hamare masayel

تصویر کشی کی اجرت

(سلسلہ نمبر: 604)

تصویر کشی کی اجرت

سوال: ایک صاحب فوٹو گرافی کرتےتھے اور وہی اُن کا ذریعہ معاش تھا، اُس پیسے کے بارے مِیں شرعاً کیا حکم ہے؟ مزید انہوں نےاُس پیسے سے ایک زمین بھی خرید لی ہے، توشرعاً اس زمین کاکیاحکم ہے؟برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح اور مدلل جواب مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

المستفتی: ابوحمزہ، سندری، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: جو فوٹو گرافر جائز و ناجائز دونوں طرح کے فوٹو تیار کرتا ہے، تو اس کا پیشہ تو سخت گناہ کا کام ہے؛ لیکن اس کی اجرت مع الکراہت حلال ہے؛ اس لئے کہ وہ اپنے سامان کی اجرت لیتا ہے، جو وہ فوٹو کی تیاری میں خرچ کرتا ہے۔(مستفاد: جواہر الفقہ، مکتبہ تفسیر القرآن، دہلی: 3/ 337، بحوالہ فتاویٰ قاسمیہ: 24/ 435)۔

الدلائل

رجل استأجر رجلا ليصور له صوراً، أو تماثیل الرجال في بیت، أو فسطاط، فإني أکرہ ذلك، وأجعل له الأجر، قال هشام: تأویله إذا کان الإصباغ من قبل الأجیر. (الفتاوی التاتارخانیة: 15/ 130، زکریا).

إذا آجر دابة لیحمل علیها الخمر أو نفسه لیرعى له الخنازیر، فإنه یطیب له الأجر عندہ، وعندهما یکره. (البحرالرائق: 8/ 203، زکریا).

ومن استأجر حمالا یحمل لع الخمر، فله الأجر في قول أبی حنیفة، وعند أبي یوسف ومحمد لا أجر له، کذا ذکر في الأصل، وذکر في الجامع الصغیر أنه یطیب له الأجر في قول أبي حنیفة، وعندهما یکرہ. (بدائع الصنائع:  4/ 41، زكريا).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

8- 7- 1442ھ 21- 2- 2021م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply