ترجمہ اور تفسير سورہ مجادلہ
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴿1﴾
بیشک اللہ نے اس (عورت) کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے معاملے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ تعالیٰ سے شکایت کر رہی تھی۔ اللہ تم دونوں کی بات سن رہا تھا۔ بیشک اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ﴿2﴾
اور تم میں سے جو لوگ اپنی عورتوں سے ظہار کرلیتے ہیں ( یہ کہہ دیتے ہیں کہ تو میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے) وہ (کہنے سے) ان کی مائیں نہیں بن جاتیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ اور بلاشبہ وہ ایک نامعقول اور جھوٹ بات کہتے ہیں اور بیشک اللہ معاف کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے۔
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿3﴾
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرلیتے ہیں اور پھر وہ ان سے رجوع کرنا چاہتے ہیں ( اس سے) جو انھوں نے کہا تھا تو ان کے ذمے آپس میں ملنے سے پہلے (صحبت کرنے سے پہلے) ایک غلام آزاد کرنا (لازمی) ہے اس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے۔
فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ۖ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿4﴾
پھر جس کو غلام میسر نہ ہو تو اس کو ملاقات سے (صحبت سے) پہلے مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنے ہیں۔ پھر جس سے یہ بھی نہ ہوسکے تو پھر اس کے ذمے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ اس نے یہ حکم تمہیں اس لیے دیا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی حدود ہیں۔ (جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے) اور کافروں کے لیے بدترین عذاب ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنْزَلْنَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ ﴿5﴾
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالت کرتے ہیں وہ اس طرح ذلیل و رسوا کئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل و رسوا کئے گئے تھے۔ حالانکہ ہم نے صاف صاف احکامات نازل کئے تھے۔ اور کافروں کے لیے ذلت والا عذاب ہے۔
يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۚ أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿6﴾
وہ دن (زیادہ دور نہیں ہے کہ) جب اللہ سب کو جمع کرے گا۔ پھر وہ ان کے کئے ہوئے کاموں سے آگاہ کرے گا جن اعمال کو وہ بھول گئے مگر اللہ نے شمار کر رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ اور نگران ہے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِنْ ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿7﴾
کیا (اے مخاطب) تو نے نہیں دیکھا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ ہر بات کو جانتا ہے۔ کہیں بھی تین آدمیوں میں سرگوشی (خفیہ مشورہ) ہوتا ہے تو چوتھا اللہ ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں پانچ آدمی خفیہ بات کر رہے ہوں تو چھٹا اللہ ہوتا ہے۔
خفیہ بات کرنے والے تھوڑے ہوں یا زیادہ کوئی خفیہ مشورہ ایسا نہیں ہوتا مگر یہ اللہ ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی خفیہ مشورہ کریں۔ پھر وہ قیامت کے دن بتادے گا کہ وہ کیا کرتے رہے تھے۔ بیشک اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿8﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا کہ جن لوگوں کو سرگوشیوں (خفیہ سازشوں) سے روکا گیا تھا مگر وہ پھر بھی وہی کام کرتے ہیں جس سے روکا گیا تھا اور وہ آپس میں گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے لیے چپکے چپکے مشورہ کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو ان الفاظ سے سلام کرتے ہیں جن الفاط سے اللہ نے آپ پر سلام نہیں بھیجا۔ اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہم جو الفاط ادا کرتے ہیں ان پر ہمیں اللہ عذاب کیوں نہیں دیتا۔ (یاد رکھیں) ایسے لوگوں کے لیے جہنم کافی ہے جس میں یہ داخل ہوں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿9﴾
اے ایمان والو ! تم جب بھی آپس میں سرگوشیاں کرو تو گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں نہ کرو۔ بلکہ بھلائی اور پرہیزگاری کی باتو میں باہم مشورہ کرتے رہا کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو جس کے سامنے تمہیں حاضر ہونا ہے۔
إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿10﴾
ہر اس قسم کی سرگوشی کرنا شیطانی کام ہے۔ جو مسلمانوں کو رنجیدہ کردے۔ حالانکہ جب تک اللہ کا حکم نہ ہو اس وقت تک وہ اہل ایمان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿11﴾
اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کھول دیا کرو۔ (تم ایسا کرو گے تو) اللہ تمہارے لیے کشادگی پیدا کردے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ (مجلس سے) اٹھ جاؤ تو کھڑے ہوجایا کرو۔ اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان کو اور ان لوگوں کو جنہیں علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کردے گا۔ اور اللہ کو معلوم ہے تو جو کچھ کرتے ہو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿12﴾
اے ایمان والو ! جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ خیرات کردیا کرو۔ اسی میں تمہارے لیے بہتری اور پاکیزگی ہے۔ پھر اگر تمہیں (صدقہ ) میسر نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿13﴾
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ کردیا کرو۔ پھر جب تم نے اس کو نہ کیا اور اللہ نے تم سے درگذر کرلیا تو نماز قائم کرو، زکوۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ اللہ کو معلوم ہے تم جو کچھ کرتے ہو۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿14﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل کیا گیا۔ یہ لوگ نہ تو تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں۔ اور یہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔
أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿15﴾
اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے شدید عذاب تیار کر رکھا ہے۔ بیشک وہ جو کچھ کرتے ہیں برا کرتے ہیں۔
اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ﴿16﴾
ان (منافقین نے) اپنی قسموں کو ( اپنے بچاؤ کے لئے) ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے ذلت و رسوائی والا عذاب ہے۔
لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿17﴾
ان کے مال اور ان کی اولادیں اللہ کے مقابلے میں ( ان کے) کسی کام نہ آسکیں گے یہ جہنم والے ہیں جو اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ ۖ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ ﴿18﴾
جس دن اللہ ان سب کو جمع کرے گا تو یہ اللہ کے سامنے اسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھایا کرتے تھے۔ وہ یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے کوئی اچھی بات کہی ہے۔ سنو ! یہ بڑے ہی جھوٹے لوگ ہیں۔
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿19﴾
ان پر شیطان نے پوری طرح قابو پا رکھا ہے۔ جس نے انھیں اللہ کی یاد سے غاگل کر رکھا ہے۔ یہ شیطانی جماعت ہے۔ سنو ! کہ شیطان کا لشکر ہی تباہ ہونے والا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ ﴿20﴾
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں۔
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿21﴾
اللہ اس بات کو لکھ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول دونوں غالب رہیں گے بیشک اللہ قوت والا اور زبردست ہے۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿22﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کو جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان لوگوں سے محبت کرتے نہ دیکھیں گے جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان کے باپ دادا، بیٹے، بھائی یا کنبے والے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے یقین کو جما دیا ہے ۔ اور ان کے دلوں کو اپنے فیض سے قوت دی ہے۔ وہ اللہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے یہ اللہ کی جماعت ہے۔ سنو ! کہ بیشک اللہ کی جماعت ہی فلاح و کامیابی حاصل کرنے والی ہے۔
شانِ نزول
يہ سورت حضرت خولۃ بنت ثعلبہ (رض) کے متعلق نازل ہوئی ‘ وہ حضرت اوس بن الصامت (رض) کے نکاح میں تھیں۔ ان کا جسم بہت حسین تھا اور ان کے شوہر بہت شہوت اور بہت غصے والے تھے۔ انھوں نے ان کو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بلایا ‘ حضرت خولہ نے انکار کیا۔ انھوں نے کہا : تمہاری پشت مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہے ‘ پھر وہ اپنے قول پر نادم ہوئے اور زمانہ جاہلیت میں ایلاء اور ظہار طلاق شمار ہوتا تھا۔ حضرت اوس نے کہا : میرا گمان ہے کہ تم مجھ پر حرام ہوچکی ہو۔ حضرت خولہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ طلاق نہیں ہے اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئیں، حضرت خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ! بیشک میرے خاوند حضرت اوس بن الصامت نے مجھ سے شادی کی تھی ‘ اس وقت میں جوان ‘ مالدار ‘ خوشحال اور رشتہ داروں والی تھی ‘ حتیٰ کہ جب حضرت اوس نے میرا مال کھالیا اور میری جوانی ختم کردی اور میرے رشتہ دار بکھر گئے اور میری عمر زیادہ ہوگئی تو انھوں نے مجھ سے ظہار کرلیا اور اب وہ نادم ہیں ‘ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ وہ اور میں پھر سے جمع ہوجائیں اور وہ مجھ سے اپنی خواہش پوری کرسکیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس پر حرام ہوچکی ہو۔ حضرت خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ اس نے طلاق کا ذکر نہیں کیا اور وہ میرے بچوں کا باپ ہے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : تم اس پر حرام ہوچکی ہو۔ حضرت خولہ نے کہا : پھر میں اللہ سے اپنے فقر و فاقہ اور تنہائی کا ذکر کرتی ہوں۔ انھوں نے میرے ساتھ بہت وقت گزارا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : میرا یہی گمان ہے کہ تم اس پر حرام ہوچکی ہو اور تمہارے معاملہ میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ وہ بار بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنا مدعا عرض کرتی رہی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے یہی فرماتے رہے کہ تم اس پر حرام ہوچکی ہو۔ اس نے کہا : میں اللہ سے اپنے فاقہ اور اپنی پریشان حالی کی شکایت کرتی ہوں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اگر میں یہ بچے حضرت اوس کو دے دوں تو یہ ضائع ہوجائیں گے اور اگر میں ان بچوں کو اپنے پاس رکھوں تو یہ بھوکے رہیں گے ۔ ‘
پھر حضرت خولہ نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور کہنے لگیں : اے اللہ ! میں تجھ سے شکایت کرتی ہوں ‘ اے اللہ ! تو اپنے نبی کی زبان پر میری کشادگی کا حکم نازل فرما ‘۔
حضرت خولہ نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میرے معاملہ میں غور فرمائیں ‘ اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔ حضرت عائشہ بھى اس وقت وہاں موجود تھيں آپ نے کہا : اپنی بات مختصر کرو اور زیادہ بحث نہ کرو۔ کیا تم دیکھ نہیں رہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کی کیا کیفیت ہے ؟ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ جب آپ پر وحی نازل ہوچکی تو آپ نے اس سے فرمایا : اپنے خاوند کو بلاؤ۔ جب وہ اس کو بلا لائی تو آپ نے اس کے سامنے ” قد سمع اللہ قول التی تجادلک “ الایات پڑھیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے کہا : برکت والی ہے وہ ذات جس کی سماعت تمام آوازوں کو محیط ہے۔ بیشک وہ عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کررہی تھی اور میں گھر کی ایک جانب ان کی کچھ باتیں سن رہی تھی اور بعض باتیں مجھ سے مخفی رہیں۔ (معالم التنزیل ج ٥ ص ٣٩۔ ٣٨‘ مسند احمد ج ٦ ص ٤١٠‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٢١٤‘ سنن بیہقی ج ٧ ص ٣٨٩‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٢٧٩‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٥٨٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٦٣۔ ١٨٨‘ تفسیر عبدالرزاق رقم الحدیث : ١١١٨‘ المستدرک ج ٢ ص ٤٨١)
ظہار کو زمانہ جاہلیت میں سب سے شدید طلاق قرار دیا جاتا تھا کیونکہ اس میں بیوی کی پشت کو اپنی ماں کی پشت سے تشبیہ دی جاتی تھی اور عربوں میں نکاح اور طلاق کے جو احکام تھے ‘ وہ اسلام میں اس وقت تک معتبر رہتے تھے جب تک اسلام میں ان احکام کو منسوخ نہیں کردیا جاتا تھا اور اسلام میں ظہار کا یہ پہلا واقعہ تھا ‘ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب کے عرف کے موافق ابتداء ً اس کو برقرار رکھا۔ پھر جب حضرت خولہ (رض) اس مسئلہ سے دو چار ہوئیں اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس میں بہت بحث و تکرار کی اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی تو اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت کی اس رسم کو منسوخ فرما دیا اور ظہار کی مذمت میں المجادلہ : ٢ نازل ہوئی اور اس کے بعد آیات میں یہ بتایا کہ جب کوئی شخص ظہار کرنے کے بعد اس سے رجوع کرنا چاہے تو پھر اس کا کیا طریقہ ہے۔
ظہار کی تعریف اور اس کا حکم
علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی المتوفی ٥٧٣ ھ لکھتے ہیں :
جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے : تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے تو وہ اس پر حرام ہوجاتی ہے اور اب اس سے عمل زوجیت کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کو چھونا اور اس کو بوسہ دینا جائز ہے حتیٰ کہ وہ اس ظہار کا کفارہ ادا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے المجادلہ : ٣ میں فرمایا ہے۔
اور ظہار زمانہ جاہلیت کی طلاق تھی۔ شریعت نے اس کی اصل کو برقرار رکھا اور اس کے حکم کو وقت مقرر کی تحریم کی طرف کفارہ کے ساتھ منتقل کردیا اور ظہار نکاح کو زائل کرنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ جھوٹ بولنے اور بری بات کہنے کا جرم ہے۔ اسی لیے اس کے مناسب یہ سزا ہے کہ ظہار کرنے والے پر اس کی بیوی کے ساتھ جماع کو حرام قرار دیا جائے اور کفارہ ادا کرنے سے یہ حرمت ساقط ہوجائے پھر جب اس عمل زوجیت کو حرام کیا گیا تو اس کے دواعی اور محرکات کو بھی حرام کردیا گیا۔ اس کے برخلاف حائض اور روزہ دار کے ساتھ جماع کے محرکات کو حرام نہیں کیا گیا کیونکہ حیض اور روزہ کا اکثر وقوع ہوتا ہے ‘ کیونکہ اگر ان میں عمل زوجیت کے محرکات کو حرام قرار دیا جاتا تو اس سے حرج لازم آتا۔ اس کے برخلاف ظہار کا اتنا وقوع نہیں ہوتا۔ اس میں عمل زوجیت کے دواعی اور محرکات کو حرام قرار دینے سے حرج لازم نہیں آئے گا۔ (الہدایہ نصب الرایہ ج ٣ ص ٣٥٤۔ ٣٥٣‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)
ظہار کے الفاظ اور اس کی دیگر تفاصیل
اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے یوں کہے کہ تم مجھ پر ایسی ہو جیسی میری ماں کی پشت ہے۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں ظہار کہتے ہیں۔ ظہار کی تعریف یہ ہے کہ بیوی یا اس کے کسی عضو کو اپنی ماں یا کسی اور محرم کی پشت یا کسی اور عضو سے تشبیہ دینا ‘ اس کا حکم یہ ہے کہ اس پر بیوی سے جماع اور بوس و کنار وغیرہ حرام ہوجاتا ہے۔ جب تک وہ کفارہ ظہار نہ ادا کرے اور جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا: تم مجھ پر ایسی ہو جیسے میری ماں کا پیٹ یا اس کی ران ہے تو یہ بھی ظہار ہے اور اگر اس نے ماں کے علاوہ اپنی بہن یا اپنی پھوپھی یا رضاعی ماں یا کسی اور محرم کی پشت سے اپنی بیوی کو تشبیہ دی تو یہ بھی ظہار ہے اور اگر اس نے اپنی بیوی کے کسی عضو کو اپنی ماں سے تشبیہ دی ‘ مثلاً اپنی بیوی سے کہا : تمہارا سر میری ماں کی پشت کی طرح ہے یا تمہاری شرم گاہ یا تمہارا چہرہ یا تمہارا نصف یا تمہارا ثلث میری ماں کی طرح ہے تو یہ بھی ظہار ہے اور اگر اس نے کہا : تم میری ماں کی مثل ہو تو اس کا حکم اس کی نیت پر موقوف ہے۔ اگر اس کی نیت یہ تھی کہ تم میری ماں کی طرح معزز ہو تو طلاق یا ظہار کچھ نہیں ہے اور اگر اس نے کہا : میری نیت ظہار کی تھی تو یہ ظہار ہے اور اگر اس نے کہا : میری نیت طلاق کی تھی تو اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ (ہدایہ اولین ص ٤١٠۔ ٤٠٩‘ ملخصاً و موضحاً ‘ مطبوعہ مکتبہ شرکت علمیہ ‘ ملتان)
بیوی کو طلاق کی نیت سے ماں بہن کہنے سے طلاق واقع نہ ہونے کے دلائل
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زوجہ حضرت سارہ کے متعلق فرمایا : یہ میری بہن ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٥٨۔ ٢٢١٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٦٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٢٣٠‘ عالم الکتب)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ جس شخص نے بغیر کسی نیت کے اپنی بیوی کے متعلق کہا یہ میری بہن ہے تو اس کا یہ کہنا طلاق نہیں ہے۔ (عمۃ القاری ج ١٢ ص ٤٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت ابو تمیمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو اپنی بیوی سے یہ کہتے ہوئے سنا ‘ ” اے میری بہن ! “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مکروہ قرار دیا اور اس کو یہ کہنے سے منع فرمایا۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٢١١۔ ٢٢١٠‘ بیروت)
