اسلام دورِ جدید کا خالق

اسلام دورِ جدید کا خالق

نوٹ: يہ  اسكولى بچوں كے معيار كى سائنس اور علمِ جديد كے ميدان ميں مسلم سائنس دانوں كے شاہكار كارناموں پر ايك مختصر  اور جامع تقرير  ہے۔

اسلام دورِ جدید کا خالق

بقلم: محمد ہاشم قاسمى بستوى۔

باوقار  صدرِ محفل، محترم اساتذہ کرام اور میرے پیارے ساتھیو!

السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ

محترم سامعين! آج کا دور، جدت، ترقی اور سائنسی انقلابات کا دور ہے،  اور اسلام صرف عبادت یا مذہبی نظام كا نام ہى نہیں، بلکہ يہ  ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ صرف مسجد تک محدود نہیں، بلکہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو منظم کرتا ہے،  چاہے وہ سیاست ہويا  معیشت ، تعلیم ہو یا معاشرت، دين ہو يا شريعت وہ ہر ميدان ميں اپنے پيروكاروں كو بڑھ چڑھ كر خوشہ چينى  كرنے اور ان ميں حصہ لينے كى ترغيب ديتا ہے۔

سامعين باوقار! آج میری گفتگو کا عنوان ایک گہرے فکری نقطے کو اجاگر کرتا ہے، اور وہ عنوان ہے: “اسلام دورِ جدید کا خالق” یہ عنوان  بظاہر چونکا دینے والا ہے،  اور اسلام كى تاريخ سے ناواقف لوگوں كے ليے بڑا مضحكہ خيز  بھى ہو سكتا ہے، كہ كيا واقعى اسلام دورِ جديد كا خالق ہے؟ كيا سائنس كى اہم اہم ايجادات كا سہرا مسلمانوں كے سر ہے؟ يہ تو صرف كھوكھلا دعوى ہے، اس كى كوئى مضبوط دليل نہيں ہے؟

حاضرين محفل!  اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں اور اسلامى تاريخ كا گہرائى كے ساتھ جائزہ ليں تو يہ بات روزِ روشن كى طرح عياں ہو جائے گى كہ نویں  صدى  عيسوى سے تیرہویں صدی عیسوی تک كا  مسلم علمی دور جسے “سنہری دور”  (Golden Age) کہا جاتا ہے،اس دور كے  عظیم الشان سائنسى  کارناموں كو ديكھ كر يہ  اقرار کرنا پڑتا ہےكہ یہى  دور واقعى جدید تہذیب  اور دورِ جديد كى  بنیاد ہے۔

معزز حاضرين!  یورپ جب تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا،  علمِ جديد كى دنيا ميں اس كا كوئى نام ونشان نہ تھا   تب بغدادو دمشق، قاہرہ اور قرطبہ جيسے مسلم شہروں ميں علم و فن کے روشن مینار قائم تھے۔  بغداد، قرطبہ، غرناطہ، اور سمرقند جیسے شہر علم و تحقیق کے مراکز تھے۔مسلم سائنسدانوں، فلاسفروں اور ماہرینِ فلکیات نے نہ صرف یونانی علوم کو محفوظ کیا بلکہ انہیں تحقیق اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر مزید ترقی دی۔ ابنِ الہیثم نے مشاہدہ، مفروضہ اور تجربہ پر مبنی سائنسی طریقۂ کار متعارف کرایا، جس پر آج کی تمام جدید سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔ الخوارزمی نے ‘الجبرا’ (Algebra) اور ‘ہندسوں کا نظام’ (Decimal System) دنیا کو دیا، جس کے بغیر جدید ٹیکنالوجی، کمپیوٹرز اور حساب کتاب کا تصور بھی محال ہے۔ ابنِ سینا کی کتاب “القانون فی الطب” صدیوں تک مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ جابر بن حیان نے کیمیا (Chemistry) کو جادوگری سے نکال کر ایک باقاعدہ سائنس بنایا۔ بیت الحکمت، اور دنیا کی پہلی یونیورسٹی، جامعہ قزوین، اسی اسلامی دور کی تخلیق ہیں جنہوں نے منظم تعلیم اور لائبریری کے تصور کو فروغ دیا۔ اسى پر بس نہيں بلكہ اسلام نے عقل و فکر پر زور دیا، قرآن نے بارہا کائنات میں غور و فکر اورتدبر کا حکم دیا، اسی تحريک نے مسلم دانشوروں کو وہ علمی جستجو بخشی جس نے مغرب میں نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کی راہ ہموار کی، جو کہ جدید دور کا سنگِ بنیاد ہے۔

بہار اب جو دنيا ميں آئى ہوئى ہے

 يہ سب پود انہيں كى لگائى ہوئى ہے

سامعين با تمكين! ميرى اس مختصر سى گفتگو سے ہر غير متعصب دانشمند شخص بخوبى سمجھ سكتا ہے كہ اسلام محض ایک دین نہیں بلکہ ایک آفاقی فکری تحریک ہے جس نے انسانیت کو سوچنے، تحقیق کرنے اور علم کو بانٹنے کا سلیقہ سکھایا۔ اسلام  دورِ جديد كا خالق ہے،   سائنس كى بنياد اور اس كى آبيارى كا سر چشمہ ہے، ہمارے آج کے ترقی یافتہ دور کی جڑیں درحقیقت اسی اسلامی سنہری دور میں پیوست ہیں، اہل ِ يورپ كى تمام جديد ٹكنالوجى كى فلك بوس عمارتيں ہمارے اسلامى دور كى بنياد پر كھڑى ہيں ۔ یہ ہمارےاسلاف کا ورثہ ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔

میں اپنی بات اس شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں:

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے

وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا

شکریہ!

والسلام عليكم ورحمۃ الله بركاتہ

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply