Namaz Ki Ahmiyat In Urdu PDF
نماز کی اہمیت قرآن وحديث كى روشنى ميں
از قلم: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا۔
ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن نماز ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ شریفہ میں نماز کے فضائل اور اس كى اہميت کو کثرت سےبيان كيا گيا ہے، نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور نماز کو ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
نبى كريم صلى الله عليہ وسلم پانچ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نمازِ تہجد، نمازِ اشراق، نمازِ چاشت، تحية الوضوء اور تحية المسجد کا بھی اہتمام كرتے تھے۔ اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے تھے۔
سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو آپ صلى الله عليہ وسلم مسجد تشریف لے جاتے تھے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔
جب سفر سےآپ صلى لالله عليہ وسلم كى واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں، ذيل ميں نماز كى فضيلت، اور اس كى اہميت ، اور اس كے منافع سے متعلق كچھ آيات كريمہ اور احاديث نبويہ ذكر كى جارہى ہيں:
نماز كے فضائل آیاتِ قرآنیہ كى روشنى ميں:
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۂ البقرۃ ۱۵۳)
جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (سورۂ العنکبوت ۴۵)
اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکاۃ دیتے رہوگے۔ (سورۂ المائدہ ۱۲)
اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نمازوں کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، یہ چیز شاق وبھاری ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں۔ (سورۂ البقرہ ۴۵)
یقیناًان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو اپنی نمازوں کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۂ المؤمنون ۱ ۔ ۱۱)
حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت کم حوصلہ پیدا کیا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو خوب گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے، اور جب اس کے پاس خوشحالی آتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔ مگر وہ نمازی ایسے نہیں ہیں۔ جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔ اور جو اپنی نماز کی پوری پوری حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔ (سورۂ المعارج ۱۹۔۳۵)
نماز كى پوری حفاظت سے مراد اس کے تمام آداب کی رعایت ہے۔ مسلمانوں کے انہی جیسے اوصاف سورة مومنون کی ابتدائی آیات میں بھی گذرے ہیں۔
نماز كى اہميت احاديث كى روشنى ميں
حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے، رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (سنن ترمذى: 413، سنن نسائى: 465، سنن ابن ماجہ: 1425)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (صحيح بخارى: 2782، صحيح مسلم: 85)
حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحيح البخارى: 528، صحيح مسلم: 667)
حضرت انس سے روايت ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا: ’’جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دیتا ہے، ایک جہنم سے آزادی اور دوسری منافقت سے آزادی‘‘۔ (سنن ترمذى: 241، شعب الايمان: 2615)
حضرت ابو مالك اشعرى سے روايت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں دلیل ہے یا تمہارے خلاف دلیل ہے (یعنی اگر اسکی تلاوت کی اور اس پر عمل کیا تو یہ تمہاری نجات کا ذریعہ ہوگا ،ورنہ تمہاری پکڑ کا ذریعہ ہوگا)۔ (صحيح مسلم: 223، سنن نسائى: 2437، سنن ابن ماجہ: 280)
حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے، رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی وقت پر نماز ادا کرتا ہو) ۔ (صحيح بخارى: 660، صحيح مسلم: 1031)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں آپ ا کے قریب تھا، ہم سب چل رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے پیغمبر! آپ مجھے ایسا عمل بتادیجئے جسکی بدولت میں جنت میں داخل ہوجاؤں اور جہنم سے دور ہوجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بڑی بات پوچھی ہے۔ لیکن اللہ جس کے لئے آسان کردے اس کے لئے آسان ہے۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اوراللہ کے گھر کا حج کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اس معاملہ کی اصل، اس کا ستون اور اسکی عظمت نہ بتادوں؟ میں نے کہا ضرور۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاملہ کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اسکی عظمت اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ (سنن ترمذى: 2616، سنن ابن ماجہ: 3973، شعب الايمان: 2549)
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے؟ آپ ا نے تین مرتبہ اسکو کہا، تو ہم نے اپنے ہاتھ بیعت کے لئے بڑھادئے اوربیعت کی۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے کس چیز پر بیعت کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اورنمازوں کی پابندی کرو۔ اس کے بعد آہستہ آواز میں کہا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو۔ (صحيح مسلم: 1043، سنن نسائى: 460، سنن ابن ماجہ: 2867)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (سنن دارمى: 2763، مسند احمد: 6573، صحيح ابن حبان: 1467)
حضرت عبادہ بن صامت سے روايت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نمازوں کو (قیامت کے دن) اس طرح لیکر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے سے عہد کرکے اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جو اِن نمازوں کواس طرح لیکر آئے کہ ان میں لاپرواہیوں سے کوتاہیاں کی ہیں تو اللہ کا اس سے کوئی عہد نہیں چاہے اسکو عذاب دیں ، چاہے معاف فرمادیں. (موطأ امام مالك: 14، سنن ابو داود: 425، سنن نسائى: 461)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں، پھر کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں۔ آخر میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اعلان کیا گیا۔ اے محمد! میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی، لہذا پانچ نمازوں کے بدلے پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔ (سنن ترمذی: 213، سنن نسائى: 449، سنن ابن ماجہ: 1399)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپکی خدمت کیلئے) رات گزارتا تھا، ایک رات میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی چیزیں پیش کیں۔ آپ انے فرمایا کچھ سوال کرنا چاہتے ہو تو کرو ۔ میں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ کچھ اور۔ میں نے کہا: بس یہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرو ۔ (یعنی نماز کے اہتمام سے یہ خواہش پوری ہوگی)۔ (صحيح مسلم: 489، سنن ابو داود: 1320، سنن نسائى: 1138)
اللہ کے وہ بندے خوش نصیب ہیں جو اِس دنیاوی زندگی میں نمازوں کا اہتمام کرکے جنت الفردوس میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرافقت پائیں گے۔
حضرت عمرو اپنے والد اور وہ اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور اس عمر میں علیحدہ علیحدہ بستروں پر سلاؤ ۔ (سنن ابوداود: 495، سنن دارقطنى: 887، مسند احمد: 6689)
والدین كے ليے ضرورى ہے كہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسکی نماز کی نگرانی کریں، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی بھی کریں تاکہ بالغ ہونے سےپہلے نماز کا پابند ہوجائے، اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، بلکہ بعض علماء کی رائے کے مطابق وہ ملتِ اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نمازوں کی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی، اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (موطأ امام مالك: 6)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں کوتاہی کرتاہے، وہ یقیناًدین کے دوسرے کاموں میں بھی سستی کرنے والا ہوگا۔ اور جس نے وقت پر خشوع وخضوع کے ساتھ نمازوں کا اہتمام کرلیا، وہ یقیناًپورے دین کی حفاظت کرنے والا ہوگا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا: تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، لہذا سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جب اس بات کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ نمازیں ان پر (ہر مسلمان پر) فرض کی ہیں۔۔۔۔۔ (صحيح بخاری : 1395،صحيح مسلم: 19)
حضرت حنظلہ سے روايت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازوں کی اس طرح پابندی کرے کہ وضو اور اوقات کا اہتمام کرے، رکوع اور سجدہ اچھی طرح کرے اور اس طرح نماز پڑھنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ذمہ ضروری سمجھے تو اس آدمی پر جنت واجب جائے گى۔ (مسند احمد: 4/267)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز ۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ انے یہ وصیت فرمائی آپ اکی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد: 6/311)
حضرت جابر بن عبد الله سے روايت ہے، كہتے ہيں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت کی کنجی نمازہے، اور نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے۔ (سنن ترمذی: 4، مسند احمد: 14662، شعب الايمان: 2455)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔ (سنن نسائی: 3939، مسند احمد: 12293، مستخرج ابى عوانہ: 4020)
حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر ہواس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہو جائے‘‘۔ (صحيح البخارى: 3229، صحيح مسلم: 649)
حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے، رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھناگناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہ كا ارتكاب نہ كرے۔ (صحيح مسلم: 233، سنن الترمذى: 214)
حضرت ابو موسى اشعرى سے روايت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے (یعنی فجر اور عصر)۔ (صحيح البخارى: 574، صحيح مسلم: 635)
حضرت عثمان بن عفان سے روايت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے‘‘۔ (صحيح مسلم: 656، سنن ابو داود: 555، سنن ترمذى: 221)
حضرت عائشہ سے روايت ہے، نبى كريم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں‘‘۔ (صحيح مسلم: 725، سنن ترمذى: 416)
حضرت ابو امامہ سے روايت ہے،رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز باجماعت ہو کر پڑھتا ہے ، پھر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا ہے حتی کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اس کے لئے حج و عمرے کا ثواب مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مکمل مکمل یعنی مکمل اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (معجم كبير امام طبرانى: 7741،ترغيب وترہيب امام منذرى: 672)
حضرت ام حبيبہ سے روايت ہے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمايا کہجو شخص ہر روز بارہ رکعات نفل (یعنی سنتیں) پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘۔ (صحيح مسلم: 728، سنن ابو داود: 1250، سنن ترمذى: 415)
حضرت عبادہ بن صامت سے روايت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ سو تم کثرت سے سجدے کرو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 1424، مسند بزار: 2705)
Namaz Ki Fazilat In Urdu PDF
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.