hamare masayel

والد کے کاروبار میں مدد کرنا

(سلسلہ نمبر: 789)

والد کے کاروبار میں مدد کرنا

سوال: میرے (مسمیٰ محمد عارف کے) والد (مسمیٰ عبد القیوم قدوائی) مرحوم کی ایک دوکان نمبر 59، واقع سیکٹر1، ٹرانسپورٹ نگر، آگرہ میں ہے، جو میرے والدِ مرحوم کے نام رجسٹرڈ ہے۔ میں اپنے والد کا بڑا بیٹا ہوں، تقریباً تیس پینتیس سال سے میں اکیلا اپنے والد محترم کے ساتھ کام کرتا تھا، میں نے اپنے والد محترم سے کبھی بھی مہینے کی تنخواہ نہیں لی، جو کچھ آمدنی ہوتی تھی والد محترم اپنے پاس آمدنی کا حساب رکھتے تھے۔ کچھ ماہ پہلے والد محترم کا انتقال ہو گیا اور والدہ کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اس وقت والد کے ترکہ کا بٹوارہ ہونے کی صورت میں کیا میں ہر ماہ کی تنخواہ لے سکتا ہوں یا نہیں؟

(٢) دوسری بات یہ معلوم کرنی ہے کہ ہم جس مکان میں رہتے ہیں اس کا بھی بٹوارہ ہونا ہے۔ اس مکان میں ہم دو بھائی اور تین بہنیں رہتے ہیں۔ اس میں والد محترم اپنی زندگی میں فیصلہ کر گئے تھے، یہ مکان میرے نام، والد کے ایک پوتے کے نام اور کچھ بہن کے نام تحریر ہے؛ مگر سب ساتھ رہتے رہے، گھر نہیں چھوڑا اور نا ہی قبضہ دیا، والد صاحب نے تحریر میں لکھ دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد ایسا کر لینا۔

والد صاحب مرحوم یہ سب تحریریں اسٹامپ پیپر پر لکھ کر گئے ہیں، جو کہ میرے پاس ہیں، والد صاحب مرحوم آخر وقت تک میرے ساتھ رہے اور یہ تحریریں مجھے لکھ کر دے گئے ہیں۔ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے؟ برائے کرم شریعت اسلامیہ کی روشنی میں آگاہ فرمائیں!

المستفتی: محمد عارف، آگرہ۔

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب:

(1) جب اصل کاروبار والد صاحب کا تھا، اور آمدنی والد صاحب ہی لیتے رہے اور کبھی آپ نے شرکت یا تنخواہ کی بات نہیں کی تو شرعاً پورے کاروبار کے مالک تنہا والد صاحب ہوئے، اور والد صاحب کے ساتھ آپ کا تعاون محض تبرع اور احسان ہے جس پر اب آپ کو تنخواہ لینا جائز نہیں، آپ نے جو محنت کی ہے اس پر آپ کو اللہ کی طرف سے ان شاء اللہ اجر ملے گا.

(2) گھر کی تقسیم کے حوالے سے والد صاحب نے جو تحریر لکھی ہے شرعاً وہ وصیت ہے، اور وصیت کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ وارث کے لئے وصیت (عاقل بالغ ورثاء کی اجازت کے بغیر) باطل ہوتی ہے، اس لئے اگر دوسرے ورثاء راضی نہ ہوں تو بیٹے اور بیٹی کے حق میں وصیت باطل ہے البتہ پوتا چونکہ بیٹے کی وجہ سے وارث نہیں ہے اس لئے اس کے حق میں تہائی ترکہ تک وصیت درست ہے، اس لئے پوتے کے لئے گھر کے جتنے حصے کی وصیت کی گئی ہے اگر وہ کل ترکہ کے تہائی یا اس سے کم ہے تو وہ پوتے کو ملے گا اگر کل ترکہ کے تہائی سے زیادہ ہو تو جتنا زیادہ ہو اتنا کم کردیا جائے گا.

لہذا آپ کے والد صاحب کے کل ترکہ میں سے اگر قرض ہو تو پہلے اس کو ادا کردیا جائے اس بعد بچے ہوئے مال کے تہائی سے پوتے کے بارے میں وصیت پوری کی جائے، اس کے بعد بچا ہوا کل مال اور گھر سات حصوں میں تقسیم ہوگا، جس میں سے دو دو حصے دونوں بیٹوں، اور ایک ایک حصہ تینوں لڑکیوں کو ملیں گے۔

الدلائل

 عَن أَبي أُمَامَةَ قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ . (سنن أبي داود، رقم الحديث: 2870).

(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته. (رد المحتار: 10/ 346، ط: زكريا ، كتاب الوصايا).

في رد المحتار عن القنیة: الأب و ابنه یکتسبان في صنعة واحدة ولم یکن لهما شيء فالکسب کله للأب إن کان الابن في عیاله لکونه معیناً له ، ألا تری أنه لو غرس شجرة تکون للأب الخ (6/ 502، ط: زکریا، فصل في الشرکة الفاسدة).

 والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

25- 3- 1445ھ 11-10- 2023م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply