hamare masayel

زمین کی خرید وفروخت میں دلالی کا حکم، کمیشن کا حکم اور شرعی حیثیت

 زمین کی دلالی کا حکم

سوال: آج کل زمین کی خرید وفروخت میں دلالی عام ہے،  دلالی کی کمائی میں کون سی شکل حلال ہے اور کون سی شکل حرام؟؟  اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں ۔

نیز کبھی کبھی ایک ہی زمین کی خرید وفروخت میں دو دو وسیط رہتے ہیں اور بیچ میں رہ کر کمیشن کھاتے ہیں اس طرح کی کمائی کا کیا حکم ہے؟ اس کی جائز اور ناجائز شکل دونوں واضح کردیں ۔بڑی مہربانی ہوگی۔

المستفتی: مفتی محمد یعقوب اعظمی ملیشیا۔

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب:

بائع اور مشتری کے درمیان معاملات طے کرانے میں جو شخص اپنا کردار اداکرتا ہے، اس کو  ’’دلال‘‘ یا ’’سمسار‘‘ کہا جاتا ہے.

دلالی میں اگر باقاعدہ معاملہ طے ہو اور اجرت متعین ہو (فیصد اور پرسینٹیز بھی تعیین کی ایک شکل ہے) یعنی کسی قسم کی جہالت نہ ہو،  تو فی نفسہ اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔

اور اگر معاملہ مجہول (باعث نزاع) ہو تو یہ دلالی شرعاً فاسد ہوگی، اور کام پورا ہونے پر اجرت مثل (اس جیسے کام کی اجرت) ملے گی۔

لیکن اگر جہالت معمولی ہو یا کثر ت تعامل کی وجہ سے موجب نزاع نہ رہی ہو تو اس کو متاخرین فقہاء نے ضرورة جائز قرار دیا ہے۔

نوٹ: ایک ہی زمین کے لئے ایک سے زائد دلال رکھنا بھی جائز ہے اور وہ اگر بائع ومشتری دونوں سے دلالی لینا چاہیں اور پہلے سے متعین کرلیں تو یہ بھی جائز ہے۔ (دیکھئے: امداد الفتاوی، فتاوی رشیدیہ، فتاوی دارالعلوم دیوبند، فتاویٰ محمودیہ، احسن الفتاوی)

الدلائل

والسمسار في الأصل هو القیم بالأمر والحافظ له، ثم استعمل في متولی البیع والشراء لغیره. (تکملة فتح الملهم/ باب تحریم الحاضر للبادی 1/ 336 مکتبة دارالعلوم کراچی)

والسمسرة اصطلاحا: هي التوسط بین البائع والمشتري، والسمسار هو الذي یدخل بین البائع والمشتري متوسطاً لإمضاء البیع وهو المسمّی الدلال؛ لأنه یدل المشتري علی السلع، ویدل البائع علی الأثمان. (الموسوعة الفقهیة 10/ 151، 152)

وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن کان في الأصل فاسدًا، لکثرة التعامل، وکثیر من هٰذا غیر جائز، فجوزوه لحاجة الناس إلیه کدخول الحمام، وعنه قال: رأیت ابن شجاع یقاطع نساجاً ینسج له ثیاباً في کل سنة.

قلت: والحاصل أن الجهالة الیسیرة عفو في ما جری به التعامل، لکونها لاتفضي إلی النزاع عادة۔ (إعلاء السنن / باب أجر السمسرة 16/ 245 دار الکتب العلمیة بیروت، 16/ 202إدارة القرآن کراچی)

السمسرة نوعان:

(1) سمسرة بیع الحاضر: وهٰذه جائزة، وأجر صاحبها حلال، وشرط فیها الجمهور أن تکون أجرة السمسار معلومة۔

(2) سمسرة الحاضر للبادي: صورتها أن یتولي الحضری بیع السلعة البدوي بأن یصیر الحاضر سمساراً للبادي، وبها قال الجمهور والحنفیة۔ حکمها جمهور الفقهاء علی التحریم. (صحیح فقه السنة وتوضع مذاهب الأئمة 4/ 277 الشاملة)

وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل. (شامي، کتاب الإجارة، باب ضمان الأجیر، مطلب في أجرة الدلال، زکریا 9/ 87، کراچی 6/ 63، هندیة، زکریا، قدیم 4/ 450، جدید 4/ 487).

سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن کان في الأصل فاسدا لکثرة التعامل، وکثیر من هذا غیر جائز، فجوزوه لحاجة الناس إلیه۔ (شامي، کتاب الإجارة، مطلب في أجرة الدلال، کراچی 6/ 63، زکریا 9/ 87، التاتارخانیة، زکریا 15/ 137، رقم: 22462)

وأما الدلال: فإن باع العین بنفسه بإذن ربها فأجرته علی البائع، وإن سعی بینهما وباع المالک بنفسه یعتبرالعرف (تحته في الشامیة:فتجب الدلالة علی البائع أو المشتري أو علیهما بحسب العرف جامع الفصولین. (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا 7/ 93، کراچی 4/ 560، تنقیح الفتاوی الحامدیة 1/ 247، مجمع الضمانات 1/ 54).

وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ (هندیة، کتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشیوع … زکریا قدیم 4/ 450، جدید 4/ 487، الأشباه والنظائر، الفن الثاني، کراچی 2/ 60)

 في’’عمدة القاري شرح صحیح البخاري‘‘: قال ابن عباس: لا بأس أن یقول: بع هذا الثوب فما زاد علی کذا وکذا فهو لک، علقه البخاري ، ووصله ابن أبي شیبة عن هشیم، عن عمرو بن دینار، عن ابن عباس نحوه، وهذا سند صحیح ۔ (403/11).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 1- 12- 1440ھ 3- 8- 2019م السبت.

المصدر: آن لائن إسلام

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply