hamare masayel

رضاعی بھتیجه کے ساتھ عمره، عمرہ كے مسائل

رضاعی بھتیجه کے ساتھ عمره

سوال: میری والدہ اپنی پھوپھی کے ساتھ عمرہ کے سفر پر جانا چاہتی ہیں اور ساتھ میں پھوپھی کا پوتا بھی ہے نیز اسکے علاوہ کئی عورتیں اور ہیں میں جاننا یہ چاہتا ہوں کہ کیا اس سفر میں جس میں میری والدہ کے ساتھ انکی پھوپھی کا پوتا بھی ہے حالانکہ میری والدہ کی ماں یعنی میری نانی نے پھوپھی کے لڑکے کو یعنی اس پوتے کے والد کو دودھ بھی پلایا ہے جس سے وہ لڑکا میری والدہ کا رضاعی بھتیجہ بھی لگتا ہے کیا اس سفر میں میری والدہ جاسکتی ہیں اس لڑکے کے ساتھ حالانکہ میرے والد اور میرے ماموں پہلے سے مدینہ شریف میں موجود ہیں، براہ مہربانی جواب مرحمت فرمائیں۔

  المستفتی: محمد رافع، جمدہاں، جون پور

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

 رضاعی بھتیجے کے ساتھ عورت حج عمرہ پر جاسکتی ہے کیونکہ وہ اس کا محرم ہے (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم 7/218، آپ کے مسائل اور ان کا حل 299/5).

معلم الحجاج میں ہے: محرم وہ مرد ہے جس سے نکاح کسی وقت بھی جائز نہ ہو خواہ نسب کے اعتبار سے یعنی رشتہ دار ہو، یا رضاعت یعنی دودھ کی شرکت کے اعتبار سے، جیسے بھائی بھتیجے، تایا چچا وغیرہ، یا مصاہرت یعنی سسرالی رشتہ کی وجہ سے جیسے داماد اورخسر؛ مگر اس زمانہ میں سسرالی اور دودھ کے رشتہ سے احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ فتنہ کا زمانہ ہے اس لئے ان لوگوں کے ساتھ حج نہ کیا جائے (معلم الحجاج ص 84، شرائط حج، شرائط وجوب ادا)

صورت مسئولہ میں چونکہ آپکی والدہ کے ساتھ اور عورتوں کے علاوہ آپکی والدہ کا رضاعی بھتیجا بھی ہے اس لیے اس سفر میں کسی فتنے کا کوئی قوی اندیشہ نہیں ہے نیز حرمین شریفین میں آپ کے والد اور ماموں بھی موجود ہیں اس لیے مذکورہ بالا صورت میں آپ کی والدہ عمرہ کے سفر پر جاسکتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه ﷺ: لا یحل لامرأة مسلمة تُسافر مسیرة لیلة، إلا ومعها رجلٌ ذو حُرمة منها.

عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه عن النبي ﷺ قال: لا یحلُّ لامرأة تُؤمن باللّٰه والیوم الآخر، تُسافر مسیرة یومٍ، إلا مع ذي محرم.

عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه ﷺ قال: لا یحل لامرأة تُؤمن باللّٰه والیوم الآخر، تُسافر مسیرة یومٍ ولیلة، إلا مع ذي محرمٍ علیها. (صحیح مسلم، کتاب الحج/ باب سفر المرأة مع محرم إلی حج وغیره:  ۱۳۳۹بیت الأفکار الدولیة)

فیباح لها الخروج إلی ما دونه لحاجة بغیر محرم، وروي عن أبي حنیفة وأبي یوسف کراهة خروجها وحدها مسیرة یوم واحد، وینبغي أن یکون الفتویٰ علیه لفساد الزمان. (شامي 2/ 464 کراچی، 3/ 465 زکریا).

قال في الهدایة: ولا یجوز لها أن تحج بغیرهما (أي الزوج والمحرم) إذا کان بینها وبین مکة ثلاثة أیام … بخلاف ما إذا کان بینها وبین مکة أقل من ثلاثة أیام؛ لأنه یباح لها الخروج إلی ما دون السفر بغیر محرم. (الهدایة/ کتاب الحج 1/ 233 مکتبة شرکة العلمیة ملتان، 1/ 251 مکتبه بلال دیوبند).

وأصله یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب. (شامي4/ 404 زکریا).

ولا حل بین الرضیعة، وولد مرضعتها التي أرضعتها وولدها؛ لأنه ولد الأخ. (شامي 4/ 410 زکریا).

 إن ﷲ حرم من الرضاعة ماحرم من النسب. (مشکوٰة المصابيح ص273 باب المحرمات) ….. ویحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب(الهداية ص 331).

والله أعلم

 تاريخ الرقم: 14/1/1440ه 25/9/2018م الثلاثاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply