hamare masayel

زندگی میں جائیداد کی تقسیم، زندگی میں مال کی تقسیم

(سلسلہ نمبر: 373)

زندگی میں جائیداد کی تقسیم

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلماء عظام میرے خالو الحاج نبی احمد ابن حاجی نظام الدین جو میرے خسر بھی ہیں انکی چار بیٹیاں ہیں جبکہ بیٹا ایک بھی نہیں ہے،  مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ تقسیم  کس طرح ہوگی؟ آیا وہ اپنی مرضی سے جس کو جتنا چاہیں دیدیں یاکہ مالیت کے اعتبار سے برابر برابر تقسیم کرنا ہوگا؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: محمدازہر جونپوری، مقیم حال دوحہ، قطر۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 اپنی اولاد کو زندگی میں جو دیا جاتا ہے اس کو ہبہ کہتے ہیں اور اولاد کے درمیان ہبہ کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک برابر برابر دیا جائے، بلا وجہ نہ کسی کو محروم کرے اور نہ بلا سبب کسی کا حصہ کم زیادہ کرے، اگر بلا وجہ کمی زیادتی کی گئی تو یہ غیر شرعی تقسیم ہوگی اور ایسا کرنے والا شخص گنہ گار ہوگا۔

البتہ کسی اولاد کو کسی معقول وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے؛ لیکن شرط ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔

الدلائل

 عن النعمان بن بشیر رضي اللّٰہ عنہ وہو علی المنبر یقول: أعطاني أبي عطیۃ، فقالت عمرۃ بنت رواحۃ: لا أرضی حتی تشہد رسول اللّٰہ ﷺ ، فأتی رسول اللّٰہ ﷺ ، فقال: إني أعطیت ابني من عمرۃ بنت رواحۃ عطیۃ، فأمرتني أن أشہدک یا رسول اللّٰہ! قال: أعطیت سائر ولدک مثل ہٰذا؟ قال: لا، قال: فاتقوا اللّٰہ واعدلوا بین أولادکم۔ قال: فرجع، فردّ عطیتہ. (صحیح البخاري/ باب الإشہاد في الہبۃ 1/352 رقم: 2515).

قال رسول الله ﷺ: سووا بين أولادكم في العطية، فلو كنت مفضلا أحداً لفضلت النساء. أخرجه سعيد بن منصور والبيهقي.

إن الوالد إن وہب لأحد ابنائہ ہبۃ أکثر من غیرہ اتفاقاً أو بسبب علمہ أو عملہ أو برہ بالوالدین من غیر أن یقصد بذٰلک إضرار الاٰخرین ولا الجور علیہم کان جائزاً علی قول الجمہور۔ أما إذا قصد الوالد الإضرار، أو تفضیل أحد الأبناء علی غیرہ بقصد التفضیل من غیر داعیۃ مجوزۃ لذٰلک؛ فإنہ لا یبیحہ أحد. (تکملۃ فتح الملہم 2/71 مکتبۃ دارالعلوم کراچی.

ولو وہب رجل شیئًا لأولادہ في الصحۃ، وأراد تفضیل البعض في ذٰلک علی البعض. روی المعلی عن أبي یوسف أنہ لا بأس بہ إذا لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصد بہ الإضرار سویٰ بینہم یعطي للإبنۃ مثل ما یعطي للإبن، والفتویٰ علی قول أبي یوسفؒ. (الفتاوی الخانیۃ 3/279) .

 وأما إذا أراد الرجل أن یقسم أملاکہ فیما بین أولادہ في حیاتہ، لئلا یقع بینہم نزاع بعد موتہ؛ فإنہ وإن کان ہبۃ في الاصطلاح الفقہي، ولکنہ في الحقیقۃ، والمقصود استعجال لما یکون بعد الموت، وحینئذ ینبغي أن یکون سبیلہ سبیل المیراث. (تکملۃ فتح الملہم / کتاب الہبۃ 2/75 مکتبۃ دارالعلوم کراچی).

ولو وھب رجل لأولادہٖ في الصحۃ سوّی بینھم ھو المختار.(الفتاویٰ الہندیۃ 4/391 زکریا).

وفي الخلاصۃ: المختار التسویۃ بین الذکر والأنثیٰ في الہبۃ، ولو کان ولدہ فاسقًا. (البحر الرائق/ کتاب الہبۃ 7/288 کراچی، 7/490زکریا).

وذہب الجمہور إلیٰ أن التسویۃ مستحبۃ، فإن فضل بعضًا صح وکرہ. (فتح الباري 5/214 دار الفکر بیروت).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

27- 10- 1441ھ 20- 6- 2020م السبت.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply