عدت کی حالت میں ملازمت یا تعلیم کے لئے گھر سے نکلنا

عدت کی حالت میں ملازمت یا تعلیم کے لئے گھر سے نکلنا

عدت کی حالت میں ملازمت یا تعلیم کے لئے گھر سے نکلنا

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

عدت کے دوران اگر ملازمت سے رخصت مل سکتی ہو یا عدت کے بعد  دوسرا متبادل موجود ہو اور خرچ کا نظم ہو تو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ عدت کے دوران بوقت ضرورت ہی باہر جانے کی اجازت ہے ،لہذا ضرورت موجود ہو تو باہر نکلنے کی گنجائش ہوگی ورنہ نہیں۔

حضرت فریعہ کہتی ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا:

 امْكُثِي فِي بَيْتِكِ الَّذِي جَاءَ فِيهِ نَعْيُ زَوْجِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ “. قَالَتْ : فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.

 اپنے اسی گھر میں ٹھہری رہو جہاں تمہارے شوہر کی وفات کی خبر آئی ہے یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے وہ کہتی ہیں کہ میں نے اس گھر میں چار ماہ دس دن گزارے۔ ( ابن ماجہ:2031)

اور اگر رخصت نہ ملے یا ملازمت چھوڑ دینے کی صورت میں دوسری جگہ کا حصول مشکل ہو اور ملازمت کے  بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا ہے تو پھر شرعی پردے کی رعایت کرتے ہوئے باہر جاکر ملازمت کرنے کی اجازت ہوگی اور ایسی حالت میں بھی رات کا زیادہ تر حصّہ گھر میں گزارنا ضروری ہے. چنانچہ ایک حدیث میں:

عَنْ جَابِرِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ” بَلَى، فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا “. رواه مسلم في صحيحه (1483)

حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں میری خالہ کو طلاق دے دی گئی، انہوں نے چاہا کہ اپنے کھجور کے پھل کو توڑیں تو ایک آدمی نے  باہر نکلنے سے انہیں منع کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر انھوں نے صورت حال بیان کی تو آپ نے فرمایا : بالکل جاؤ اور پھل توڑو۔ ہو سکتا ہے کہ تم اس کے ذریعے سے صدقہ کرو کیا کوئی نیک کام انجام دو۔,(صحیح مسلم: 1483).

بوقت ضرورت باہر جانے کے مسئلے میں طلاق یافتہ اور اس عورت کا حکم یکساں ہے جس کا شوہر فوت ہوچکا ہے[1]

اگر کسی عورت کے لئے تعلیم ناگزیر ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک خاتون کے شوہر کی وفات ہوگئی تھی اور انھوں نے رسول ﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا:

أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فِي بَنِي خُدْرَةَ، فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْنِي فِي مَسْكَنٍ يَمْلِكُهُ وَلَا نَفَقَةٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” نَعَمْ “.  قَالَتْ : فَانْصَرَفْتُ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ، نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِي، فَنُودِيتُ لَهُ، فَقَالَ : ” كَيْفَ قُلْتِ ؟ “. فَرَدَّدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، فَقَالَ: ” امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ “. قَالَتْ : فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا. رواه الإمام مالك في موطئه (1799) وأبو داود في سننه (2200) والترمذي في سننه (1204)   والنسائي في سننه (3529)

کیا میں قبیلہ بنی خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہوں؟ کیونکہ میرے شوہر نے کوئی گھر نہیں چھوڑا ہے جس کا وہ مالک ہو اور کوئی نفقہ بھی نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں . چنانچہ وہ واپس ہو گئیں لیکن جب وہ حجرے میں تھیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارا یا کسی سے کہا کہ انھیں بلاؤ۔ میں واپس آگئی تو آپ نے کہا:  تم نے  کیا پوچھا تھا؟ میں نے دوبارہ قصے کو بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے گھر میں ٹھہری رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت پوری ہو جائے. وہ کہتی ہیں کہ میں نے اسی گھر میں چار مہینہ دس دن گزارے۔ [2] موطا 1729. نسائی3529. ابوداؤد : 2200. ترمذی:1204)

مذکورہ خاتون مسئلہ پوچھنے کے لئے عدت کے دوران گھر سے باہر آئیں لیکن آنحضرت ﷺ نے ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ عدت کے دوران حصول علم کے لئے بھی باہر نکلنے کی گنجائش ہے ۔


حواشى

[1]  قال في الفتح: والحق ان على المفتي ان ينظر في خصوص الوقائع فان علم في واقعة عجز هذه المختلعة عن المعيشة ان لم تخرج افتاها بالحل وان علم قدرتها افتاها بالحرمة واقره في النهر و الشرنبلالية. (رد المحتار 227/5)

قال في الفتح: والحاصل ان مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها .وبهذا اندفع قول البحر: ان الظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كان عندها نفقة والا لقالوا لا تخرج المعتدة عن طلاق او موت الا لضرورة فان المطلقة تخرج للضرورة ليلا او نهارا.

 وجه الدفع ان معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة الى الخروج لاجل ان تكتسب للنفقة قالوا انها تخرج في النهار وبعض الليل .بخلاف المطلقة .واما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما ياتي .فالمراد به هنا غير الضرورة. ولهذا بعد ما اطلق في كافي الحاكم منع خروج المطلقة قال والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها ولا تبيت في غير منزلها فهذا صريح في الفرق بينهما نعم عبارة المتون يوهم ظاهرها ما قاله في البحر فلو قيدوا خروجها بالحاجة كما فعل في الكافي لكان اظهر. (رد المحتار228/5)

[2]  قوله صلى الله عليه وسلم للفريعة نعم لتنتقل إلى بني خدرة في عدتها من وفاة زوجها ثم استرجعها بعد ذلك ، فلما رددت عليه القصة منعها من ذلك وأمرها أن تمكث في بيتها حتى تنقضي عدتها ، فيحتمل أن يكون على وجه النسخ للحكم الأول ، ويحتمل أن يكون اعتقد أولا في قولها أن زوجها لم يتركها في مسكن يملكه ولا يملك سكناه وكان لفظها محتملا لذلك فأمرها بالانتقال على ذلك ، ثم رأى أن لفظها محتمل فاسترجعها وأمرها بأن تعيد عليه قصتها فتبين له من إعادتها أنها نفت أن يكون ترك منزلا يملك رقبته وأنها مع ذلك في منزل قد ملك زوجها سكناه إما باكتراء أو هبة أو وجه من الوجوه فأمرها بالمقام وإتمام العدة فيه .(المنتقى شىح الموطأ. كتاب الطلاق .مقام المتوفى عنها زوجها في بيتها حتى تحل)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply