ٹرین میں نماز

ٹرین میں نماز، ٹرین میں نماز پڑھنے کا طریقہ

ٹرین میں نماز

ٹرین کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں کھڑے ہوکرنماز ادا کی جاسکتی ہے، نیز اس کا تعلق براہِ راست زمین سے ہے، اس لیے وہ تخت کی طرح ہے، اس لیے اس سے اترکر زمین پر نماز پڑھنے کی قدرت کے باوجود اس پر نماز ادا کر نا جائز ہے۔[1]

لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب کہ ٹرین رکی ہوئی ہو اوراگر چل رہی ہوتو عذر کی وجہ سے نماز درست ہے کیونکہ نماز کے لیے اسے روکنا ممکن نہیں ہے اور نمازمیں مکان کا اتحاد بھی شرط ہے اور یہ شرط اسی وقت ساقط ہوگی جب کہ کوئی عذر ہو۔[2]

اورجیساکہ معلوم ہے کہ نماز میں قیام کرنا شرط ہے، اس لیے قیام پرقدرت کے باوجود ٹرین میں بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اوراگر شدید حرکت یا بھیڑ کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن نہیں تو پھر بیٹھ کر رکوع اور سجدے کےساتھ نماز ادا کرنا درست ہے۔[3]

واضح رہے کہ اگر امید ہو کہ کسی اسٹیشن پر ٹرین رکنے کی صورت میں یا منزل مقصود تک پہنچنے کی حالت میں وہ وقت کے اندر ٹرین سے باہر نمازپڑھ سکتا ہو تو نماز کوموخر کردینا مستحب ہے۔

“اگر واقعتا اس قدر بھیڑ ہو کہ رکوع وسجدہ کرنا ممکن نہ ہو اور ٹرین سے باہر نماز ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو استقبال اور قیام کے بغیر ہی نماز ادا کریں گے”.(فتاوی دارالعلوم دیوبند 142/2)


حوالاجات

[1]  واذا کانت العجلة علی الأرض ولم يکن شيء منها علی الدابة وإنما لها حبل مثلا تجرها الدابة به تصح الصلاۃ عليها لأنها حينئذ کالسريرالموضوع علی الارض. (رد المحتار:491/2)

[2]  والحاصل أن کلا من اتحاد المکان واستقبال القبلة شرط في الصلاۃ غير نافلة عند الأمکان ولا يسقط إلا بعذر. (ردالمحتار 491/2 )

[3]  وقبلة العاجز عنها لمرض وإن وجد موجدها عند الإمام، أو خوف مال وکذا کل من سقط عنه الأرکان جهة قدرته، (الدر المختار) فکما تجوز له الصلاۃ علی الدابة ولوکانت فرضا وتسقط عنه الأرکان کذالک يسقط عنه التوجه إلی القبلة إذا لم يمکنه ولا إعادۃ عليه، إذا قدر فيشترط في جميع ذلک عدم إمکان القبلة ويشترط في الصلاۃ علی الدابة إيقافها إن قدر، وإلا بأن خاف الضرر کان تذهب القافلة وينقطع فلا يلزمه إيقافها ولا استقبال القبلة. (رد المحتار: 115/2 )

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply