ریٹائرمنٹ پر خراجِ تحسین
بقلم: محمد ہاشم قاسمى بستوى
سامعين كرام! آج كى الوداعى تقريب كے موقع پر ہم سب كے چہروں پر خوشى وغم دونوں طرح كے متضاد اثرات نماياں ہيں، ايسے مواقع زندگى ميں كبھى كبھى آتے ہيں، اور وہ اپنا لازوال اثر چھوڑجاتے ہيں، غم تو اس بات كا ہے كہ آج ہمارے درميان سے ايك ايسى شخصيت جدا ہو رہى ہے جن كے ساتھ ہم سب كى بھولى بسرى، كھٹى ميٹھى ياديں وابستہ تھيں، جن كے سائے تلے اس چمن كا ہر پرندہ مگن تھا، ميرى مراد عالى جناب ……….. سے ہے جن كى جدائى اور ريٹائرمنٹ سے ہم سب رنجيدہ ہيں:
دمِ فرقت عجب عالم ہے دل كى بيقرارى كا
كہ جيسے فصلِ گل ماتم كرے بادِ بہارى كا
اور خوشى اس بات كى ہے كہ ايك استاذ کبھی بھى ریٹائر نہیں ہوتا وہ قوم کی رگوں میں خون بن کر زندہ رہتا ہے، وہ اپنے شاگردوں دلوں ميں رچا بسا رہتا ہے، کچھ لوگ اپنی سروس کا دورانہ اس انداز میں گزارتے ہیں کہ وہ زندگی بھر کیلئے امر ہوجاتے ہیں انہيں ميں سے ايك شخصيت ……… جى كى ہے:
مت سہل ہميں جانو پھرتا ہے فلك برسوں
تب خاك كے پردے سے انسان نكلتے ہيں
سامعين با تمكين! موصوف نے اپنى پورى زندگى ايجوكيشن كے ليے وقف كردى، تقريبا 34 سال كا ايك لمبا عرصہ قوم كے نونہالوں كو دے ديا، ان كو سنوارنے بنانے ميں اپنا سب كچھ قربان كرديا، ان كے
بتائے ہوئے راستے پر چل كر نہ جانے ان كے كتنے شاگرد ايك باعزت شہرى كى زندگى گزار رہے ہيں:
تيرے خرامِ ناز سے آج وہاں چمن كھلے
فصليں بہار كى جہاں خاك اڑا كے رہ گئيں
معززسامعين! موصوف ایک شفیق استاد تھے انہوں نے ہمیشہ اپنے ماتحت اسٹاف کی رہنمائی کی اور کبھی کسی کے بارے میں قلم کا غلط استعمال نہیں کیا ان کی تعلیم و تعلم کے حوالہ سے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
دوستو! آج ایک سرکاری ملازم ضرور ریٹائرڈ ہو رہا ہے مگر استاد کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا وہ اپنی نسل میں ہميشہ زندہ رہتا ہے مجھے اس تقریب میں آکر فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میں ایک ایسے استاد کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں شریک ہوں جنہوں نے ایک بھرپور تعلیمی زندگی پوری كى اوردوران سروس ایجوکیشن کے شعبہ میں اپنا پورا حق ادا كيا، اب ميں يہ شعر كہہ كر اپنى بات ختم كر رہا ہوں كہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.