زکوٰة کے وجوب کے لئے مال کا سال بھر موجود ہونا ضروری ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین کہ میرے پاس یکم جنوری کو پچیس ہزار روپئے ہیں جو میری ماہانہ تنخواہ ہے اور یہ پچیس ہزار روپئے ماہانہ راشن میں یقینی طور پر خرچ ہونے والے ہیں ۔ میں اپنے گھر کا راشن ہر مہینہ کی پانچ تاریخ کو خریدتا ہوں ،لیکن ابھی پہلی تاریخ کو میں نے راشن نہیں خریدا ، اب ایسی صورت میں کیا میں ان پانچ دنوں تک صاحب نصاب کہلاؤں گا اور اس دوران اگر کوئی مجھے زکات دینا چاہے تو میرے لیے زکات کا لینا جائز ہے یا نہیں؟
اور نیز اس ماہ جنوری میں پچیس ہزار روپئے میں سے ایک ہزار روپئے میرے پاس بچ گئے جو پورا سال بچے رہے اور پھر اگلے سال یکم جنوری کو مجھے پچیس ہزار روپئے تنخواہ ملی ۔ یعنی سال کے شروع اور آخر میں نصاب مکمل ہے اور درمیان سال ایک ہزار روپئے ہمیشہ باقی رہے ۔تو کیا اگلے سال یکم جنوری کو مجھے اپنی تنخواہ اور ایک ہزار یعنی کل چھبیس ہزار روپئے کی زکات نکالنا واجب ہے؟
یا پھر زکات کے واجب ہونے کے لیے بچت کا نصاب کے برابر ہونا ضروری ہے؟
یعنی زکات کے سال کا آغاز تنخواہ ملنے کے دن سے ہوگا یا تنخواہ راشن وغیرہ میں خرچ ہوجانے کے بعد بچت کی تاریخ سے ہوگا؟
برائے مہربانی با حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی: گلفام حسین۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
صورت مسئولہ میں پہلی صورت میں جتنے دن آپ کے پاس پچیس ہزار روپئے ہیں اتنے دن آپ زکوٰة کے مصرف نہیں ہیں اس لئے کہ موجودہ وقت میں چاندی کی قیمت کے اعتبار سے پچیس ہزار روپئے نصاب سے زائد ہیں، لیکن جب آپ یہ رقم خرچ کردیں تو اگر کوئی آپ کو زکوٰة دے گا تواس کی زکوٰة ادا ہو جائے گی البتہ آپ کے لئے زکوٰة لینا بہتر نہیں ہے کیونکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ضروریات پچیس ہزار میں پوری ہوجاتی ہیں بلکہ ہزار روپئے بچ بھی جاتے ہیں۔
البتہ دونوں صورتوں میں آپ پر زکوٰة واجب نہیں ہے اس لئے کہ ضرورت اصلیہ میں خرچ کے بقدر نصاب مال کا شروع وآخر سال میں موجود ہونا اور سال بھر کچھ نہ کچھ مال کا بچا رہنا شرط ہے۔ واللہ اعلم۔
الدلائل
ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا ” لأنه فقير والفقراء هم المصارف ولأن حقيقة الحاجة لا يوقف عليها فأدير الحكم على دليلها وهو فقد النصاب. (الهداية1/ 112).
قوله: “ولو صحيحامكتسبا” الأولى عدم أخذ لمن له سداد من عسر كذا في البدائع. (حاشية الطحطاوي1/ 719).
(قَوْلُهُ: فَارِغٍ عَنْ حَاجَتِهِ) قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: قَدْرُ الْحَاجَةِ هُوَ مَا ذَكَرَهُ الْكَرْخِيُّ فِي مُخْتَصَرِهِ فَقَالَ: لَا بَأْسَ أَنْ يُعْطِيَ مِنْ الزَّكَاةِ مَنْ لَهُ مَسْكَنٌ، وَمَا يَتَأَثَّثُ بِهِ فِي مَنْزِلِهِ وَخَادِمٌ وَفَرَسٌ وَسِلَاحٌ وَثِيَابُ الْبَدَنِ وَكُتُبُ الْعِلْمِ إنْ كَانَ مِنْ أَهْلِهِ، فَإِنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ عَنْ ذَلِكَ تَبْلُغُ قِيمَتُهُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ حَرُمَ عَلَيْهِ أَخْذُ الصَّدَقَةِ، لِمَا رُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ كَانُوا يَعْنِي: الصَّحَابَةَ يُعْطُونَ مِنْ الزَّكَاةِ لِمَنْ يَمْلِكُ عَشَرَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ مِنْ السِّلَاحِ وَالْفَرَسِ وَالدَّارِ وَالْخَدَمِ، وَهَذَا؛ لِأَنَّ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ مِنْ الْحَوَائِجِ اللَّازِمَةِ الَّتِي لَا بُدَّ لِلْإِنْسَانِ مِنْهَا. (رد المحتار 2/ 243-348).
أَمَّا الْغِنَى الَّذِي تَجِبُ بِهِ الزَّكَاةُ فَهُوَ أَنْ يَمْلِكَ نِصَابًا مِنْ الْمَالِ النَّامِي الْفَاضِلِ عَنْ الْحَاجَةِ الْأَصْلِيَّةِ. (بدائع الصنائع: 2/ 48).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 21- 6- 1441ھ 16- 2- 2020م الأحد.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.