زكاة كے ليے کرنسی کا نصاب
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔
کرنسی کے نصاب کے لئے سونے یا چاندی کو معیار بنانے کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، عام طورپر متحدہ ہندوستان کے علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کے لیے چاندی کو معیار بنایاجائے گا، لہٰذا جس کے پاس360ء 612گرام چاندی کی قیمت کے بقدر کاغذی نوٹ ہو تو وہ صاحب نصاب سمجھاجائے گا اور اس پر زکاۃ واجب ہوگی، کیونکہ چاندی کو معیار بنانے میں فقیروں اور مسکینوں کازیادہ فائدہ ہے کہ اس کے سبب دولت مندوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور زیادہ سے زیادہ زکات حاصل ہوگی اور اما م ابوحنیفہ کے نزدیک زکاۃ کے معاملے میں ترجیح اسی کو دی جاتی ہے جس میں فقیروں کا زیادہ فائدہ ہو، فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی اور سعودیہ کے علماء کی کمیٹی نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اس کے برخلاف بعض عرب اور متحدہ ہندوستان کے کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ سونے کو معیار بنایاجائے گا، کیونکہ چاندی کومعیار بنانے کی وجہ سے بہت معمولی مقدار کی کرنسی میں زکاۃ واجب ہوجائے گی، جیسے کہ موجودہ دور میں اگر کسی کے پاس سال بھرتک تقریباً چالیس ہزار روپیہ محفوظ رہا یا وہ فٹ پاتھ پر اتنے روپیہ کا سامان لے کر بیچنے لگے تو اس پرزکاۃ واجب ہوجائے گی اور اسے زکاۃ لینا حرام ہوگا، حالانکہ ا س مقدار کی رقم کی وجہ سے کوئی بھی عرف اور سماج میں مالدار نہیں سمجھاجاتا اور نہ ہی اتنے روپیہ کی تجارت سے اس کے لئے ایک چھوٹے سے پریوار کا خرچ نکالنا آسان ہوگا اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی مایہ ناز کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:
’’وإنما قدرالنصاب بخمس أواق من الفضة لأنها مقدار يکفی أقل أهل بيت سنة کاملة إذا کانت الأسعار موافقة في أكثر الأقطار. (حجة الله البالغة)
چاندی کا نصاب دو سو درہم اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی مقدار ہے جو نرخ موافق ہونے کی صورت میں اکثر ممالک میں ایک چھوٹے خاندان کے لئے پورے سال تک کافی ہوتی ہے ۔
علاوہ ازیں سونے کے نصاب کو اونٹ، بکری وغیرہ کے نصاب سے موازنہ کیاجائے تو بہت کم فرق نظر آئے گا، اس کے برخلاف اگر موجودہ دور میں چاندی کے نصاب کے ذریعے موازنہ کیاجائے تو پھرکوئی نسبت نہیں ہوگی۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.