مروجہ اسٹینڈ کا سترہ کے لیے استعمال
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل مساجد میں سترہ کے لیے اسٹیل یا سلور کے ایسے اسٹینڈ کو استعمال کیا جاتا ہے جن میں طولًا صرف دونوں کنارے سلاخ ہوتی ہے اور درمیان میں چار پانچ سلاخیں عرضًا ہوتی ہیں یعنی اگر نمازی کناروں پر نہ ہو تو اس کے سامنے سترہ طولًا نہیں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے سترہ کا استعمال درست ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی مفتی محمد اجمل امبیڈکر نگری أستاذ مدرسہ شاہی مراداباد
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب :
سوال میں مذکورہ اسٹینڈ کی سلاخیں ایک دوسرے سے ملے ہونے کی وجہ سے شیء واحد کے حکم میں ہیں اس لیے اگر اسٹینڈ کی اونچائی کم از کم ڈیڑھ فٹ ہو اور سلاخوں کی موٹائی اگر انگلی کے بقدر ہو تو بہتر ہے اور اگر کم ہو تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اس لیے نماز میں سترہ کے لیے ایسے اسٹینڈ کا استعمال درست ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ 1/171)، میرٹھ، (احسن الفتاویٰ 3/410).
الدلائل
عن موسیٰ بن طلحة عن أبیه قال: قال رسول اللّٰه ﷺ: “إذا وضع أحدكم بين يديه مثل مؤخرة الرحل فليصل ولا يبال من مر وراء ذلك”. (صحیح مسلم، کتاب الصلاة/باب سترة المصلي 1/195 رقم الحديث: 499).
ویغرز الإمام وکذا المنفرد سترة بقدر ذراع طولاً وغلظ إصبع. (شامي 2/402 زکریا).
أن المستحب أن یکون مقدارها ذراعاً فصاعداً – إلی قوله – واختلفوا في مقدار غلظها ففي الهدایة: وینبغي أن تکون في غلظ الإصبع؛ لأن ما دونه لا یبدو للناظر وکان مستنده ما رواه الحاکم مرفوعاً: استتروا في صلاتکم ولو بسهم، ویشکل علیه ما رواه الحاکم عن أبي هریرة مرفوعاً یجزئ من السترة قدر مؤخرة الرحل ولو بدقة شعرة، ولهٰذا جعل بیان الغلظ في البدائع قولاً ضعیفاً، وأنه لا اعتبار بالعرض وظاهره أنه المذهب. (شرح الوقایة 1/195، شامي 2/398 زکریا، البحر الرائق 2/17 کوئٹه).
ینبغي أن یکون مقدار طولها ذراعًا، وینبغي أن یکون في غلظ قدر أصبع. (المحیط البرهاني: 2/216، الفتاویٰ التاتارخانیة، کتاب الصلاة/مسائل السترة 2/286، رقم: 2440 زکریا، الدر المختار 2/402 زکریا).
وفي الموسوعة الفقهية: اتفق الفقهاء على أنه يستحب في السترة أن تنصب أو تغرز أمام المصلي وتجعل على أحد حاجبيه، وهذا إذا كان غرزها ممكناً وإلا بأن كانت الأرض صلبة مثلاً فهل يكفي وضع السترة أمام المصلي طولا أو عرضاً؟ اختلف الفقهاء في ذلك، فقال الحنفية: يلقي ما معه من عصا أو غيرها كأنه غرز ثم سقط، وهذا اختيار الفقيه أبي جعفر، واختار بعضهم أنه لا يجزئ، وإن لم يجد ما ينصبه فليخط خطا بالعرض مثل الهلال أو يجعله طولا بمنزلة الخشبة المغروزة أمامه فيصير شبه ظل العصا، وهو اختيار المتأخرين من الحنفية. (182/24).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله، أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
1/9/1439ه 17/5/2018م الخميس
۞۞۞۞۞۞
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.