نے یہ اعزاز لیا۔ اور آپ کی عظمت کی بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اس عظیم خطاب کے بوجھ کو اٹھا لیا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق حسنہ کے جو واقعات سیرت طیبہ میں ملتے ہیں ان کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ ذیل میں ہم آپ کے اخلاق کریمانہ کے چند واقعات درج کرتے ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محاسن اور اخلاق کے متعلق احادیث اور آثار
(١) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق عظیم کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : تمام ادیان میں آپ کا دین عظیم ہے اور آپ کے دین سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کوئی دین محبوب اور پسند نہیں ہے۔
(٢) ہشام بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا: اے ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کے متعلق بتائے، حضرت عائشہ نے پوچھا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، حضرت عائشہ نے فرمایا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن تھا۔ ( صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ ١٣٩۔ باب۔ رقم الحدیث : ٧٤٦ )
جن تمام چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، آپ ان پر عمل کرتے تھے اور جن تمام کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ آپ ان سے باز رہتے ہیں تھے اور آپ کی پوری زندگی قرآن مجید کی عملی تصویر تھی، اگر آپ کی سیرت کو جامع مانع عبارت میں بیان کیا جائے تو وہ آیات قرآن ہیں اور اگر قرآن مجید کی آیات کو انسانی پیکر میں ڈھالا جائے تو وہ پیکر مصطفیٰ ہے۔
(٣) حضرت عائشہ (رض) سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ”قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ“ (المؤمنون : ١) سے لے کر دس آیتیں پڑھیں اور کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق سب سے اچھا تھا، آپ کو صحابہ اور اہل بیت میں سے جو بھی بلاتا، آپ فرماتے : لبیک، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم : ٤) بیشک آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں
جو بھی عمدہ اخلاق تھے، وہ سب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پائے جاتے تھے، نیز آپ کے خلق کو اس لیے عظیم کہا گیا ہے کہ آپ مکارم اخلاق کے جامع تھے۔ امام مالک نے روایت کیا ہے :
بےشک اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارم اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ ( مؤطا امام مالک رقم الحدیث : ١٦٧٧)
(٤) حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے میرے رب نے ادب سکھایا، سو اچھا ادب سکھایا۔ ( الجامع الصغیرہ رقم الحدیث، ١٣٠، حافظ سیوطی نے اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٨٩٥)
(٥) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی، آپ نے کبھی مجھ سے اف نہیں کیا، اور میں نے جو کام کیا تو کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ اور میں نے جس کام کو ترک کیا تو کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے اس کام کو کیوں ترک کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق سب سے اچھے تھے اور کوئی ریشم آپ کے ہاتھوں سے زیادہ ملائم نہیں تھا، اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پسینہ کی خوشبو سے بڑھ کر کسی مشک اور عطر کی خوشبو نہیں سونگھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩١١، ٦٠٣٨، ٣٥٦١، ٢٧٦٨، ١٩٧٣ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٣٠، ٢٣١٠، ٢٣٠٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث ٤٧٧٤، ٤٧٧٣، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٠٥، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٧٩٤٦، مسند احمد ٣ ص ١٩٥، ١٧٤، ١٢٤ )
(٦) حضرت عائشہ (رض) بان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ طبعاً فحش گفتار تھے نہ تکلفاً ، اور نہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے، اور نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور در گزر فرماتے تھے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠١٦، مسند احمد ج ٦ ص ٢٤٦، ٢٣٦، ١٧٤، مصنف ابن بی شیبہ ج ٨ ص ٣٣٠)
(٧) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، ماسوا جہاد ف سبیل اللہ کے، اور نہ آپ نے کبھی کسی خادم کو مارا اور نہ کسی عورت کو۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٢٨، مسند احمد ج ٢ ص ٢٨١، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٣٦٨، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٦٦٨، مسند ابو بعلیٰ رقم الحدیث : ٤٣٧٥، شمائل ترمذی رقم الحدیث : ١٣٤٩، المعجم الصغیر ج ٢ ص ١٩)
(٨) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کسی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا، جب تک اللہ تعالیٰ کے محارم اور اس کی حدود میں سے کسی حد کو نہ توڑا جائے اور جب اللہ کے محارم میں کسی چیز کو پامال کیا جاتا تو آپ سب سے زیادہ غضب ناک ہوتے تھے، اور جب بھی آپ کو دو چیزوں میں اختیار دیا جاتا تو آپ اس کو اختیار کرتے جو زیادہ آسان ہو بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٦٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٢٧، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٨٥، مسند احمد ج ٦ ص ٨٥، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ١٧٩٤٢، مسند ابو یعلی رقم الحدیث ٤٣٧٥، مسند الحمیدی رقم الحدیث ٢٥٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤١٠، الادب المفرد رقم الحدیث : ٢٧٤، مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : ١٤٨١)
(٩) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کی اجازت طلب کی، اس وقت میں بھی آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا : یہ اپنے قبیلہ کا برا شخص ہے، پھر آپ نے اس کو اجازت دے دی، جب وہ آیا تو آپ نے اس سے بہت نرمی سے بات کی، جس وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے اس شخص کے متعلق وہ فرمایا جو فرمایا تھا، پھر آپ نے اس سے بہت نرمی سے بات کی، آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! لوگوں میں سب سے برا شخص وہ ہے جس کو لوگ اس کی درشت کلامی ( بد گفتاری) کی وجہ سے چھوڑ دیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٦٠٣٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٩١، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٩١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٩٦، الادب المفرد رقم الحدیث : ١٣١١، مصنف ابن بی شیبہ ج ٨ ص ٣٢٩، حلیۃ الاولیاء، ج ٦ ص ٣٣٥)
(١٠) حضرت حسین بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنے ہم نشینوں کے ساتھ سیرت کے متعلق سوال کیا، تو انھوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی تھی، آپ بہت نرم مزاج تھے، آپ سے بات کرنا بہت سہل تھا، آپ بد مزاج اور سخت دل نہ تھے، نہ بد گفتار تھے، نہ لوگوں کے عیوب بیان کرتے تھے، نہ بخل کرتے تھے، فضول باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے، جو شخص آپ کے پاس کوئی امید لے کر آتا آپ اس کو مایوس نہیں کرتے تھے اور کسی کو نامراد نہیں کرتے تھے، آپ نے اپنے لیے تین چیزوں کو چھوڑ دیا تھا، آپ بحث و تکرار، زیادہ باتوں اور بےمقصد کاموں میں نہیں پڑتے تھے، اور آپ نے لوگوں کے لیے بھی تین چیزوں کو چھوڑ دیا تھا، آپ بحث و تکرار، زیادہ باتوں اور بےمقصد کاموں میں نہیں پڑتے تھے، آپ نے اپنے لیے تین چیزوں کو چھوڑ دیا تھا، آپ بحث و تکرار، زیادہ باتوں اور بےمقصد کاموں میں نہیں پڑتے تھے، اور آپ نے لوگوں کے لیے بھی تین چیزوں کو چھوڑ دیا تھا، آپ بحث و تکرار، زیادہ باتوں اور بےمقصد کاموں میں نہیں پڑتے تھے، اور آپ نے لوگوں کے لیے بھی تین چیزیں چھوڑ دیں تھیں، آپ کسی شخص کی مذمت کرتے تھے اور نہ اس کا عیب نکالتے تھے، اور نہ کسی کی پوشیدہ چیز معلوم کرتے تھے، اور صرف اسی معاملہ میں بات کرتے تھے جس میں آپ کو ثواب کی امید ہوتی تھی، اور جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کے ہم مجلس اس طرح اپنے سروں کو جھکا لیتے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں، اور جب آپ خاموش ہو جاتے تب وہ آپ سے کوئی بات کرتے تھے، اور وہ آپ کے سامنے کسی بات میں بحث نہیں کرتے تھے، اور جب کوئی شخص آپ سے بات کرتا تو سب اس کی بات ختم ہونے تک خاموش رہتے، جب آپ کے شرکائے مجلس ہنستے تو آپ ہنستے تھے اور جس چیز پر وہ تعجب کرتے آپ بھی اس پر تعجب کرتے تھے، جب کوئی اجنبی شخص سے بات کرتا یا سوال کرتا تو آپ صبر کرتے تھے، حتیٰ کہ اگر آپ کے اصحاب اس پر سختی کرتے تو آپ فرماتے: جب تم دیکھو کہ ضرورت مند اپنی حاجت کو طلب کر رہا ہے تو تم اس کے ساتھ نرمی کرو، آپ بغیر نوازش اور عطاء کے اپنی تعریف کو قبول نہیں کرتے تھے، ہاں ! آپ کسی کو کچھ عطاء کرتے اور وہ آپ کی تعریف کرتا تو آپ قبول کرلیتے، آپ کسی کے کلام کو منقطع نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ وہ شخص حق سے تجاوز کرتا تو پھر اس کی بات کاٹ کر اس کو روکتے یا اٹھ جاتے۔ ( شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٢ )
(١١) حضرت جابر بن بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی شخص کے مانگنے پر ” نہیں “ نہیں فرمایا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٣٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣١١، مسند احمد ج ٣ ص ٣٠٧، مصنف ابن بی شیبہ ج ١١ ص ٥١٥)
(١٢) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیر کی بہت زیادہ سخاوت کرنے والے تھے، اور سب سے زیادہ سخاوت آپ رمضان کے مہینہ میں کرتے تھے حتیٰ کہ رمضان ختم ہوجاتا، آپ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آتے تھے، آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کو دہراتے تھے اور جب حضرت جبرائیل آپ سے ملتے تو آپ برسانے والی ہواؤں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٢٠، ١٩٠٢، ٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٠٨، سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٠٩٥، مسند احمد ج ١ ص ٢٣٠، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٩ ص ١٠١، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٨٨٩، حلیۃ الاولیاء ج ٥ ص ٣٦٢ )
(١٣) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے (یہ ابتدائی دور کی بات ہے ورنہ جب فتوحات کی کثرت ہوئی تو آپ ازواج مطہرات کو ایک سال کا غلہ اور چھوارے فراہم کرتے تھے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٥٥١ )
(١٤) حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر سوال کیا کہ آپ اس کو کچھ عطا کریں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس اس وقت کوئی چیز نہیں ہے لیکن تم میری ضمانت پر خرید لو، میرے پاس مال آیا تو میں ادا کروں گا، حضرت عمر نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ عطاء کرچکے ہیں اور جس پر آپ قادر نہیں ہیں اس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکلف نہیں کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کے قول کو ناپسند کیا، پھر انصار کے ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ خرچ کیجئے اور عرش والے سے مال میں کمی کا خوف نہ کریں، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے اور آپ کے چہرے سے خوشی ظاہر ہوئی، اور آپ نے فرمایا : مجھے اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے۔ (شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٦، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٦٦٤، کتاب العلمیہ ص ٥٣ )
(١٥) حضرت ربیع بنت معوذ ابن عفراء (رض) بیان کرتی ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجوروں کا ایک خوشا اور کچھ ککڑیاں یا جوَ لے کرگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے دونوں ہاتھوں میں زیورات اور سونا دیا۔ (شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٧، ٢٠٤، مسند احمد ج ٦ ص ٥٩ المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ٢٧٣، رقم الحدیث : ٦٩٤)
(١٦) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کے جواب میں ہدیہ دیتے تھے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٨٥، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٥٣٦، مسند احمد ج ٦ ص ٩٠، سنن بیہقی ٦ ج ١٨٠)
(١٧) عمرۃ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں کیا کام کرتے تھے ؟ انھوں نے کہا : آپ ایک بشر تھے، اپنے کپڑے صاف کرلیتے تھے، بکری کا دودھ دوھ لیتے تھے اور اپنے کام کرتے تھے۔ (شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٣، الادب المفرد رقم الحدیث : ٥٤١، مسند ابو یعلی، رقم الحدیث : ٤٨٧٣، مسند احمد ج ٦ ص ٢٥٦ )
(١٨) حضرت عائشہ (رض) عہنا نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جوتی مرمت کرلیتے تھے، اپنے کپڑے سی لیتے تھے اور جس طرح تم گھر کے کام کرتے ہو اسی طرح کام کے کام کرتے تھے۔ ( مسند احمد ج ٦ ص ١٠٧، کتاب الزہد ج ١ ص ٣٥، الادب المفرد رقم الحدیث: ٥٣٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٨٩، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٦٧٥، الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٣٦٦ )
(١٩) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے ایک پائے کی دعوت بھی دی جائے تو میں اس کو قبول کرلوں گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٨، مسند احمد ج ٣ ص ٢٠٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٢٦٨، ١٠٦٥، سنن بیہقی ج ٦ ص ١٧٦)
(٢٠) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا اور وہ آپ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ ان کو علم تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو ناپسند فرماتے ہیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث ٢٧٥٤، مسند احمد ج ٣ ص ١٣٢، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٧٨٤، الادب المفرد الحدیث : ٩٤٦ )
(٢١) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کی روٹی اور پرانے گھی کی دعوت دی جاتی تو آپ اس کو قبول فرما لیتے، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی اور آپ اس کو تا حیات چھڑا نہیں سکے۔ (شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٤، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٠٨ ٤٠، مسند احمد ج ص ١٠٢، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٦٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٢١٥، سنن نسائی رقم الحدیث : ٤٦١٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٣٧، مسند احمد ج ٣ ص ١٣٣)
(٢٢) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : مجھے آپ سے کام ہے، آپ نے فرمایا : تم مدینہ کے جس راستہ میں چاہو بیٹھ جاؤ، میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں گا۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٨١٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٢٦، مسند احمد ج ٣ ص ٢٨٥، ٩٨، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٤٧٢)
(٢٣) حضرت زید بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی، تو آپ مجھے بلواتے اور میں آ کر وحی لکھتا اور ہم جب دنیا کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ دنیا کا ذکر کرتے، اور جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ آخرت کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ دنیا کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ کھانے کا ذکر کرتے۔ ( شمائل ترمذی رقم الحدیث : ١٣٤٤، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٤٨٨٢، دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣٢٤، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٦٧٩)
(٢٤) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رض) کے پاس ایک شخص تھا جس کے کپڑوں پر زعفران کے رنگ کے نشان تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شخص کے منھ پر ایسی بات نہ کہتے تھے جو اس کو ناگوار ہو، آپ نے صحابہ سے فرمایا : تم اس شخص سے کہو کہ وہ ان نشانات کو دھو لے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤١٨٢، مسند احمد ج ٣ ص ١٣٣، الادب المفرد رقم الحدیث : ٤٣٧، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٤٢٧٧)
(٢٥) حضرت حسین بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر کے اندر جاتے تھے تو آپ کے کیا معمولات تھے ؟ انھوں نے کہا : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر میں جاتے تھے تو آپ اپنے وقت کے تین حصے کرتے تھے، ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے، ایک حصہ گھر والوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے اور ایک حصہ اپنی ذات کے لیے، پھر جو حصہ اپنی ذات کے لیے تھا اس کو اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرماتے، پس اپنے خصوصی فیوض کو خاص صحابہ کے وسیلہ سے عام مسلمانوں تک پہنچا دیتے اور ان سے کوئی چیز روک کر نہ رکھتے، اور جو وقت حصہ امت کے لیے تھا، اس میں آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اصحاب فضلیت کو گھر میں آ کر ملاقات کرنے کی اجازت دیتے اور ان کی دینی فضلیت کی ترتیب کے اعتبار سے ان پر وقت کو تقسیم کرتے، ان میں سے کسی کو ایک چیز کی ضرورت ہوتی، کسی کو دو چیزوں کی ضرورت ہوتی اور کسی کو بہت ضروریات ہوتیں، آپ ان کی ضروریات پوری کرنے میں مشغول ہوتے، اور ان کو ان کی اپنی اور باقی امت کی اصلاح کے کاموں میں مصروف رکھتے اور ان سے ان کے مسائل معلوم کرتے، اور ان کے حسب حال ان کو ہدایات دیتے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے: تم میں سے حاضر، غائب تک یہ ہدایات پہنچا دے اور تم میرے پاس ایسے شخص کی حاجت بھی پہنچا دیا کر جو اپنی حاجت خود نہیں پہنچا سکتا، کیونکہ جو شخص کسی ایسے انسان کی حاجات صاحب اختیارتک پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ثابت قدم رکھے گا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایسی ہی چیزوں کا ذکر کیا جاتا تھا، اس کے علاوہ اور کسی ( فضول) بات کو آپ قبول نہیں کرتے تھے، مسلمان آپ کے پاس علم کی طلب لے کر آتے تھے اور جب واپس جاتے تھے تو علم کا ذائقہ چکھ چکے ہوتے تھے اور نیکی کے رہ نما بن چکے ہوتے تھے، پھر حضرت حسین (رض) نے اپنے والد (رض) سے پوچھا : گھر سے باہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کیا معمولات تھے؟
حضرت علی (رض) نے بتایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف با مقصد کلام کرتے تھے، صحابہ کی تالیف کرتے تھے اور ان سے انسیت رکھتے تھے، ان کو متنفر نہیں کرتے تھے، آپ ہر قوم کے معزز آدمی کی تکریم کرتے اور اس کو اس کی قوم کا حاکم بنا دیتے، آپ لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے ڈراتے اور لوگوں کو شر سے خود کو محفوظ رکھتے، اپنے اصحاب کے حالات کی تفتیش کرتے اور یہ معلوم کرتے کے عام لوگ کس حال میں ہیں، اچھی چیز کی تحسین اور تقویت کرتے اور بری چیز کی مذمت کرتے اور اس کو کم زور کرتے، آپ ہمیشہ میانہ روی سے کام لیتے اور مسلمانوں کے احوال سے غافل نہ رہتے، مبادا وہ غافل اور سست ہوجائیں یا اکتا جائیں، ہر حالت کے لیے آپ کے پاس مکمل تیاری ہوتی، آپ حق بات میں تقصیر کرتے نہ تجاوز کرتے، مسلمانوں میں سے بہترین لوگ آپ کے ہم مجلس ہوتے، جو شخص لوگوں کا زیادہ خیر خواہ ہوتا وہ آپ کے نزدیک افضل ہوتا، اور جو شخص لوگوں کے ساتھ زیادہ نیکی کرتا اور ان سے اچھا سلوک کرتا وہ آپ کے نزدیک بڑے درجہ والا ہوتا، حضرت حسین (رض) نے اپنے والد (رض) سے پوچھا : آپ کی مجلس کیسی ہوتی تھی ؟ انھوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نشست برخو است کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے، جب آپ کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو جس جگہ مجلس ختم ہوتی تھی وہاں بیٹھ جاتے تھے، اور مسلمانوں کو بھی اسی بات کا حکم دیتے تھے، اور اپنے ہم نشینوں میں سے ہر ایک کو اس کا حصہ دیتے تھے، اور آپ کا کوئی ہم نشین یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ کوئی اور شخص آپ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز ہے، جب کوئی شخص آپ کے پاس بیٹھتا یا آپ سے گفتگو کرتا تو جب تک وہ خود نہ چلا جاتا آپ بیٹھے رہتے اور جو شخص آپ کے پاس اپنی حاجت پیش کرتا آپ اس کی حاجت پوری فرماتے یا نرمی سے عذر بیان کرتے، آپ کی خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سب لوگوں کے لیے عام تھی، آپ سب مسلمانوں کے لیے بہ منزلہ باپ تھے اور آپ کی مجلس میں آپ کے نزدیک سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے، آپ کی مجلس علم، حیا، صبر اور امانت کی مجلس تھی، اس میں نہ آوازیں بلند ہوتی تھیں اور نہ کسی پر عیب لگایا جاتا تھا، اگر بالفرض کسی سے غلطی ہوجائے تو اس کا آشکارا نہیں کیا جاتا تھا، آپ کے نزدیک تمام مجلس والے برابر تھے، بلکہ ان کو تقویٰ کی وجہ سے دوسروں پر برتری حاصل ہوتی تھی، وہ سب منکسر اور متواضع تھے، مجلس میں بڑوں کی تعظیم کرتے تھے اور چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے، ضرورت مندوں کے لیے ایثار کرتے تھے اور مسافر کے حقوق کا خیال رکھتے تھے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٧٥٤، مسند احمد ج ٣ ص ١٣٢، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٧٨٤، الادب المفرد رقم الحدیث : ٩٤٦ )
(٢٦) حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں: ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چادر لے کر آئی جس کے کناروں پر بنائی کی ہوئی تھی، اس نے کہا : میں نے اس چادر کے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چادر کی ضرورت تھی، آپ نے اس عورت سے وہ چادر لے لی، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو بہ طور بند باندھ کر آئے، ایک شخص نے اس چادر کی تحسین کی اور کہا : یہ بہت اچھی چادر ہے آپ یہ چادر مجھے دے دیں، مسلمانوں نے اس شخص سے کہا : تم نے اچھا نہیں کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرورت کی وجہ سے اس چادر کو پہنا تھا، پھر تم نے آپ سے وہ چادر مانگ لی، حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آپ کسی کا سوال رد نہیں کرتے، اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے پہننے کے لیے یہ چادر نہیں مانگی، میں نے تو اپنا کفن بنانے کے لیے یہ چادر مانگی ہے، حضرت سہل نے کہا : پھر وہ چادر اس کا کفن بن گئی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٧٧)
(٢٧) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ( دیہاتی) نے مسجد میں پیشاب کردیا، لوگ اس کو مارنے کے لیے جھپٹے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : اس کو چھوڑ دو ، اور اس کے پیشاب کے اوپر ایک یا دو ڈول پانی بہاؤ، کیونکہ تم آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٢٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٤)
(٢٨) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہا : السام علیکم ( تم پر موت آئے) ، حضرت عائشہ نے کہا : تم پر موت آئے، اور تم پر اللہ کی لعنت ہو اور تم پر اللہ کا غضب ہو۔ آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! رک جاؤ، تم نرمی کو لازم رکھو اور تم موجب عار باتوں اور بد کلامی سے اجتناب کرو۔ حضرت عائشہ نے کہا : کیا آپ نے سنا نہیں انھوں نے کیا کہا تھا ؟ آپ نے فرمایا میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی تھی اور ان کے متعلق میری دعا قبول ہوگی اور میرے متعلق ان کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٣٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٥)
(٢٩) حضرت انس ابن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ کی باندیوں میں سے کوئی باندی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی وہاں لے جاتی۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٧٢)
(٣٠) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں گئے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آئے تو وہ بھی آپ کے ساتھ واپس آگئے، ایک وادی جس میں بہت زیادہ درخت تھے وہاں سب کو نیند آگئی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں ٹھہر گئے اور لوگ منتشر ہو کر درختوں کے سائے میں آرام لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے اترے، اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی، اور ہم لوگ سو گئے۔ اچانک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں بلا رہے تھے، اور اس وقت وہ اعرابی آپ کے پاس کھڑا ہوا تھا، آپ نے فرمایا : جس وقت میں سویا ہوا تھا تو اس اعربی نے مجھ پر تلوار سونت لی، میں بیدار ہوا تو وہ برہنہ تلوار لیے ہوئے کھڑا تھا، اس نے کہا : تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ میں نے تین بار کہا : اللہ ! آپ نے اس کو سزا نہیں اور بیٹھ گئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٩١٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٤٣ )
(٣١) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن (رض) کو بوسہ دیا۔ اس وقت آپ کے پاس الاقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھا ہوا تھا، اس نے کہا : میرے دس بیٹے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا : جو شخص کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٩٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣١٨)
(٣٢) حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب کوئی سائل آتا، یا آپ سے کوئی حاجت طلب کی جاتی تو آپ فرماتے : تم ( اس کی) سفارش کرو، تم کو اجر دیا جائے گا اور اللہ اپنے نبی کی زبان سے جو چاہے گا فیصلہ فرمائے گا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٩٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣١٨)
(٣٣) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہا تھا، آپ کے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارہ سخت موٹے تھے، ایک اعرابی نے اس چادر کو پکڑ کر سختی کے ساتھ کھینچا، میں نے دیکھا کہ اس چادر کو سختی کے ساتھ کھینچنے کی وجہ سے آپ کے کندھے پر نشان پڑگئے تھے، پھر اس اعرابی نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں مجھے دینے کا حکم دیجئے ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنسے، پھر آپ نے اس کو کچھ عطا کرنے کا حکم دیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٨٨ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٥٧ )
