hamare masayel

حرام آمدنی والوں کا چندہ یا دعوت قبول کرنا، حرام کمائی

حرام آمدنی والوں کا چندہ یا دعوت قبول کرنا

سوال: ایک محلہ جہاں نیک صالح حلال کمائی کرنے والے حرام کمائی کرنے والے اور سود خور وغیرہ ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں اور تقریبا سبھی لوگوں کا چندہ مسجد میں لگتا ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں، اب محلہ کے دوسرے طرح کے آدمی مسجد کے امام صاحب کو دعوت اور مستقلا کھانا کھلانا چاہتے ہیں اس میں کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ اگر امام صاحب سود خور وغیرہ کے گھر کا کھانا کھائیں تو انکے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے، یہ سن کر حرام کمائی کرنے والے کہنے لگے کہ چندہ کے وقت کوئی اعتراض نہیں اور کھانا کھلانے پر کیوں اعتراض ہوتا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو ہم دیکھیں گے کہ کون دودھ کا دھلا ہوا ہے اور انہی لوگوں کے پیسہ سے مسجد کا سارا کام ہونا چاہئے، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ محلہ کے اکثر لوگوں کی کمائی میں شک ہے اگر امام کے کھانا کو عام نہیں رکھا جائے تو بڑا فتنہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

المستفتی: مفتی عبد الباری قاسمی آسام

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

 جن لوگوں کی اکثر آمدنی حرام ہو ان کے چندے کو مسجد میں لگانا یا یا ان کے یہاں دعوت کھانا اس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ یقین سے معلوم نہ ہو جائے کہ یہ حلال آمدنی کا حصہ ہے یا خود وہ شخص یہ بتادے کہ یہ حلال آمدنی کا حصہ ہے۔

اور اس شخص کا مسجد میں چندہ لینا یا اس کے یہاں دعوت قبول کرنا جائز ہے جس کی اکثر آمدنی حلال ہو الا یہ کہ یقین سے معلوم ہو کہ یہ حرام آمدنی سے چندہ یا دعوت دے رہا ہے تو اس کا قبول کرنا جائز نہیں۔

اس لئے صورت مسئولہ میں مذکورہ اشخاص جب چندہ یا دعوت دیں تو ان سے معلوم کرلیں کہ حلال ہے تو قبول کر سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ والله اعلم بالصواب۔

الدلائل

غالب مال المهدي إن کان حلالاً، لا بأس بقبول هدیته وأکل ماله، ما لم یتعین أنه من حرام، وإن غالب ماله الحرام لا یقبلها ولا یأکل، إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه. (البزازیة علی هامش الفتاویٰ الهندیة، کتاب الکراهیة/ الفصل الرابع في الهدیة والمیراث 6/ 360 زکریا).

آکل الربا وکاسب الحرام أهدیٰ إلیه، أو أضافه وغالب ماله حرام، لایقبل ولا یأکل ما لم یخبره أن ذلک المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن کان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هدیته والأکل منها. (الفتاویٰ الهندیة 5/ 343).

لا یجیب دعوة الفاسق المعلن لیعلم أنه غیر راضٍ بفسقه، وکذا دعوة من کان غالب ماله من حرام ما لم یخبر أنه حلال، وبالعکس یجیب ما لم یتبین عنده أنه حرام، کذا في التمرتاشي، أکل الربا وکاسب الحرام أهدیٰ إلیه أو أضافه وغالب ماله حرام لایقبل ولا یأکل ما لم یخبره أن ذٰلک المال أصله حلال ورثه أو استقراضه. (الفتاویٰ الهندیة، کتاب الکراهیة/ الباب الثاني عشر 5/ 343).

وإن کان الرجل یأخذ المال من حیث وجده ولا یتأمل في الحلال والحرام، فالسوال عنه حسن. (الأشباه والنظائر ۱۵۸، کفایت المفتی7/ 47).

درء المفاسد أولی من جلب المصالح، فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالباً؛ لأن اعتناء الشرع بالمنهیات أشد من اعتناء ه بالمامورات. (الأشباه والنظائر 147).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 11- 12 – 1439 ھ 23-8-2018م الخميس

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply