طویل مدتی قید کی وجہ سے فسخ نکاح
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
اگر کسی شخص کو طویل مدت تک قید کی سزا ہو جائے اور عورت کے لیے گزر بسر کا کوئی انتظام ہو اور وہ اتنی مدت تک عصمت و عفت کی حفاظت کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہو تو بہتر ہے کہ وہ صبر سے کام لے اور اگر اس کے خرچے کا کوئی نظم نہ ہو یا عصمت وعزت کی حفاظت مشکل ہو تو شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرے اور اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو مسلمان قاضی یا شرعی پنچایت کے ذریعے نکاح فسخ کرا لے۔چنانچہ کفایت المفتی میں ہے:
“(سوال) ایک شخص کو کالے پانی کی سزا بتعین 20 سال کی ہوئی ہے اور اس کی بیوی جوان ہے وہ اس عرصہ تک نہیں رہ سکتی اور اپنی شادی کرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں عقد ثانی کا کیا حکم ہے؟
(جواب ۹۹) اگر ممکن ہو تو اس قیدی شوہر سے طلاق حاصل کرلی جائے لیکن اگر حصول طلاق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو پھر یہ حکم ہے کہ اگر عورت اتنی طویل مدت تک صبر نہ کرسکتی ہو یا اس کے نفقہ کی کوئی صورت خاوند کی جائداد وغیرہ سے نہ ہوتو کسی مسلمان حاکم سے نکاح فسخ کرالیا جائے – اور بعد فسخ نکاح و انقضاء عدت دوسرا نکاح کردیا جائے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ”
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.