(سلسلہ نمبر: 408)
بڑے بھائی کے ذاتی کاروبار ميں چھوٹے بھائی کا حصہ نہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلے ذیل کے بارے میں:
کہ زید نے سورت میں کارخانہ کیا مکمل اپنا پیسہ لگا کر ریڈی میڈ سلائى کا، پھر چار پانچ مہینے کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بھائی عامر کو اپنے پاس بلا لیا، کارخانے کے اندر بڑے بھائی کی ذمہ داری زیادہ تھی مثلا کپڑے خریدنا ڈیزائن بنوانا مال بیچنا یہ سب ذمہ داری زید یعنی بڑے بھائی کی تھی ان سب کاموں میں چھوٹا بھائی عامر معین و مددگار تھا اور جو کام بڑا بھائی کہتا تھا وہ سب چھوٹا بھائی کرتا تھا اور چھوٹے بھائی کا سارا خرچ بڑا بھائی اٹھاتا تھا اور اس کے علاوہ گھر کا خرچ ماں باپ بھائی بہن کا سارا خرچ بڑے بھائی کی ذمہ تھا ماں باپ کی بیماری کا اور باپ پر پہلے سے جو قرض تھا وہ سب بڑے بھائی نے کارخانےکے اندر سے ادا کیا بہنوں کی شادی کا سارا خرچ بڑے بھائی یعنی زید نے کیا اس طرح چلتے چلتے تقریبا دس گیارہ سال گذر گئے اسی طرح بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کی شادی کا سارا خرچ گھر کے اندر کمرہ بنوانا وغیرہ اور چھوٹے بھائی کی فیملی کا سارا خرچ یہ سب بڑے بھائی کی ذمہ داری تھی۔
آج چھوٹے بھائی کے نکاح کو تقریبا چار سال ہو گیا ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں اس دوران جو بھی خرچ چھوٹے بھائی کا یا اس کی بیوی اور بچے کا ہو وہ سارا خرچ بڑے بھائی یعنی زید نے اٹھایا اب بڑا بھائی کہتا ہے کہ چھوٹے بھائی کو الگ کرنا ہے اب میں اس کو کارخانے کے اندر نہیں رکھوں گا اور اس کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاوں گا، تو اب گھر میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بڑے بھائی نے جتنا کمایا ہے یا جو بینک بیلنس ہے یا اس دوران جو بھی فلیٹ وغیرہ خریدا ہے ان سب میں آدھا حصہ چھوٹے بھائی کا ہے بڑا بھائی کہتا ہے کہ ابھی تک انکا ان کی فیملی کا اور گھر کا سارا خرچ میں نے اٹھایا ہے اس لئے اب میں اس کو کچھ بھی نہیں دونگا ۔
برائے کرم آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت فرمائیں کہ چھوٹے بھائی کا کارخانے میں کتنا حق بنتا ہے؟ اور جو بڑے بھائی کے پاس پیسے روم و فلیٹ وغیرہ ہے اس میں چھوٹے بھائی کا کتنا حق ہے؟ واضح رہے کہ اس وقت بڑے بھائی یعنی زید کے پاس جو بھی بینک بیلنس روم اور فلیٹ ہے وہ سب کارخانے کی کمائی سے بنایا ہوا ہے۔
المستفتی: مولانا محمد اشرف صاحب قاسمی۔مہتمم : جامعۃالمحصنات بھدرسہ فیض آباد۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
بر تقدیر صحتِ سوال اگر زید کا خالص اپنا ذاتی کاروبار تھا اور اس میں چھوٹے بھائی عامر کو اپنے ساتھ کاروبار میں لگاتے وقت شرکت کی کوئی بات نہیں کہی تھی نہ ہی عامر نے اس طرح کی کوئی شرط لگائی تھی بس بھائی کے ساتھ کاروبار میں مدد کرنے لگا تو ایسی صورت میں عامر صرف اجرت مثل کا مستحق ہوگا، یعنی اس طرح کے کام کرنے والے کی جو تنخواہ اس علاقے میں رائج ہو وہی ملے گی، زید کے بینک بیلنس، روم اور فلیٹ میں عامر کا کوئی حق نہیں ہے۔ (مستفاد: کتاب النوازل: 12/ 264).
نوٹ: زید کے کاروبار میں عامر کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہے لیکن چونکہ عامر نے اپنے آپ کو شریک سمجھ کر محنت کی ہے اور کاروبار کے بڑھانے میں تعاون کیا ہے اس لئے بڑا بھائی اگر اپنی مرضی سے چھوٹے بھائی کو کچھ دیدے، تو صلہ رحمی کے ساتھ ساتھ بڑے اجر کا مستحق ہوگا اور ان شاء اللہ اس سے کاروبار میں مزید برکت ہوگی۔
الدلائل
قال رسول الله ﷺ: ” اسمعوا مني تعيشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. (مسند أحمد: 5/ 72، الرقم: 20695).
وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
وحكمها وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة. (الدر المختار مع رد المحتار: 6/ 5).
لا بد من إعلام ما يرد عليه عقد الإجارة على وجه ينقطع به المنازعة ببيان المدة والمسافة والعمل، ولا بد من إعلام البدل اهـ، وإلا كان العقد عبثا كما في البدائع. (رد المحتار: 6/ 4).
فإن احتطب أحدهما وأعانه الآخر فله أجر مثله على الذي احتطب؛ لأنه استوفى منافعه بحكم عقد فاسد، فله أجر مثله. (المبسوط: 11/ 216).
فإن عمل أحدهما وأعانه الآخر في جميع ما أخذه كان المعين أجر المثل. (الفتاوى الهندية: 3/ 625).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
27- 11- 1441ھ 19- 7- 2020م الأحد.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.