غیر مسلم جج کی طرف سے طلاق

غیر مسلم جج کی طرف سے طلاق

غیر مسلم جج کی طرف سے طلاق كى شرعى حيثيت

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

 غیر مسلم کسی مسلمان کا ولی اور سرپرست نہیں ہوسکتا ہے یہاں تک کہ اگر باپ غیر مسلم ہو تو اسے بھی  اپنے نابالغ مسلمان بچے اور بچیوں پر ولایت و سرپرستی حاصل نہیں ہوگی اس لئے غير مسلم باپ ان کا نکاح نہیں کرسکتا اور نہ ان کے  مال میں کسی طرح کے تصرف کا مجاز ہے۔ چنانچہ فرمان باری ہے:

{وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا} [النساء: 141]

اور اللہ کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا ہرگز کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔(سورہ النساء:141)

اور دوسری آیت میں ہے:

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا} [النساء: 144]

اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحق عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ ( سورہ النسآء : 144)

امام ابوبکر جصاص رازی اس ایت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان پر کسی طرح کی ولایت حاصل نہیں ہے۔[1]

اور علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:

لہذا کسی  غیر مسلم کو مسلمان عورت پر ولایت حاصل نہیں ہے۔ عام طور پہ اہل علم کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن منذر کہتے ہیں کہ جن اہل علم کا قول ہمیں یاد ہے ان سب کا اس پر اجماع ہے۔[2]

جج اور مجسٹریٹ کو بھی عمومی ولایت حاصل ہوتی ہے اس لیے تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے معاملہ میں قاضی نہیں بنانا چاہئے بلکہ کسی غیر مسلم کو حکم  بھی نہیں بنانا چاہئے کیونکہ حکم وہی بن سکتا ہے جس میں قاضی بننے کی شرائط موجود ہوں۔[3]

البتہ کسی غیر مسلم کو طلاق کے لیے وکیل بنایا جا سکتا ہے۔[4]

لہذا کسی مسلمان عورت کا طلاق کے لیے کسی غیر مسلم جج سے رجوع  نہیں کرنا چاہئے  اور اگر وہ طلاق واقع کردے تو واقع نہیں ہوگی البتہ اگر شوہر عدالت سے رجوع کرتا ہے کہ اس کی بیوی پہ طلاق واقع کر دی جائے تو وہ اس کی طرف سے عدالت کو طلاق کے لیے وکیل بنانا ہوگا اور طلاق واقع ہو جائے گی اسی طرح سے عدالت کی طرف سے پیش کردہ طلاق نام پہ شوہر دستخط کردے تو خود اس کی طرف سے طلاق دینا مانا جائے گا۔


حواشي

[1]  وهو يدل على أن الكافر لا يستحق الولاية على المسلم بوجه (أحكام القرآن: 29/2)

[2]  فلا يثبت لكافر ولاية على مسلمة وهو قول عامة أهل العلم قال ابن المنذر: أجمع عامة من نحفظ عنه من أهل العلم على هذا ( المغني 367/9)

[3]  ولا يجوز تحكيم الكافر… لانعدام أهلية القضاء اعتبارا بأهلية الشهاده ( الهداية151/3)

[4]  أما الذي يرجع إلى الوكيل فهو أن يكون عاقلا… وكذا ردة الوكيل لا تمنع صحة الوكالة فتجوز وكالة المرتد. (البدائع 16/5)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply