دودھ بینک كى شرعى حيثيت
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے اس لئے اگر کوئی بچہ ماں کے دودھ سے محروم ہو تو اس کے لیے انسانی دودھ کو فراہم کرنے کی کیا شکل ہوگی؟اس مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے بعض ملکوں میں دودھ بینک قائم کیا جا رہا ہے اور وہاں خواتین کے دودھ کو مفت حاصل کر کے یا خرید کر جمع اور محفوظ کیا جاتا ہے اور پھر ضرورت مندوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح سے خواتین کے دودھ کو جمع کرنا اور فراہم کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے کیونکہ دودھ پینے کی عمر میں کسی خاتون کے دودھ کو پینے کی وجہ سے رضاعت کا رشتہ استوار ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ان تمام لوگوں سے نکاح کرنا حرام ہو جاتا ہے جن سے نسب کی وجہ سے نکاح کرنا حرام ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب.
رضاعت کی وجہ سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔(صحیح بخاری :2645)
اور اس طرح سے دودھ کو محفوظ کرنے اور فراہم کرنے کی وجہ سے یہ پتہ لگانا بڑا دشوار ہوگا کہ کس نے کس خاتون کے دودھ کو تناول کیا ہے ؟ اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی لاعلمی کی وجہ سے رضاعی رشتہ داروں سے نکاح کا تعلق قائم کر کے حرام کا ارتکاب کرے؛ اس لیے اس طرح کی چیزوں میں شدید احتیاط کی ضرورت ہے۔ نیز اس طرح سے دودھ جمع کرنے اور پلانے میں بہت سے اخلاقی اور شرعی مفاسد پائے جاتے ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ حرمت رضاعت کے ثبوت کے لیے چھاتی سے منہ لگا کر دودھ پینا شرط نہیں ہے بلکہ کسی بھی طرح سے بچے کے پیٹ میں دودھ پہنچ جائے تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔چاروں امام اسی کے قائل ہیں ۔کیونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لَا رِضَاعَ إِلَّا مَا شَدَّ الْعَظْمَ وَأَنْبَتَ اللَّحْمَ. (سنن أبي داود: 2059)
’’ رضاعت وہی معتبر ہےجوہڈیوں کومضبوط بنائے اورگوشت کو بڑھائے ۔
اور حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: لَا يُحَرِّمُ مِنَ الرِّضَاعَةِ، إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ وَكَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ. (سنن الترمذي: 1152)
رضاعت سے حرمت اسی وقت آتی ہے جب کہ دودھ پلانے کی مدت میں اس سے آنتیں کھل جائیں اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو۔
رضاعت کی مدت میں عورت کا دودھ نکال کر پلانے سے بھی پستان سے پینے کی طرح دودھ پیٹ تک پہونچ جاتا ہے اور ہڈی میں مضبوطی اور گوشت میں بڑھوتری ہوتی ہے نیز اس سے آنتیں کھل جاتی ہیں۔
لہذا دودھ بینک سے دودھ حاصل کر کے کسی بچے کو پلایا گیا ہے تو جن عورتوں کے دودھ کو اس نے استعمال کیا ہے ان سے حرمت رضاعت متعلق ہو جائے گی۔
علاوہ ازیں اس ضرورت کی تکمیل کے لئے ایک شرعی متبادل موجود ہے کہ کسی خاتون سے دودھ پلانے کا معاملہ طے کرلیا جائے ۔اور اس کی متعین اجرت ادا کردی جائے ،اور اس طرح کا معاملہ انسانی کرامت و شرافت کے خلاف نہیں ہے بلکہ عزت و احترام کا ایک ذریعہ ہے کہ دودھ پلانے والی خاتون اور اس کے شوہر دودھ پینے والے کے لئے ماں باپ کے درجے میں اور ان کے بیٹے بیٹیاں بھائی بہن کے حکم میں آجاتے ہیں غرضیکہ کہ نسب کی طرح سے ایک خاندان کا وجود ہوجاتا ہے ۔
اس کے برعکس پستان سے دودھ نکال کر بیچنا انسانی شرافت کے خلاف ہے کہ جانور کی طرح سے انسانی دودھ کو بھی سامان تجارت بنانا ہے حالانکہ انسان اپنے تمام اجزاء کے ساتھ غیر مملوک اور ناقابلِ فروخت ہے ۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.