(٣٤) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی کھانے کی مذمت نہیں کی، اگر آپ کو کوئی چیز پسند ہوتی تو آپ اس کو کھالیتے ورنہ اس کو چھوڑ دیتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٦٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٦٤ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ کسی بیوی کو نہ کسی خادم کو سوا اس کے کہ آپ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے اور جب بھی کسی شخص نے آپ کو تکلیف پہنچائی تو آپ نے اس سے انتقام نہیں لیا۔ ہاں ! اگر اللہ کی حرمات اور اس کی حدود کو کسی نے پامال کیا تو آپ اللہ عزوجل کے لیے انتقام لیتے تھے۔ ( صحیح رقم الحدیث : ٢٣٢٨ )
(٣٥) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دن انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : آپ پر جنگ احد سے بھی زیادہ کوئی سخت دن آیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے تمہاری قوم کی طرف سے جو تکلیفیں اٹھائی ہیں، وہ اٹھائی ہیں، اور سب سے زیادہ تکلیف یوم عقبہ ( جس دن آپ نے طائف کی گھاٹیوں میں جا کر تبلیغ کی تھی) کو اٹھائی تھی، اس دن میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبد کلال پر پیش کیا، میں جو کچھ چاہتا تھا اس نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، پھر میں انتہائی افسردگی کے ساتھ چل پڑا، میں اس وقت قرن الثعالب میں تھا اور میرا غم ابھی دور نہیں ہوا تھا، میں نے سر اوپر اٹھایا تو ایک شخص نے مجھ پر سایہ کیا تھا۔ میں نے دیکھا تو وہاں پر حضرت جبرائیل تھے، انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا : بیشک اللہ نے سن لیا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو کیا پیغام سنایا اور انھوں نے آپ کو کیا جواب دیا، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتہ کو بھیجا ہے، تاکہ آپ جو چاہیں اس کو حکم دیں، پھر پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھے آواز دی اور مجھے سلام کیا، پھر کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ چاہیں تو میں ان لوگوں کو دور پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالوں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی پشتوں سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جو اللہ وحدہٗ کی عبادت کریں گے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٣١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٩٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٠٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٧٤٧
(٣٦) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مشرکین کے خلاف دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا : مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ مجھے تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٩٩، الادب المفرد رقم الحدیث : ٣٢٧، شرح السنہ ج ١٣ ص ٢٤٠ )
(٣٧) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں مزاح بھی کرتا ہوں لیکن میں حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا۔ ( مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٤٢٠١، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)
(٣٨) حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی یا آپ وعظ فرماتے تو ہم دل میں کہتے کہ اب آپ لوگوں کو عذاب سے ڈرائیں گے اور جب آپ سے یہ کیفیت دور ہوجاتی تو میں دیکھتا کہ آپ سب لوگوں سے زیادہ کشادہ رو، سب سے زیادہ خوش طبع اور سب سے زیادہ حسین لگے۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٤٤٧٧، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد رقم : ٢٤٠٢)
(٣٩) حضرت عمران بن الحصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے میں کنواری لڑکی کے چہرے سے زیادہ شرم و حیاء ہوتی تھی اور جب آپ کو کوئی چیز ناگوار ہوتی تھی تو ہم آپ کے چہرے سے جان لیتے تھے۔ (المعجم الکبیر ج ١٨ ص ٢٠٦، حافظ المہیثمی نے کہا : امام طبرانی نے اس حدیث کو دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے، ان میں سے ایک سند صحیح ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٢٠٥)
(٤٠) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے اوپر آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا، جو مجھ سے پہلے کسی نبی پر نازل نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی پر نازل ہوگا اور وہ اسرافیل ہیں اور ان کے ساتھ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بھی تھے، انھوں نے کہا : السلام علیک یا محمد ! میں آپ کے پاس آپ کے رب کا پیغام لانے والا ہوں، مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں آپ کو یہ اختیار دوں کہ آپ چاہیں تو نبی اور عبد رہیں، اور اگر آپ چاہیں تو نبی اور بادشاہ ہوجائیں، میں نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا، انھوں نے تواضع کرنے کا اشارہ کیا، پس اس وقت نبی (علیہ السلام) نے کہا : اگر میں نبی بادشاہ کہتا تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٣٠٩، اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند میں یحییٰ بن اللہ البابلتی ضعیف روای ہے، مجمع الزاوئد رقم الحدیث : ١٤٢١١)
(٤١) حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑا ہوا کپکپا رہا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : تم آرام اور اطمینان سے کھڑے رہو، کیونکہ میں بادشاہ نہیں ہوں، میں قریش کی ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو گوشت سکھا کر کھاتی تھی۔ ( المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٢٨٢، المستدرک ج ٢ ص ٦٦، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٢٤٠ )
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آدھی رات کے وقت بھی کی روٹی کھانے کے لیے بلاتا تھا تو آپ چلے جاتے تھے۔ (المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٤١ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٥٧١، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٢٢١ )
حضرت حنظلہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا تو آپ چار زانو پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ( المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٤٩٨، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں محمد بن عثمان القرشی ضعیف راوی ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٢٣٠)
(٤٢) حضرت عامر بن ربیہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسجد کی طرف گیا، آپ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا، میں آپ کی جوتی کو ٹھیک کرنے لگا، آپ نے میرے ہاتھ سے جوتی لے لی اور فرمایا : یہ خود پسندی اور خود کو دوسرے پر ترجیح دینا ہے اور میں خود پسندی کو پسند نہیں کرتا۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٢٤٦٨، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کو سند میں ایک راوی مجہول ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٢٣٢)
(٤٣) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے اونٹ پر سفر کر رہے تھے جس نے ان کو ٹھکا دیا تھا ( یعنی وہ تیز نہیں چل رہا تھا) حضرت جابر نے اسے چھوڑنے کا ارادہ کیا، وہ کہتے ہیں : پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے آ ملے، آپ نے مجھے بلایا اور اس اونٹ پر ایک ضرب لگائی، پھر وہ اس قدر تیز چلنے لگا کہ اس کی طرح کوئی اونٹ نہیں چل رہا تھا، آپ نے فرمایا : مجھے یہ اونٹ چالیس درہم کے عوض فروخت کردو۔ میں نے کہا : نہیں ! ( یعنی آپ بلا قیمت لے لیں) آپ نے پھر فرمایا کہ مجھے فروخت کردو تو میں نے چالیس درہم کے عوض اس کو آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور میں نے اس پر سوار ہو کر مدینہ اپنے گھر تک جانے کا استثناء کرلیا، پس جب میں اپنے گھر پہنچ گیا تو آپ کے پاس اونٹ لے آیا، آپ نے مجھے اس کی نقد قیمت ادا کردی اور ایک قیراط زیادہ دی، پھر آپ نے کسی کو بھیج کر مجھے بلوایا اور فرمایا : کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے اونٹ خریدنے کے لیے تمہیں قیمت کم کردی ہے ؟ جاؤ ! یہ اونٹ لے جاؤ اور یہ درہم بھی لے جاؤ۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١٥)
(٤٤) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں مانگیں، آپ نے اس کو وہ بکریاں عطاء کردیں پھر وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا : اے میری قوم ! اسلام لے آؤ، کیونکہ خدا کی قسم ! بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا دیتے ہیں کہ فقر و غربت کا خدشہ نہیں دیتا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣١٢)
(٤٥) حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیاء فرمانے والے تھے، جب آپ کو کوئی چیز ناپسند ہوتی تو ہم آپ کے چہرہ سے جان لیتے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٢٠ )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محاسن اخلاق میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کسی سے اپنی ذات کا بدلہ نہیں لیتے تھے اور زیادتی کرنے والوں سے در گزر فرماتے تھے بلکہ جان کے دشمنوں کو بھی معاف کردیتے، ہم آپ کی سیرت سے چند ایسی مثالیں بیان کر رہے ہیں۔
عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھانا
(٤٦) امام بخاری روایت کرتے ہیں : حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول فوت ہوگیا تو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا گیا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں دوڑ کر آپ کے پاس گیا، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! کیا آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں ؟ حالانکہ اس نے فلاں دن یہ، اور کہا تھا کہ: (مدینہ پہنچ کر عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے اور یہ کہا تھا کہ جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں جب تک وہ آپ کا ساتھ چھوڑ نہ دیں اس وقت تک ان پر خرچ نہ کرو اور حضرت عائشہ (رض) پر بدکاری کی تہمت لگائی تھی، جس سے آپ کو سخت رنج تھا اور آپ سے کہا تھا کہ اپنی سوار دور کرو مجھے اسے سے بدبو آتی ہے، جنگ احد میں عین لڑائی کے وقت اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے نکل گیا) میں آپ کو یہ تمام باتیں گنواتارہا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبسم فرما کر کہا : اپنی رائے کو رہنے دو ۔ جب میں نے بہت اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے اختیار دیا گیا ہے ( کہ استغفار کرو یا نہ کرو) سو میں نے ( استغفار کرنے کو) اختیار کرلیا، اور اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ اگر میں نے ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کیا تو اس کی مغفرت کردی جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتا، حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز پڑھائی۔ الحدیث۔ ( صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٧٤، رقم الحدیث : ١٣٦٦، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی، ١٣٧١ ھ)
(٤٧) امام ابو جعفر محمد بن طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں: فتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس معاملہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : میری قمیص اور اس پر میری نماز جنازہ اس سے اللہ کے عذاب کو دور نہیں کرسکتی اور بیشک محمد یہ امید ہے کہ میرے اس عمل سے اس کی قوم کے ایک ہزار آدمی اسلام لے آئیں گے۔ (جامع البیان ج ١٠ ص ١٤٢، مطبوعہ دارالمعرفہ، بیروت، ١٤٠٩ ھ)
سو آپ کی اس نرمی اور حسن اخلاق کو دیکھ کر عبداللہ بن ابی کی قوم کے ایک ہزار آدمی اسلام لے آئے۔
فتح مکہ کے بعد ابو سفیان اور ہند کو معاف کردینا
(٤٨) امام ابو الحسن علی بن ابی الکرم الشیبانی المتوفی ٦٣٠ ھ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کر لیاتو ابو سفیان بن الحارث اور عبداللہ بن ابی امیہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی اور حضرت ام سلمہ (رض) نے ان کی سفارش کی، ابو سفیان نے کہا : اگر مجھے بازیاب ہونے کی اجازت نہیں ملی تو میں اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر زمین میں نکل جاؤں گا اور بھوکا پیاسا مر جاؤں گا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سنا تو آپ کا دل نرم ہوگیا اور آپ نے ان کو اجازت دے دی اور انھوں نے آپ کی خدمت کی حاضر ہو کر اسلام قبول کرلیا، ایک قول یہ ہے کہ حضرت علی نے ابو سفیان نے کہا : تم حضور کے سامنے کی طرف سے جانا اور آپ سے وہی کہنا جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے حضرت یوسف سے کہا تھا: خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم پر فضلیت دی ہے اور بیشک ہم ہی قصور وار تھے، انھوں نے اسی طرح کہا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تم کو معاف فرمائے گا اور وہ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے، آپ نے ان کو قریب بٹھایا اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا اور ابو سفیان نے اپنی پچھلی تمام زیادتیوں پر معافی مانگی، ایک اور روایت ہے کہ حضرت عباس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابو سفیان فخر کو پسند کرتا ہے، اس کو کوئی ایسی چیز عنایت کیجئے جس کی وجہ سے یہ اپنی قوم میں فخر کرے، آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا اس کو امان ہے اور جو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہوگا اس کو امان ہے اور جو شخص مسجد میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اس کو امان ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ١٦٦۔ ١٦٤ مطبوعہ دارالکتب العربیہ، بیروت)
(٤٩) جب آپ کے سامنے ہند کو پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا : کیا یہ ہند ہے؟ ہند نے کہا: میں ہند ہوں، اللہ آپ کو معاف فرمائے، آپ میری پچھلی باتوں کو معاف کر دیجئے، ہند کے ساتھ اور بھی عورتیں تھیں۔ آپ نے ان سے عہد لیا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی، چوری نہیں کریں گی، بدکاری نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی، کسی بےقصور پر بہتان نہیں باندھیں گی، کسی نیک کام میں حضور کی نافرمانی نہیں کریں گی، پھر آپ نے حضرت عمر سے فرمایا : ان سے بیعت لو، اور ان سب کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ ( الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ١٧٢، ١٧١ مطبوعہ دارالکتب العربیہ، بیروت)
ابو سفیان نے متعدد بار مدینے پر حملے کیے تھے اور ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش رہا تھا، آپ نے ابو سفیان پر قابوپانے کے بعد اس کو معاف کردیا، ہند نے آپ کو محبوب چچا حمزہ (رض) کا کلیجہ نکال کر کچا چبایا تھا، مکہ فتح کرنے کے بعد آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔
فتح مکہ کے بعد صفوان بن امیہ کو معاف کردینا
(٥٠) امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں: عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ صفوان بن امیہ ( یہی وہ شخص ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے لیے عمیربن وہب کو مدینہ بھیجا تھا) جدہ جانے کے لیے مکہ سے نکلا تاکہ جدہ سے یمن چلا جائے، حضرت عمیر بن وہب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! صفوان بن امیہ اپنی قوم کا سردار ہے اور وہ آپ کے خوف سے بھاگ رہا ہے تاکہ اپنے آپ کو سمندر میں گرا دے، آپ اس کو امان دے دیجئے، آپ نے فرمایا : اس کو امان ہے، انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھ کو کوئی ایسی چیز عنایت کیجئے جس سے یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے اس کو امان دے دی ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنا وہ عمامہ عطاء فرمایا جس کو پہنچ کر آپ مکہ میں داخل ہوئے تھے، حضرت عمیر وہ عمامہ لے کر گئے اور ان کو جدہ میں پا لیا، اس وقت وہ جہاز میں سوار ہونے کا ارادہ کر رہے تھے، انھوں نے کہا : اے صفوان ! اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی بجائے اپنے دل میں اللہ کو یاد کرو، دیکھو یہ امان ہے جو میں تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر آیا ہوں، صفوان نے کہا : تم چلے جاؤ، حضرت عمیر نے کہا : اے صفوان ! وہ سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ نیک، سب سے زیادہ حلیم ہے اور سب سے اچھے ہیں، حضرت عمیر (رض) صفوان کو حضور کے پاس لے آئے، صفوان نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اس کا یہ کہنا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے، آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا، صفوان نے کہا : مجھے اسلام لانے کے لیے دو ماہ کی مہلت دیجئے، آپ نے فرمایا : میں تمہیں چار ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ (جامع البیان ج ٢ ص ٣٣٩، ٣٣٨، مطبوعہ بیروت، کتاب المغازی للواقد ج ٢ ص ٨٥٣ الکامل لا بن الاثیر ج ٢ ص ١٦٨، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٣٠٨)
فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل کو معاف کردینا
(٥١) امام ابن اثیر شیبانی متوفی ٦٣٠ ھ لکھتے ہیں: عکرمہ بن ابی جہل بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانے، آپ سے عداوت رکھنے اور آپ کے خلاف جنگوں میں پیسہ صرف کرنے میں اپنے آپ کی مثل تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو فتح کرلیا تو اس کو اپنی جان کا خوف ہوا اور وہ یمن کی طرف بھاگ گیا، لیکن اس کی بیوی ام حکیم بن الحارث مسلمان ہوگئیں اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عکرمہ کے لیے امان طلب کی، اور اپنے ساتھ ایک رومی غلام لے کر اس کو ڈھونے نکلیں، انھوں نے عرب کے بعض قبیلوں کی مدد سے عکرمہ کو پا لیا، اس وقت عکرمہ سمندر کے سفر کا ارادہ کر رہے تھے، ام حکیم نے کہا : میں تمہارے پاس اس شخص کے ہاں سے آئی ہوں، جو لوگوں میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں، سب سے زیادہ حلیم ہیں اور سب سے زیادہ کریم ہیں، اور انھوں نے تم کو امان دے دی ہے، جب عکرمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت خوش ہوئے، پھر عکرمہ مسلمان ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی کہ وہ اس کے لیے استغفار کریں پھر آپ نے ان کے لیے استغفار کیا۔ ( الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ١٦٨، مطبوعہ دارالکتب العلیمہ، بیروت )
(٥٢) امام ابن عساکر متوفی ٧٥١ ھ روایت کرتے ہیں :
جب عکرمہ کشتی میں سوار ہوئے تو سخت تیز ہوا چلی، انھوں نے اس وقت لات اور عزیٰ کو پکارا، کشتی والوں نے کہا : اس موقع پر اخلاص کے ساتھ صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کو پکارا جائے اور کسی کو پکارنا جائز نہیں، عکرمہ نے سوچا : اگر سمندر میں صرف اسی کی الوہیت ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر خشکی میں بھی وہی وحدہٗ لا شریک ہے اور انھوں نے اللہ کی قسم کھا کر دل میں عہد کیا کہ وہ ضرور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پا بس جا کر رجوع کریں گے، سو انھوں نے آپ کے پاس جا کر آپ سے بیعت کرلی ( مختصرتاریخ دمشق ج ١٧ ص ١٣٤)
وحشی کو معاف کردینا
وحشی بن حرب، جبیر بن مطعم کے غلام تھے، ایک قول یہ ہے کہ بنت الحارث بن عامر کے غلام تھے، حارث بن عامر کی بیٹی نے ان سے کہا : میرا باپ جنگ بدر میں قتل کردیا گیا تھا، اگر تم نے ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حمزہ یا علی بن ابی طالب ان تینوں میں سے کسی ایک کو قتل کردیا تو تم آزاد جنگ احد میں وحشی نے حضرت سیدنا حمزہ (رض) کو قتل کردیا تھا اور اس قتل سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت اذیت پہنچی تھی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو یہ جان کے خوف سے طائف بھاگ کر چلے گئے تھے، پھر ایک وفد کے ساتھ آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور کلمہ پڑھ لیا، حافظ ابن عساکر نے ان کے اسلام قبول کرنے کا بہت تاثر انگیز واقعہ نقل کیا ہے۔
(٥٣) حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ روایت کرتے ہیں :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کو بلایا اور ان کو اسلام کی دعوت دی، وحشی نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کس طرح اپنے دین کی دعوت دے رہے ہیں حالانکہ میں نے شرک کیا ہے، قتل کیا ہے اور زنا کیا ہے اور آپ یہ پڑھتے ہیں :
