hamare masayel

پورے مال کی وصیت درست نہیں

(سلسلہ نمبر: 831)

پورے مال کی وصیت درست نہیں

سوال: میرے ماموں حاجی سخاوت حسین ولد نادر حسین مرحوم، ساکن ۶/١٢٦، غالب پورہ، نائی کی منڈی، آگرہ کا انتقال ہو گیا۔ حاجی سخاوت حسین مرحوم بوقت انتقال کلالہ تھے، اس وقت نہ ان کے والدین حیات تھے اور نہ ان کے بیوی بچے تھے، انتقال کے وقت صرف ان کی ایک بہن عائشہ بی اور کل دس بھتیجے موجود تھے، چھ بھتیجے ہندوستان میں رہتے ہیں اور چار بھتیجے پاکستان میں مقیم ہیں۔ مرحوم نے اپنے انتقال کے وقت اپنے ترکہ میں ایک مکان، چھ لاکھ روپے نقد اور دو سونے کی انگوٹھی چھوڑی ہیں۔ انتقال سے پہلے انہوں نے یہ وصیت کر دی تھی کہ میرا سارا مال میرے انتقال کے بعد مسجد کو دے دیا جائے۔ دریافت کرنا ہے کہ کہ مرحوم کے ترکہ میں کس کا کتنا حصہ ہوگا اور مسجد کے لیے ان کی وصیت کس طرح پوری کی جائے گی؟ شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں!

المستفتی: وکیل احمد ولد عبدالعزیز، ساکن: ای۳- ١٦٠، شہید نگر۔ آگرہ.

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں برصدق سوال مرحوم کی وصیت صرف تہائی ترکہ میں نافذ ہوگی، ہاں اگر تمام ورثہ عاقل بالغ ہوں اور وہ اجازت دیدیں تو پورے مال کو وصیت کے مطابق مسجد میں دینا درست ہوگا ورنہ نہیں۔

اجازت نہ دینے کی صورت میں تہائی مال الگ کرنے کے بعد بچا ہوا مال بیس حصوں میں تقسیم ہوگا، جس میں سے دس حصے بہن کو ملیں گے، اور ایک ایک حصہ دس بھتیجوں کو ملے گا۔

الدلائل

قال الله تعالى: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ. (سورة النساء؛ آيت: 176).

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر. ( صحیح مسلم:باب الحقوا الفرائض بأھلھا،فما بقي فلأولی رجل ذکر، رقم الحدیث: 4138).

ولا تجوز (الوصية) بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار، ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية. (الفتاوى الهندية، كتاب الوصايا، الباب الأول في تفسيرها وشرط جوازها وحكمها ومن تجوز له الوصية ومن لا تجوز وما يكون رجوعا عنها، 90/6، ط: رشيدية).

 والله أعلم. حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله

أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

5- 3- 1447ھ 29-8- 2025م الجمعة

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply