(سلسلہ نمبر: 811).
نماز کے دوران بات کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے
سوال: کیا فرماتے مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
امام نے چار رکعت والی نماز میں دورکعت پر دونوں طرف سلام پھیر دیا، مقتدیوں نے بتایا کہ دو ہی رکعت ہوئی ہے امام از سر نو نماز شروع کرے گا یا وہیں سے کھڑا ہو کر بقیہ نماز مکمل کریگا؟ جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے گفتگو کے بعد بھی بقیہ دو رکعت مکمل کی جائے گی.
قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل واضح فرمائیں۔
المستفتی: عبدالحمید قاسمی، چماواں پھول پور اعظم گڑھ۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں دو رکعت پر دونوں طرف پھیرنے کے بعد امام کے خود بخود یاد آنے یا مقتدیوں کے سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہنے سے یاد آنے پر اگر امام بقیہ دو رکعت پوری کرکے سجدہ سہو کرلیا ہوتا تو نماز ہوجاتی، لیکن دوران نماز بات چیت کرنے سے خواہ امام کی غلطی پر تنبیہ ہی کیوں نہ ہو نماز ٹوٹ جاتی ہے اس کو از سر نو پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔
شروع اسلام میں دوران نماز بات چیت کرنے کی اجازت تھی لیکن بعد میں اس کو منسوخ کردیا گیا، چنانچہ صحیح بخاری میں باب ہے: بَابُ مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنَ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ، یعنی نماز میں بات کرنا منع ہے، اسی طرح صحیح مسلم میں بھی باب ہے: باب تَحْرِيمِ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ، یعنی نماز میں باتیں کرنا حرام ہے، اور پہلے جو اجازت تھی وہ منسوخ ہوگئی ہے، پھر دونوں کتابوں میں ایسی احادیث ذکر کی گئی ہیں جن میں نماز میں بات چیت کی ممانعت آئی ہے، لہذا اب بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ نماز میں گفتگو کے بعد بقیہ دو رکعت پوری کی جاسکتی ہیں سراسر جہالت کی بات ہے، شریعت کا صحیح علم نہ ہو تو مسائل بتانے سے گریز کرنا چاہئیے ورنہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
الدلائل
قال الله تعالى: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (البقرة: 238).
عن ابن مسعود قال : كنا نقوم في الصلاة فنتكلم ، ويسأل الرجل صاحبه عن حاجته ، ويخبره ، ويردون عليه إذا سلم ، حتى أتيت أنا فسلمت فلم يردوا علي السلام ، فاشتد ذلك علي ، فلما قضى النبي – صلى الله عليه وسلم – صلاته قال : إنه لم يمنعني أن أرد عليك السلام إلا أنا أمرنا أن نقوم قانتين لا نتكلم في الصلاة ، والقنوت : السكوت.
وعن السدي : ” وقوموا لله قانتين ” القنوت ، في هذه الآية ، السكوت.
وعن زر ، عن عبد الله قال : كنا نتكلم في الصلاة ، فسلمت على النبي – صلى الله عليه وسلم – فلم يرد علي ، فلما انصرف قال : قد أحدث الله أن لا تكلموا في الصلاة ، ونزلت هذه الآية : ” وقوموا لله قانتين ” .
وعن عكرمة في قوله : ” وقوموا لله قانتين ” قال : كانوا يتكلمون في الصلاة ، يجيء خادم الرجل إليه وهو في الصلاة فيكلمه بحاجته ، فنهوا عن الكلام.
وقال ابن زيد في قوله : ” وقوموا لله قانتين ” قال : إذا قمتم في الصلاة فاسكتوا ، لا تكلموا أحدا حتى تفرغوا منها . قال : والقانت المصلي الذي لا يتكلم. (تفسير الطبري: 5/ 228- 232).
وعن زَيْد بْن أَرْقَمَ : إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ : { حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ } . الْآيَةَ. فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ. (صحيح البخاري، رقم الحديث: 1200).
وعن معاوية بن الحكم السلمي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم …….. إنَّ هذه الصلاةَ ، لا يَصلُحُ فيها شيءٌ من كلامِ النَّاسِ ، إنما هو التَّسبيحُ ، و التَّكبيرُ ، و قراءةُ القرآنِ. (صحيح مسلم، رقم الحديث: 537).
ویفسدھا التکلم، وھو النطق بحرفین أو حرف مفہم الخ (الدر المختار، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا: 1/ 613 ط سعید).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
8- 1- 1446ھ 15-7- 2024م الاثنين
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.