مادہ تولید کی ذخیرہ اندوزی Sperm Bank
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
اسپرم بینک سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں مادہ تولید کو خاص تکنک کے ذریعے محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ بچے کی خواہش مند عورت اسے وہاں سے حاصل کر کے مصنوعی طریقے پر بارآوری کے بعد بچے کو جنم دے سکے۔
نطفے کی خرید و فروخت اور اس کے لیے اسپرم بینک کا قیام ناجائز ہے اس لیے کہ نسل انسانی کی افزائش کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے نکاح اور شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے نطفے سے بارآوری زنا کے ہم معنی ہے۔قران حکیم میں ہے:
{وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} [الروم: 21]
اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیے۔یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔( سورہ الروم : 21)
اور حدیث میں ہے:
ما من ذنبٍ بعدَ الشركِ، أعظمَ عند اللهِ من نطفةٍ وضعها رجلٌ في رَحِمٍ لا يَحِلُّ له.[1] (أخرجه ابن أبي الدنيا في الورع:137)
اللہ کی نگاہ میں شرک کے بعد سنگین ترین گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے نطفہ کو اس بچہ دانی میں داخل کرے جو اس کے لئے حلال نہیں ہے ۔
یہ حدیث گرچہ سندی اعتبار سے ضعیف ہے، متن كے اعتبار سے يہ حديث صحيح ہے قرآن اور دوسری احادیث سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے۔
یہ زمانہ جاہلیت کے اس قبیح رسم کی طرح ہے جس میں کوئی شخص بہتر نسل حاصل کرنے کے لیے اپنی بیوی کو کسی دوسرے کے یہاں بھیج دیا کرتا تھا چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا : أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ. وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا، وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ. (رواه البخاري في صحيحه: 5127)
ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا کہ جب تم حیض سے پاک ہوجاؤ تو فلاں کے پاس جاؤ اور اس سے بچہ حاصل کرو اور اس کے بعد اس کا شوہر اس سے الگ رہتا اور اسے ہاتھ نہیں لگاتا یہاں تک کہ دوسرے شخص سے حمل کے آثار نمایاں ہوجاتے اور اس کے بعد اگر اس کا شوہر چاہتا تو اس سے اپنی خواہش پوری کرتا، ایسا بہتر بچے کی چاہت میں کیا جاتا اور اس طریقے کو نکاح استبضاع کہا جاتا تھا۔ (صحیح بخاری : 5127)
اس طرح سے نسب کی شناخت گم ہو جائے گی حالانکہ نسب کی حفاظت شریعت کا اہم مقصد ہے اور اسی وجہ سے زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح سے شوہر کی وفات یا طلاق بائن کے بعد اس کے نطفے سے اس کی سابق بیوی کو بارآور کرنا بھی حرام ہے کہ وفات یا طلاق بائن کی وجہ سے میاں بیوی کا رشتہ مکمل طور پہ ختم ہو چکا ہے۔
البتہ اگر شوہر نے اپنے نطفے کو محفوظ کرا دیا ہو اور کسی مرض یا حادثے کی وجہ سے بیوی اس سے حاملہ نہ ہو سکے تو ضرورت کی حالت میں اس کے محفوظ نطفے سے اس کی بیوی کو بار آور کیا جا سکتا ہے۔[2]
حواشى
[1] وهذا إسناد ضعيف لضعف أبي بكر بن عبد الله بن أبي مريم الغساني الشامي، ابن عم الوليد بن سفيان بن أبي مريم «عن أبي داود: سمعت أحمد يقول: ليس بشيء. قال أبو داود: سرق له حلي، فأنكر عقله. وقال أبو حاتم: سألت يحيى بن معين عن أبي بكر بن أبي مريم فضعفه. وقال أبو زرعة الرازي: ضعيف، منكر الحديث. وقال أبو حاتم : ضعيف الحديث، طرقه لصوص فأخذوا متاعه فاختلط». (تهذيب الكمال في أسماء الرجال (33/ 109)
وبقية هو ابن الوليد معروف بالتدليس مشتهر به. وذكره الحافظ في الطبقة الرابعة من المدلسين، فهو ممن اتفق على أنه لا يحتج بشئ من حديثهم الا بما صرحوا فيه بالسماع لكثرة تدليسهم على الضعفاء والمجاهيل. (انظر: تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس للحافظ ابن حجر: ص: 49)
ثم قد صح عكس ذلك الحديث حديث عبد الله قال: “سألت النبي صلى الله عليه وسلم: أي الذنب أعظم عند الله؟ قال: أن تجعل لله ندا وهو خلقك، قلت: إن ذلك لعظيم، قلت: ثم أي؟ قال: وأن تقتل ولدك تخاف أن يطعم معك، قلت: ثم أي؟ قال: أن تزاني حليلة جارك”. (صحيح البخاري: 4477)
[2] عالج جاريته فيما دون الفرج فاخذت ماءه وجعلته في فرجها وعلقت منه صارت ام ولد. (البزازية على هامش الهندية: 359/5)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.