(سلسلہ نمبر: 634)
تجارتی پلاٹ پر زکوٰۃ کا حکم
سوال: زید نے بزنس کرنے کے ارادہ سے ایک پلاٹ لیا ہے، کب فروخت ہوگا کہا نہیں جاسکتا، مثلا چھ ماہ بعد سال بعد یا دوسال بعد، ایسے میں کیا اُس پلاٹ پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوگی؟ (معلوم ہوکہ ابھی وہ فروخت نہیں ہوا ہے).
المستفتی: عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: جو زمین یا پلاٹ تجارت ہی کی نیت سے خریدا جائے، اس میں ہر سال اس کی یقینی قیمت فروخت پر زکوٰة فرض ہوگی، اور ہر سال مارکیٹ میں جو اس کی قیمت ہو اس کا اعتبار ہوگا، مثلاً: ایک پلاٹ آپ نے پچاس ہزار کا خریدا تھا، ایک سال کے بعد اس جیسے پلاٹ کی قیمت ستر پچہتر ہزار ہوگئی اور ستر ہزار میں فروخت ہونے کا غالب گمان ہو تو ستر ہزار کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
الدلائل
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ. (سنن أبي داود، رقم الحديث: 1562).
عن ابن جریج قال: سمعت أنا أنها قیمة العروض یوم تخرج زکاته. (مصنف عبد الرزاق ، الزکاۃ ، باب الزکاۃ من العروض: 6/ 97، الرقم: 7105، المجلس العلمي).
زکاۃ التجارۃ تجب فی الأرض ۔(رد المحتار: کتاب الزکاۃ، قبیل باب السائمة: 2/ 275 کراچی).
وسواء کان مال التجارۃ عروضًا أو عقارًا أو شیئًا مما یکال أو یوزن ، لأن الوجوب في أموال التجارۃ تعلق بالمعنی وهو المالیة والقیمة، وهذہ الأموال کلها في هذا المعنی جنس واحد. (بدائع الصنائع، فصل فی نصاب أموال التجارۃ: 2/ 416).
يقوم التاجر العروض أو البضائع التجارية في آخر كل عام بحسب سعرها في وقت إخراج الزكاة لا بحسب سعر شرائها، ويخرج الزكاة المطلوبة. (الفقه الإسلامي وأدلته: 2/ 792، دار الفكر).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
8- 9- 1442ھ 21- 4- 2021م الأربعاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.