﴿وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللہ ِ اِلٰـھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہ ُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا◊ یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا﴾ (الفرقان : 68، 69 )
اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ ( مثلاً قصاص میں) اور زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسا کرے گا وہ سزا پائے گا۔ قیامت کے دن اس کے عذاب کو دگنا کردیا جائے گا اور وہ اس عذاب میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ رہے گا۔
جب وحشی نے یہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل کردی :
﴿اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓـئِکَ یُبَدِّلُ اللہ ُ سَیِّاٰ تِہِمْ حَسَنٰتٍ وَکَانَ اللہ ُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الفرقان : 70)
لیکن جو ( موت سے پہلے) توبہ کرلے، اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرے تو اللہ ان لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔
وحشی نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ بہت سخت شرط ہے کیونکہ اس میں ایمان لانے سے پہلے کے گناہوں کا ذکر ہے، ہوسکتا ہے مجھ سے ایمان لانے کے بعد گناہ ہوجائیں گے تو پھر ایمان لانے کے بعد اگر میری بخشش نہ ہو تو پھر میرے ایمان لانے کا کیا فائدہ۔
تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿اِنَّ اللہ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء﴾ (النساء : 48 )
بےشک اللہ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشا، اور اس کے علاوہ جو گناہ ہو اسے جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔
وحشی نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس آیت میں تو مغفرت اللہ کے چاہیے پر موقوف ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے بخشنا نہ چاہے، پھر میرے ایمان لانے کا کیا فائدہ، تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہ ِ اِنَّ اللہ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (الزمر : 53)
آپ کہیے کہ اے میرے بندو ! جو اپنی جانوں پر زیادتیاں کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک وہی بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔
وحشی نے کہا : اب مجھے اطمینان ہوا، پھر اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا، صحابہ نے پوچھا : یہ بشارت آیا صرف وحشی کے لیے ہے یا سب کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا : سب کے لیے ہے۔
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وحشی امان طلب کر کے آیا اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسلام قبول کرنے کے متعلق یہی شرائط پیش کیں اور آپ نے یہی جوابات دیئے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٦ ص ٢٦٣، ٢٦٢، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
غور فرمایئے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کی ایک ایک شرط پوری کر کے اور اس کا ایک ایک ناز اٹھا کر اس کو کلمہ پڑھا رہے ہیں اور جنت کا راستہ دکھا رہے ہیں جو آپ کے انتہائی عزیز چچا کا قاتل تھا، اگر کوئی شخص ہمارے کسی عزیز رشتہ دار کو قتل کر کے ہم سے دنیا کی کسی جگہ کا راستہ پوچھے تو ہم اس سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تو ان کے ظرف کی عظمت کا کیا کہنا جو ایسے شخص کا ایک ایک نخرہ پورا کر کے اسے جنت کا راستہ دکھا رہے ہیں۔
ہبار بن الاسود کو معاف کردینا
(٥٤) ہبار بن اسود کا جرم یہ تھا کہ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت سیدنا زینب (رض) کو پشت میں نیزہ مارا تھا، اس وقت وہ حاملہ تھیں، وہ گرگئیں اور ان کا حمل ساقط ہوگیا، جس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ میں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہبار بن اسود آگیا، وہ بہت فصیح اللسان تھا، اس نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس نے آپ کو برا کہا اس کو برا کہا گیا۔ میں آپ کے پاس اسلام کا اقرار کرنے آیا ہوں، پھر اس نے کلمہ ٔ شہادت پڑھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا اسلام قبول کرلیا، اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنیز سلمہ آئیں اور انھوں نے ہبار سے کہا : اللہ تیری آنکھوں کو ٹھنڈا نہ کرے تو وہی ہے جس نے فلاں کام کیا تھا اور فلاں کیا تھا، آپ نے فرمایا : اسلام نے ان تمام کاموں کو مٹا دیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو برا کہنے اور اس کے پچھلے کام گنوانے سے منع فرمایا۔ (کتاب المغازی للواقدی ج ٢ ص ٨٥٨، ٨٥٧، مطبوعہ عام الکتب، بیروت )
منافقوں اور دیہاتیوں سے در گزر کرنا
(٥٥) امام بخاری روایت کرتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ مال تقسیم کیا۔ انصار میں سے ایک شخص نے کہا : خدا کی قسم ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تقسیم سے اللہ کی رضا جوئی کا ارادہ نہیں کیا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اس کی خبر دی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوگیا اور آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم فرمائے، ان کو اس سے زیادہ اذیت دی گئی تھی اور انھوں نے اس پر صبر کیا تھا۔ (صحیح بخاری ج ٣ ص ٨٩٥، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی، ١٣٨١ ھ)
امام واقدی متوفی ٢٠٧ ھ نے بیان کیا ہے کہ اس شخص کا نام معتب بن قشیر تھا اور یہ منافق تھا، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر خیر خواہی کی نیت سے کسی شخص سے اس کے متعلق کہا ہوا قول بیان کیا جائے کہ فلاں شخص آپ کے متعلق یہ کہہ رہا تھا، تو یہ چغلی نہیں ہے اور نہ ممنوع ہے، ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن مسعود (رض) سے فرماتے : تم چغلی کیوں کر رہے ہو ؟ چغلی اس وقت ہوتی ہے جب کوئی شخص فساد ڈالنے اور دو آدمیوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی نیت سے ایک کی بات دوسرے شخص تک پہنچاتا ہے، اور اس حدیث میں آپ کی نرمی اور ملائمت کا بیان بالکل واضح ہے۔
(٥٦) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہا تھا، اس وقت آپ ایک نجرانی ( یمنی) چادر اوڑھے ہوئے تھے، راستہ میں ایک اعرابی ( دیہاتی) ملا، اس نے بہت زور سے آپ کی چادر کھینچی، حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو کندھوں کے درمیان چادر کا نشان پڑگیا تھا، پھر اس نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم دیجئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف متوجہ ہو کر مسکرائے پھر اس کو مال دینے کا حکم دیا۔ (کتاب المغازی ج ٢ ص ٩٠٠، مطبوعہ عالم الکتب، بیروت)
(ماخوذ از تبيان القرآن ، از مولانا غلام رسول سعيدى )
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.