روزہ کی حالت میں قے کا حکم
سوال : قے سے روزہ ٹوٹنے کی کیا شکل ہوسکتی ہے؟
المستفتی: محمد یعقوب أعظمی (مقیم حال ملیشیا)
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
روزہ کی حالت میں اگر خود بخود قے ہوجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے منہ بھر ہو یا اس سے کم، بشرطیکہ قے کو منہ سے باہر کر دیا ہو یا خود بخود اندر چلی جائے اور اگر منہ بھر ہو اور خود بخود اندر نہیں گئي بلكہ قصدا نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
اور اگرجان بوجھ کر روزہ یاد ہونے کی حالت میں مثلاً انگلی ڈال کر قے کی تو منہ بھر کر قے کرنے کی صورت میں بالاتفاق روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اگر منہ بھر سے کم ہے تو اس بارے میں اختلاف ہے، حضرت امام محمدؒ سے ظاہر الروایہ میں مروی یہ ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے گا، جب کہ حضرت امام أبو یوسفؒ کا قول یہ ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا، بعض فقہاء نے امام ابویوسفؒ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام محمد ؒ کے قول میں احتیاط زیادہ ہے۔ (کتاب المسائل: 2/ 155 تا 163)
الدلائل
وإن ذرعه القيء وخرج ولم یُعِد لا یفطر مطلقاً ملأ أو لا، فإن عاد بلا صنعه ولو هو ملأ الفم مع تذکره للصوم لا یفسد، خلافاً للثاني، وإن أعاده أفطر إجماعًا إن ملأ الفم، وإلا لا، هوالمختار، وإن استقاء أي طلب القي عامداً أي متذکراً لصومه إن کان مِلء الفم فسد بالإجماع مطلقًا، وإن أقل لا، عند الثاني وهو الصحیح؛ لکن ظاهر الروایة کقول محمدؒ إنه یفسد کما في الفتح عن الکافي. (الدر المختار، کتاب الصوم/باب ما یفسد الصوم وما لا یفسده: 3/ 192، 193) زکریا، مراقي الفلاح/باب في بیان ما لا یفسد الصوم362 کراچی، الهدایة: 1/ 218، البحر الرائق 2/274 کراچی).
وإن استقاء عمداً وخرج إن کان ملء الفم فسد صومه بالإجماع ……وإن کان أقل من مل فمه أفطر عند محمدؒ … ولا یفطر عند أبي یوسف وهو المختار عند بعضهم لکن ظاهر الروایة کقول محمد ذکره في الکافي. (فتح القدیر 2/340 دار الفکر بیروت).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 5/9/1439ه 21/5/2018م الاثنين
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.