hamare masayel

جائیداد سے محروم کرنا، وراثت سے محروم کرنا، اولاد کو عاق کرنا

(سلسلہ نمبر: 363)

جائیداد سے محروم کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ رضوان صاحب کے والد جناب ذوالفقار صاحب نے اپنی موروثہ(جو باپ دادا سے ملی تھی) تمام جائداد کو فروخت کر دیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم اپنی بیٹیوں کو دے دیا، رضوان صاحب کو کچھ نھیں دیا اب پوچھنا ہے کہ ذوالفقار صاحب کا ایسا کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ اس میں رضوان صاحب کا حصہ ھوتا ھے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: محمد اظفر چورسنڈ، جون پور۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

جب تک مورث  (ذو الفقار صاحب) زندہ ہیں تب وہ اپنی جائداد کے مالک ہیں، اس میں ان کی بالغ اولاد کا شرعاً  کوئی حق نہیں ہے، البتہ اگر وہ اپنی زندگی میں اولاد کو ہبہ کرنا چاہیں تو سب کے درمیان برابری کرنی چاہئے، یعنی جتنا اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں اتنا ہی بیٹے کو بھی دینا چاہئیے، اگر بلا کسی وجہ کے ساری جائیداد اپنی زندگی میں بیٹی کو دیدیں اور وہ قبضہ کرلے تو وہ مالک ہوجائے گی؛ لیکن ذوالفقار صاحب گنہ گار ہوں گے اس لئے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئیے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ’’جو شخص اپنے وارث کی میراث قطع کرے گا تو اللہ تعالیٰ جنت میں اُس کی وراثت میں سے قطع کرے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف 1/266).

نوٹ: اگر ذو الفقار صاحب اپنے بیٹے رضوان سے کسی ناراضگی کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں تو رضوان صاحب کو اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئیے ان کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے ورنہ رضوان صاحب بھی گنہ گار ہوں گے. اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے۔ (آمین) ۔

الدلائل

 عن النعمان بن بشیر رضي اللّٰہ عنه أنّ رسول اللّٰه ﷺ قال: ألک بنون سواہ؟ قال: نعم، قال: فکلهم أعطیت مثل هذا، قال: لا، قال: فلا أشهد علی جور۔ (صحیح مسلم، الهبات/ کراهة تفضیل بعض الأولاد في الهبة، الرقم: 1623).

عن أنس بن مالك ، قال : قال رسول الله ﷺ: “من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة”. (سنن ابن ماجة: الوصية/ الحيف في الوصية، الرقم: 2703).

المختار: التسویة بین الذکر والأنثیٰ في الهبة. (البحر الرائق/ کتاب الهبة 7/ 490زکریا)

ولو وهب رجل شیئاً لأولادہ في الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض في ذٰلک لا روایة لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنیفة رحمه اللّٰه تعالیٰ أنه لا بأس به إذا کان التفضیل لزیادۃ فضل له في الدین، وإن کانا سواء یکرہ، وروی المعلی عن أبي یوسف أنه لا بأس به إذا لم یقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوی بینهم یعطي الإبنۃ مثل ما یعطي للإبن، وعلیه الفتویٰ. (الفتاویٰ الهندیة، الهبة/ الفصل السادس في هبة الصغیر 4/391 زکریا).

وفي الخانیة: رجل وهب في صحته کل المال للولد جاز في القضاء، ویکون آثما فیما صنع.  (الفتاوی التاتارخانیة 14/465 رقم: 21736 زکریا).

  والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند

18- 10- 1441ھ 11- 6- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply