Sone Ki Chidiya سونے کی چڑیا
سلمان وسیم خان انجمن اسلام الانا انگلش ہائی اسکول ، سی ایس ٹی ممبئی
(پردہ اٹھتاہے)
عبد اللہ : ۔ وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی آنکھوں نے
موہن: ۔ لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزا پائی
(عبد اللہ اور موہن ٹائم مشین میں بیٹھے ہوئے کچھ کررہے ہیں ، اچانک دونو ں ایک دوسرے سے ملکر مبارک باد دیتے ہیں ۔)
عبد اللہ: ۔ آج ہمار ابرسوں پرانا سپنا پورا ہوگیا ۔
موہن: ۔ ہاں ہمارا ٹائم مشین بنانے کا مشن مکمل ہوچکا ۔
عبداللہ: ۔ ٹائم مشین کے ذریعہ ہم کئی برس پیچھے اور کئی سال آگے کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں ۔
موہن: ۔ چلو! 1550 ء میں چلتے ہیں ۔
موہن: ۔ وہ دیکھو بہت سارے لوگ جمع ہیں ۔
عبدا للہ: ۔ شاید کوئی حج کو جارہاہے ۔
موہن: ۔ چلو ہم بھی دیکھتے ہیں ۔
موہن: ۔ واہ کیا سماں ہے ۔
عبدا للہ: ۔ یہاں تو ہر کوئی ایک دوسرے کا دوست لگ رہاہے ۔
موہن: ۔ رضیہ آپا حج کی تیاری کررہی ہیں ، لوگ انہیں مبارک باد دے رہے ہیں اور دعائیں لے رہے ہیں
عبد اللہ: ۔ اگلے ہفتے وہ اللہ کے گھر کے زیارت کو جارہی ہیں ۔
صفیہ: ۔ آپا میرے لئے دعا کرنا ۔
رضیہ: ۔ خدا آپکو بھی اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے ۔
رضیہ : ۔ آؤ آؤ کملا دیوی ، آپ کیسی ہو؟
کملا دیوی: ۔ میں تو ٹھیک ہوں ۔
رضیہ : ۔ آپکی چھوٹی بہن گیتا ؟
کملا دیوی: ۔ وہ بہت بیمار ہے ۔ ڈاکٹر نے آپریشن کے لئے کہہ دیاہے ۔
رضیہ : ۔ کیا، کیا ڈاکٹرنے آپریشن کے لئے کہا ہے؟
کملا دیوی: ۔ ہاں بہن جی ۔ کل اچانک اسکی طبیعت بگڑ گئی ۔
رضیہ : ۔ (صفیہ سے) کیا سارے مہمان جاچکے ہیں ؟
صفیہ : ۔ جی آپا ۔
رضیہ: ۔ (کملا دیوی سے )آپریشن میں بہت خرچ آتا ہے ۔ کیا پیسوں کا بندو بست ہوگیا ہے؟
کملا دیوی : ۔ آپ جانتی ہیں میری مالی حالت بہت کمزور ہے ۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے پیسے کہاں سے لاءوں ۔
رضیہ : ۔ (کملا دیوی کی باتیں سن کر مارے افسوس کے سر پکڑکر بیٹھ جاتی ہیں ۔ )
کملا دیوی: ۔ کیا ہوا آپا ؟
رضیہ : ۔ افسوس صد افسوس میری پڑوسن بیمار ہے اور میں حج کو جارہی ہوں ۔
رضیہ : ۔ (اپنے آنسو پوچھ کرحج کے پیسوں سے بھرا بیگ کملا دیوی کو دینے لگتی ہے ۔ )
کملا دیوی: ۔ بہن جی آپ کیا کررہی ہیں ؟ میری وجہ سے آپ حج کے ارادے کو مت ٹالئے ۔
رضیہ: ۔ میں نے مذہبی کتابوں میں پڑھا ہے ۔ آقائے مدنی فر ماتے ہیں : وہ شخص مسلمان نہیں ، جو پیٹ بھر کھا پی کر سوئے اور
اسکا پڑوسی بھوکا اور پریشان ہو، خدانے زندگی بخشی تو بعد میں بھی حج کر سکتی ہوں ۔
کملا دیوی: ۔ (رضیہ آپا کی باتیں سن کررونے لگتی ہے ۔ )
کملا دیوی: ۔ میں آپکا احسان کبھی نہیں بھول سکتی ۔
رضیہ : ۔ ایک بہن دوسرے بہن کے کام آجائے تو کوئی احسان کی بات نہیں ، بس میر ی دعاہے کہ گیتا جلد ازجلد ٹھیک ہوجائے ۔
موہن: ۔ (عبدا للہ سے) لوگوں میں کتنا پریم اور محبت ہے ۔
عبد اللہ: ۔ (موہن سے) ہاں برسوں پہلے ہمارا بھارت ایسا ہی تھا ۔
موہن: ۔ عبداللہ بھائی! چلو 1850ء میں چلتے ہیں ۔ (عبد اللہ اور موہن دونوں ٹائم مشین میں بیٹھ کر 1850ء میں چلے جاتے ہیں ۔
عبد اللہ: ۔ وہ کون لوگ ہیں ؟
موہن: ۔ وہ گورے رنگ کے انگریز جیسے دکھ رہے ہیں ۔
موہن: ۔ ہاں وہ کچھ باتیں کررہے ہیں ۔
عبد اللہ: ۔ ذرا سنیں تو وہ کیا بول رہے ہیں ۔
ارنالڈ: .India is a golden bird
ٹائسن : ?how can we get it
ارنالڈ: .divide and rule
ٹائسن: .what is a good idea
ٹائسن: ۔ مسٹر خان ! تمہارا پڑوسی لکشمن ہندو ہے، ہندو لوگ ناپاک ہوتا ہے ۔ اسکے ساتھ رہنے سے تمہارا نماز نہیں ہوگا ۔
ارنالڈ: ۔ مسٹر لکشمن !تمہار دوست خان ایک مسلمان ہے ۔ گائے ماتا کو کھاتاہے ۔ ایک دن تمہیں بھی کھاجائےگا ۔
(اگلے روز جب خان او لکشمن کی ملاقات ہوتی ہے )
خان : ۔ گندا کہیں کا !تم نے مجھے جہنم میں پہونچا دیا ۔
لکشمن: ۔ ارے پاپی تو ہماری ماتا کو کھاتاہے ۔ آ تجھے بتاتاہوں ۔
خان: ۔ (لکشمن کو دھکا دیتے ہوئے)ارے چل تومیر ا کچھ نہیں کرسکتا ۔
لکشمن: ۔ اب تو میں تیری لنکا لگا دنگا
خان: ۔ جا جا جوکرناہے کرلے ۔ (بات آگے بڑھتی ہے اور دونوں لڑنے لگتے ہیں ۔ )
ٹائسن: ۔ .Khan and Lakshman are fighting
ارنالڈ: ۔ .Our idea is working
ٹائسن : ۔ (ارنالڈ کے ہاتھ پر ہاتھ مارکر مسکراکر کہتاہے ۔ ) .The future of India will be in our hand
موہن : ۔ (یہ منظر دیکھ کر رونے لگتاہے ۔ )
عبداللہ : ۔ کیا ہوا میرے بھائی ؟
موہن: ۔ اپنے وطن کی بربادی کو میر ی آنکھیں نہیں دیکھ پارہی ہے ۔
عبد اللہ: ۔ اب ہم خوشیون کے دور میں جاتے ہیں ۔
عبد اللہ: ۔ موہن چلو 1947ء میں چلتے ہیں ۔
عبد اللہ : ۔ وہ بہت سے لوگ لال قلعہ میں جمع ہیں ۔
موہن: ۔ ارے ! آج تو پندرہ اگست ہے ۔ آج ہی کے دن ہندوستان آزاد ہواتھا ۔
عبداللہ: ۔ شاید ترانہ ہندی گایاجارہا ہے ۔ ( سارے جہاں سے اچھاہندوستاں ہمارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )(آڈیو کلپ)
موہن: ۔ 1947ء میں ہمارا دیش آزاد ہوچکاتھا ۔
عبد اللہ : ۔ آزادی کے ابھی سو سال بھی پورے نہیں ہوئے
موہن : ۔ پھر انگریزوں کے چیلے ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالنے اور نفرت کا بیج بونے میں لگ گئے ۔
عبداللہ: ۔ کبھی مندرو مسجد کے نام پر اور کبھی دھرم اور مذہب کے بنیاد پر دیش واسیوں کو آپس میں لڑانے لگے ۔
جرنلسٹ: ۔ ( ایک سیاسی لیڈر سے انٹر ویو لیتے ہوئے)ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔ آپ اس بات پر کتنا یقین رکھتے ہیں ؟
سیاسی لیڈر: ۔ ہندوستان نہ سیکو لر تھا ، نہ ہے اور نہ رہے گا ۔ یہ ملک صرف ہندءوں کا ہے اور ہندوءوں کا ہی رہے گا ۔
کلّو: ۔ لیڈر جی بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ۔
شیام: ۔ ارے ! یہ مسلمان نہ کبھی ہمارے دوست تھے او ر نہ رہیں گے ۔
للّن : ۔ اب ہ میں اپنے دھرم کی رکھشا خود کرنی پڑے گی ۔
کلّو : ۔ چلو ایک سینا بناتے ہیں ۔
(یہ سارے لوگ آپس میں باتیں کررہے تھے ۔ کہ اچانک وہاں سے ایک فوجی کا گذر ہوتاہے ۔ )
فوجی: ۔ سب کو مخاطب کرتے ہوئے ۔ بھارت کا نام سنا ہے تم نے ۔ چلوآج میں ایک کہانی سناتا ہوں ۔ 1857ء میں جب
انگریزوں نے ہندوستانیوں پر غلامی کا شکنجہ کسنا شروع کیا ، تو دو دوست ہوا کرتے تھے ۔ ایک نام تھا عامر علی اور دوسرے کا نام رام چرن داس ۔ ایک مولانا اور دوسرا پنڈٹ ۔ دونوں نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی ۔ تو انگریزوں کو لگا کے
اگر یہ دونوں دھرم والے ساتھ ہوگئے تو ہماری لنکا لگادینگے ۔ اور پھر وہی ہواجو ہمیشہ سچ کی آواز اٹھانے والوں کے
ساتھ ہوتاہے ۔ ایک دن انگریزوں نے ان دونوں کو ایک ہی پھانسی کے پھندے میں پھانسی د ے دی ۔ انگریزوں نے
سوچا کہ اپ دونوں دھرم والے کبھی ایک ساتھ نہیں ہونگے ۔ اور تب سے شروع ہوا دونوں دھرم کو بانٹنے کا کاروبار ۔
افسوس کے انگریزوں کی چھوڑی ہوئی اولادیں آج بھی وہی کام کررہی ہیں ۔
فوجی : ۔ تمہیں بہت سےنا بنانے کا شوق ہے تو آؤ میرے ساتھ ،شیر ہے ہماری سینا شیر ۔ اور ہر دھرم کے لوگ ہیں اس میں ۔
(سارے لوگ فوجی کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں ، وہ کون سی ہے تمہاری سینا بتاءو تو ۔
فوجی : ۔ انڈین آرمی ۔
(سارے لوگ گھبراکر ایک دوسرےکا منہ دیکھتے ہوئے ۔ پوچھتے ہیں ۔ آآ پ انڈین آرمی سے ہیں؟
فوجی: ۔ .Yes I am captain Abdul Hameed from Indian army
فوجی: ۔ ہم بارڈرپر کھڑے ہوتے ہیں ۔ تاکہ باہر والا کوئی ہمارے دیش کو توڑ نہ سکے ۔ پر ہ میں کیا پتا ہمارےی دیش میں بیٹھ کر کچھ
لوگ دیش کو توڑنے کی سازش کررہے ہیں ۔ او ر ہاں تم لوگ اپنی مسجدومندر بچاءو ۔ اپنا مذہب بچاؤ ۔ دیش کی ٹینشن
مت لو ۔ کیوں کی بارڈر پر ہم کھڑے ہیں ۔ اور جب تک ہم کھڑے ہیں ہندوستان کھڑا ہے ۔
وطن والووطن نہ بیچ دینا (آڈیوکلپ)
موہن: ۔ عبد اللہ چلو ٹائم مشین سے ذرا پانچ سال آگے کا ہندوستان دیکھتے ہیں ۔
عبداللہ: ۔ ارے یہ تو خانہ جنگی کا ماحول ہے ۔
موہن: ۔ ہندوستان ایک بار پھر ٹوٹنے کے کگار پر ہے ۔
عبداللہ: ۔ ہاں لوگ عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں ۔
موہن: ۔ وہ دیکھو کچھ لوگوں کو ملک بدر کیا جارہاہے ۔
عبداللہ: ۔ ہاں اورکچھ نئے چہروں کو تحفہ میں شہریت مل رہی ہے ۔
موہن: ۔ بھائی پورے دیش میں ماتم چھایا ہواہے ۔
عبداللہ: ۔ کچھ رونے جیسےی آوازیں آرہی ہیں ۔
موہن: ۔ کیا ہی بھلا ہوتاپورا دیش خوش ہوتا ۔
عبداللہ: ۔ چلو واپس چلو اور ایک نیا ہندوستان بنانے کی فکر کرو ۔
(عبداللہ اور موہن دونوں دوست ٹائم مشین رکھ کر ایک نئے ہندوستان کی تعمیر میں جٹ جاتے ہیں)
عبداللہ: ۔ بھائی دیش کا یہ برا حال کیسے ہوگیا؟
موہن: ۔ سماج کے اچھے لوگ سیاست میں نہیں آرہے ہیں ۔
عبداللہ: ۔ وہ کیوں؟
موہن : ۔ سیا ست بدنام ہوچکی ہے ۔
عبداللہ: ۔ اگر سماج کے سمجھدار لوگ سیاست سے دور رہے ، تو دیش کا اور برا حال ہوجائے گا ۔
موہن: ۔ ہاں ایک دن ایسا آسکتا ہے ۔ کہ پنچایت سے لیکر پارلیمینٹ تک صر ف وہ لوگ ہونگے جنکا دامن داغدا رہوگا ۔
عبداللہ: ۔ تب تو غریب عوام کے نصیب میں رنج و غم کے سواکچھ نہ آئے گا ۔
موہن: ۔ (عبداللہ سے) ہ میں لوگوں کو جاگروپ کرنے کی ضرورت ہے ۔
عبداللہ : ۔ (موہن سے) اگرہم ہونہی سوتے رہے تو آنے والی نسلیں ہ میں کبھی معاف نہیں کرےنگی ۔
موہن: ۔ آؤ! چلکر یک نئے ہندوستان کی تعمیرو ترقی میں اپنا ہاتھ بٹائیں ۔
موہن: ۔ عبداللہ بھائی اگرچہ ہم دونوں کا دھرم الگ ہے ۔ پر ہم تو ایک انسان ہی ہیں ۔
عبداللہ: ۔ ہاں !دھرم تو ہ میں جوڑتاہے ۔ جودھارمک ہوگا وہ خدا کے بندوں کو جوڑنے کی بات کرے گا ۔ کیوں کی
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا
عبداللہ : ۔ وطن کی فکر ناداں مصیبت آنے والی ہےتری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں
موہن: ۔ نہ مانوں گے تو مٹ جاءوگے اے ہندوستاں والوتمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔
موہن : ۔ لوگ دھرم کے نام پر کیوں بٹ جاتے ہیں؟
عبد اللہ : ۔ لوگوں کے درمیان مذہب کا صحیح تصور ختم ہوچکا ہے ۔
موہن: ۔ سیاسی کھیل میں مذہب ہی نشانہ بنتا ہے ۔
عبد اللہ : ۔ مذہب کے نام پر لوگ جلد جذباتی ہوجاتے ہیں ۔
موہن: ۔ یہ شیطانی سوچ کیسے ختم ہوگی ؟
عبد اللہ : ۔ لوگوں کوصحیح تعلیم اور رہنمائی کرنا ہوگا ۔
موہن : ۔ مذہب تو خداکا تصور پیش کرتاہے ۔ اور سارے انسا ن خداہی کے بندے ہیں ۔
عبداللہ: ۔ میں نے مذہبی کتابوں میں پڑھا ہے ۔ ساری مخلوق خدا کا پریوار ہے ۔ اور سب سے اچھا انسان ہو جو خداکے بندوں کے
کام آئے ۔
موہن: ۔ چلوچلیں اور چلکر لوگوں میں بیداری پیدا کریں ۔
عبداللہ: ۔ آپ گاندھی جی اور میں ابوالکام آزاد ۔
(عبد اللہ اور موہن ایک بڑے جلسے کو خطاب کرتے ہوئے)
موہن: ۔ دیشواسیو!آج ہمارا دیش ایک بار پھرغلامی کی طرف جارہاہے ۔ ہ میں سوچنا او رسمجھنا ہوگا ۔ کون ہمارا دشمن ہو اور کون دوست، کون دیش کو ترقی دے رہا ہے اور کون دیش کو کمزور کررہاہے ۔ کون قوم کا خیر خواہ ہے اور کون اپنے ذاتی فائدوں
کےلئے دیش کو بیچ رہاہے ۔
عبداللہ: ۔ وطن والو!اگر ہم نے ایکتا دکھائی تو ہمارے سامنے کوئی نہیں ٹک پائے گا ۔ ہ میں پورے ایمانو یقین کے ساتھ قدم آگے
بڑھانا ہوگا ۔ غلامانہ سوچ کے ساتھ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔
( عبد اللہ اور موہن کی انقلابی تقریر سن کر سارے لوگ ہندوستان زندہ باد ! انقلاب زندہ باد!کا نعرہ لگاتے ہوئے
ترنگا جھنڈا لیکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ )
موہن : ۔ چلو ٹائم مشین سے 2050ء میں چلتے ہیں ۔
عبداللہ: ۔ وہ دیکھو ہندوستان ایک بار پھر سونے کی چڑیا بن گیا ۔
موہن: ۔ ہاں گنگا جمنی تہذیب لوٹ آئی ۔
عبد اللہ : ۔ سارے ہندوستانی ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں ۔
موہن: ۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک ہی پریوار ہو ۔
عبداللہ: ۔ موہن بھائی یہ خوشحالی اور بدلاؤ آج سے ۵۲سا ل پہلے کی گئی ہماری محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے ۔
موہن : ۔ صحیح بالکل صحیح جیسا بوؤ گے ویسا کا ٹو گے ۔
(عبداللہ اور موہن نے ایک دوسرے سے گلے ملکر گاتے ہوئے ۔ سنو غور سے دنیا والوبری نظر نہ ہم پہ ڈالو ! ۔۔۔۔۔۔آڈیو کلپ)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.