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ قول ظہار نہیں ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے کراہت اور ممانعت کے اس کا اور کوئی حکم نہیں بیان فرمایا ‘ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اے بیٹی ! کہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (ردالمختار ج ٤ ص ١٠٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ بیوی کو بہن یا بیٹی کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ بیوی کو میری ماں کہنے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ناپسند اس لیے فرمایا کہ یہ واقع کے خلاف ہے اور جھوٹ ہے۔ اس پر صرف توبہ کرنا واجب ہے۔ فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے ماں بہن کہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
علامہ حسن بن منصور اوزجندی المعروف قاضی خاں متوفی ٥٩٢ ھ لکھتے ہیں : ولو قال لامراتہ إن فعلت کذا فأنت أمي و نوی به التحریم فھو باطل لا یلزمه شيء. اور اگر اس نے اپنی بیوی سے کہا : اگر تو نے فلاں کام کیا تو ‘ تو میری ماں ہے اور اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی تو اس کا یہ قول باطل ہے اور اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا ‘ یعنی اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی۔
قاضی خاں کی اس عبارت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو اپنی ماں یا ا بہن کہا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ اس نے طلاق کی نیت کی ہو۔ علامہ محمد بن علی بن محمد الحفکفی الحنفی المتوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :
کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا : تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے ‘ یا کہا : تو میری ماں کی مثل ہے ‘ اور اس سے بیوی کے معزز ہونے کی نیت کی یا ظہار کی نیت کی یا طلاق کی نیت کی تو اس کی نیت صحیح ہے اور جس کی اس نے نیت کی وہی حکم لاگو ہوگا اور اگر اس نے کوئی نیت نہیں کی یا تشبیہ کا ذکر نہیں کیا (یعنی طلاق کی نیت سے کہا تو میری ماں ہے) تو اس کا یہ کلام لغو ہوگا۔ (الدرالمختار مع ردالمختار ج ٥ ص ١٠٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں: أنت أمي بلا تشبیه فإنه باطل و إن نوی : ترجمہ :۔۔ کسی شخص نے اپنی بیوی سے بغیر تشبیہ دیئے کہا : تو میری ماں ہے تو اس کا یہ قول باطل ہے خواہ اس نے طلاق کی نیت کی ہو۔ (ردالمختار ج ٥ ص ٩٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
اسی طرح علامہ ابراہیم بن محمد حلبی حنفی متوفی ٩٥٦ ھ نے لکھا ہے :
اور اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا : تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے تو اگر اس نے اپنی بیوی کے معزز ہونے کی نیت کی تو اس کی تصدیق کی جائے گی اور اگر اس نے اس قول سے ظہار کی نیت کی ہے تو یہ ظہار ہوگا یا طلاق کی نیت کی ہے تو یہ طلاق بائن ہوگی اور اگر اس نے کوئی نیت نہیں کی تو پھر اس قول سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوگا۔ (ملتقی الابحر مع مجمع الانھر ج ٢ ص ١١٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
﴿وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّـتَـمَاۗسَّا ۭ ذٰلِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ﴾
کفارہ ظہار کے متعلق احادیث
حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے میرے خاوند حضرت اوس بن الصامت (رض) نے ظہار کرلیا۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس بات کی شکایت کرنے کے لیے گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے تکرار کرتے رہے اور فرماتے رہے : تم اللہ سے ڈرو۔ “ وہ تمہارا غم زاد ہے۔ میں اسی طرح بحث کرتی رہی ‘ حتیٰ کہ قرآن مجید کی یہ آیتیں نازل ہوئیں : ” قد سمع الله قول التي تجادلک في زوجھا “ (المجادلہ : ٤۔ ١) تب آپ نے فرمایا : اس سے کہو : وہ ایک غلام کو آزاد کردے۔ حضرت خولہ نے کہا : وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا : پھر وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے۔ حضرت خولہ نے کہا : وہ بہت بوڑھا ہے روزوں کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا : پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ حضرت خولہ نے کہا : اس کے پاس تو صدقہ کرنے کے لیے بالکل مال نہیں ہے۔ حضرت خولہ نے کہا : پھر آپ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آیا ‘ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں اس کی ایک اور ٹوکرے سے مدد کروں گی۔ آپ نے فرمایا : تم نے اچھا کیا ‘ جاؤ ! اس ٹوکرے سے اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ اور پھر اپنے عم زاد کی طرف لوٹ جاؤ۔ امام ابوداؤد نے کہا : اس ٹوکرے میں ساٹھ صاع (دو سو چالیس کلو گرام) کھجوریں تھیں۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٢١٤)
امام ابو داؤد نے ایک اور حدیث روایت کی ہے۔ اس میں حضرت سلمہ بنت صخر (رض) کا اسی قسم کا واقعہ ہے۔ انھوں نے بھی کفارہ ظہار ادا کرنا تھا اور ان کے پاس بھی مال تھا نہ وہ روزوں کی طاقت رکھتی تھیں۔ آپ نے ان سے فرمایا : بنوزریق سے صدقہ کا مال لے کر ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو ۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٢١٣‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ١١٩٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٦٢ )
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت اوس بن الصامت نے اپنی بیوی حضرت خولہ بنت ثعلبہ (رض) سے ظہار کیا۔ انھوں نے اس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی۔ سو انھوں نے کہا : جب میں بوڑھی ہوگئی اور میری ہڈی کمزور ہوگئی تو انھوں نے مجھ سے ظہار کرلیا۔ تب اللہ نے آیت ظہار نازل فرمائی۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اوس سے کہا : تم ایک غلام آزاد کردو ‘ انھوں نے کہا : میرے پاس ایک طاقت نہیں۔ آپ نے فرمایا : پھر تم دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ انھوں نے کہا : جس دن میں دو مرتبہ کھانا نہ کھاؤ تو میری بصارت کمزور ہوجاتی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ انھوں نے کہا : میرے پاس اتنا طعام نہیں ہے ‘ البتہ آپ مدد فرمائیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پندرہ صاع کے ساتھ ان کی مدد فرمائی اور اللہ تعالیٰ رحیم ہے ‘ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے (مزید) پندرہ صاع جمع کردیئے اور یوں ساٹھ مسکینوں کا طعام ہوگیا۔ (سنن دارقطنی ج ٣ ص ٣١٥ طبع قدیم ‘ رقم الحدیث : ٣٧٩٣ طبع جدید ‘ دارالمعرفۃ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
ظہار میں فقہاء احناف کا موقف
علامہ ابو الحسن علی بن ابی الحنفی المرغینانی المتوفی ٥٩٣ ھ لکھتے ہیں:
اور کفارہ ظہار ‘ ایک غلام کو آزاد کرنا اور اگر غلام میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے ‘ پس اگر اس کی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے کیونکہ کفارہ میں اسی ترتیب سے نص وارد ہے اور یہ کفارے عمل زوجیت سے پہلے ادا کئے جائیں اور یہ غلام آزاد کرنے میں اور روزے رکھنے میں تو ظاہر ہے کیونکہ قرآن مجید میں اسی طرح ہے اور کھانا کھلانے میں بھی اسی طرح ہے کیونکہ کھانا کھلانے میں جماع سے منع کیا گیا ہے۔ اس حرمت کی وجہ سے جو ظہار سے ثابت ہے ‘ اس لیے کفارہ کو عمل زوجیت پر مقدم کرنا ضروری ہے تاکہ عمل زوجیت حلال طریقہ سے ہو۔ (الہدایہ مع البنایہ ج ٥ ص ٣٣٧‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١١ ھ)
علامہ ابوبکر احمد بن علی الرازی الحنفی الجصاص المتوفی ٣٧٠ ھ لکھتے ہیں :
ظہار کرنے والے کے متعلق اختلاف ہے۔ کیا وہ کھانا کھلانے سے پہلے جماع کرسکتا ہے ؟ پس ہمارے اصحاب (احناف) اور امام مالک اور مام شافعی نے کہا : اس وقت تک جماع نہ کرے حتیٰ کہ کھانا کھلا دے جبکہ اس پر کھانا کھلانا فرض ہو اور جو ظہار کرنے والا روزہ رکھنے سے عاجز ہو اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک وہ کفارہ نہ دے ‘ جماع نہ کرے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص ٤٢٧۔ ٤٢٦‘ سہیل اکیڈمی ‘ لاہور)
تاہم علامہ المرغینانی الحنفی نے لکھا ہے کہ کھانا کھلانے سے پہلے تو مظاہر جماع نہیں کرسکتا لیکن کھانا کھلانے کے درمیان جماع کرسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
اگر مظاہر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ رہا ہو اور دو ماہ کے درمیان اس نے بیوی سے جماع کرلیا تو ازسر نو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے گا اور جب دو ماہ کے مسلسل روزے نہ رکھ سکتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا اور ہر مسکین کو نصف صاع (دو کلو) گندم یا ایک صاع (چار کلو) کھجور یا ایک صاع جو یا ان کی قیمت ادا کرے گا اور اگر اس نے ایک مسکین کو ساٹھ دن کھلایا تو اس کے لیے کافی ہوگا اور اگر اس نے ایک مسکین کو ایک دن میں ساٹھ مسکینوں کا طعام دے دیا تو یہ صرف ایک مسکین کا کفارہ ہوگا اور اگر مظاہر نے کھانا کھلانے کے دوران اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو اس کو یہ کفارہ دہرانا نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غلام آزاد کرنے اور ساٹھ مسلسل روزوں میں یہ قید لگائی ہے کہ یہ کفارہ جماع کرنے سے پہلے ادا کریں اور کھانا کھلانے میں یہ قید نہیں لگائی کہ جماع کرنے سے پہلے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ اس لیے یہ کفارہ اپنے اطلاق پر رہے گا اور کھانا کھلانے کے درمیان وہ جماع کرسکتا ہے۔ (ہدایہ مع نصب الرایہ ج ٣ ص ٣٥٩۔ ٣٥٨‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ ‘ المحیط البرہانی ج ٥ ص ١٩٣۔ ١٩٢‘ ادارۃ القرآن ‘ ١٤٢٤ ھ)
ظہار میں فقہاء حنبلبیہ کا موقف
علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :
کھانا کھلانے میں تسلسل ضروری نہیں ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تسلسل کی قید نہیں لگائی ‘ پس اگر مظاہر نے کھانا کھلانے کے دوران اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو اس پر از سر نو کھانا کھلانا واجب نہیں ہوگا۔ (المغنی مع الشرح الکبیر ج ٦٠٨‘ دارالفکر ‘ بیروت)
ظہار میں فقہاء مالکیہ کا موقف
امام مالک بن انس متوفی ١٧٩ ھ فرماتے ہیں :
جس شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا ‘ پس ایک ماہ کے روے رکھے ‘ پھر رات کو اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو وہ از سر نو روزے رکھے گا اور پچھلے روزوں پر بنا نہیں کرے۔ اسی طرح کھانا کھلانے والے کا حکم ہے ‘ اگر ساٹھ مسکینوں میں سے ایک مسکین بھی رہتا ہو اور وہ اپنی بیوی سے جماع کرلے تو اس کو ازسر نو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ (المدینۃ الکبریٰ ج ٣ ص ٨٢‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمدمال کی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
حضرت اوس بن الصامت (رض) کی حدیث میں ہے کہ جب انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر دی کہ انھوں نے اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے تو آپ نے ان کو کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا اور یہ صاف تصریح ہے ‘ جو غلام آزاد کرنے کا کفارہ ہو یا روزہ رکھنے کا یا کھانا کھلانے کا اور امام ابوحنیفہ نے کہا : اگر اس کا کفارہ کھانا کھلانا ہ، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ جماع کرے پھر کھانا کھلائے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٧ ص ٢٥٤‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں کہ علامہ قرطبی (رح) نے امام اظعم ابوحنیفہ (رض) کا موقف صحیح نقل نہیں کیا۔ امام اعظم کے نزدیک کھانا کھلانے سے پہلے اپنی بیوی سے جماع کرنا حلال نہیں ہے ‘ جیسا کہ ” ہدایہ “ اور ” محیط برھانی “ کے حوالوں سے گزر چکا ہے۔ البتہ ان کے نزدیک کھانا کھلانے کے درمیان اپنی بیوی سے جماع کرنا جائز ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غلام آزاد کرنے اور روزوں کے ساتھ یہ قید لگائی ہے کہ جماع کرنے سے پہلے یہ کفارہ ادا کرے اور کھانا کھلانے کے ساتھ کفارہ کو مطلق رکھا ہے ‘ اس کے ساتھ یہ قید نہیں لگائی۔
ظہار میں فقہاء شافعیہ کا موقف
علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی الشافعی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :
امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے پہلے جماع کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح غلام آزاد کرنے اور ساٹھ روزے رکھنے سے پہلے جماع کرنا حرام ہے کیونکہ یہ تینوں کفارہ ظہار ہیں اور جب مطلق ‘ مقید کی جنس سے ہو تو مطلق کو مقید پر محمول کردیا جاتا ہے ‘ جیسے شہادت میں ہے ‘ انتہی کلامہ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ترجمہ : (الطلاق : ٢)۔۔ تم اپنوں میں دو نیک آدمیوں کو گواہ بناؤ۔
اس آیت میں گواہ بنانے کو نیک آدمیوں کے ساتھ مقید کیا ہے اور دوسری آیت میں گواہ بنانے کو مطلق رکھا ہے۔ فرمایا :
ترجمہ : (البقرہ : ٢٨٢)۔۔ تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ بناؤ۔
امام فخر الدین رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ ‘ علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ ‘ علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ اور محمد بن علی بن محمد شوکانی ظاہری نے کہا : البقرہ : ٢٨٢ میں مطلق گواہوں سے مراد عادل گواہ ہیں ‘ جیسا کہ الطلاق : ٢ میں ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٣ ص ٩٥‘ الجامع لاحکام القرآن جز ٢ ص ٣٥٤‘ روح المعانی جز ٣ ص ٩٤‘ فتح القدیر ج ١ ص ٥٠٨)
علامہ الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :
اور اس لیے کہ جب ایک مقید پر مطلق کو محمول کرنا واجب ہے تو دو مقیدوں پر مطلق کو محمول کرنا بطریق اولیٰ واجب ہوگا اور زیادہ موکد ہوگا اور کفارہ ظہار میں یہ قید ہے کہ جماع کرنے سے پہلے غلام آزاد کیا جائے اور دو ماہ کے روزوں کا زمانہ طویل ہے ‘ پھر بھی یہ قید ہے کہ جماع کرنے سے پہلے دو ماہ کے روزے رکھے جائیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے میں بھی یہ قید ملحوظ ہوگی کہ جماع کرنے سے پہلے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے اور جبکہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا زمانہ ساٹھ روزوں سے بہت کم ہے تو اس میں قید کے اعتبار کرنے کا زیادہ حق ہے۔
(الحادی الکبیر ج ١٣ ص ٤٤٧۔ ٤٤٦‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ ‘ تکملہ مجموع شرح المہذب ج ٢١ ص ٢٨٤ ذ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٣ ھ)
فقہاء شافعیہ کی دلیل کا جواب
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الھمام الحنفی المتوفی ٧٦١ ھ اس دلیل کے جواب میں لکھتے ہیں :
مطلق کو مقید پر محمول کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ مطلق مقید کی جنس سے ہو اور دونوں کا تعلق ایک واقعہ سے ہو ‘ جیسے یہاں پر غلام آزاد کرنا اور ساٹھ روزے رکھنا ‘ دونوں اس قید سے مقید ہیں کہ ان سے پہلے جماع نہ کیا جائے اور اس کے بعد ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے اور اس میں یہ قید نہیں ہے کہ اس سے پہلے جماع نہ کیا جائے اور یہ مطلق ہے اور یہ بھی مقید کی جنس سے ہے یعنی کفارہ ظہار ہے لیکن مطلق کو مقید پر محمول کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں کا حکم بھی ایک ہو جیسا کہ اس صورت میں ہے۔
مطلق کو مقید پر محمول کرنے کا ضابطہ
ترجمہ : (المائدہ : ٨٩)۔۔ (پس جو شخص کفارہ قسم میں غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھے) تو وہ تین دن کے روزے رکھے۔
علامہ ابو عبداللہ مالکی قرطبی لکھتے ہیں:
حضرت ابن مسعود (رض) کی قرات میں ” ثلاثة أیام “ کے بعد ” متتابعات “ کی بھی قید ہے ‘ یعنی تین دن کے مسلسل روزے رکھے اور المائدہ : ٨٩ میں مطلقاً تین دن روزے رکھنے کا حکم ہے اور حضرت ابن مسعود کی قرات میں چونکہ تسلسل کی قید ہے ‘ اس لیے اس مطلق کو مقید کیا جائے گا اور یہی امام ابوحنیفہ اور ثوری کا قول ہے اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اور یہی مزنی کا مختار ہے۔ انھوں نے کفارہ قسم کے روزوں کو کفارہ ظہار کے روزوں پر قیاس کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرات سے استدلال کیا ہے۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ٦ ص ٢١٧‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب قرات کرتے تھے: ” فصیام ثلاثة أیام متتابعات “ پھر مسلسل تین دن کے روزے رکھے اور مجاہد روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کی قرات میں تھا : ”فصیام ثلاثة أیام متتابعات“ (جامع البیان رقم الحدیث : ٩٧٥١۔ ٩٧٥٠‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
عطاء ‘ اعمش اور طاؤس کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابن مسعود کی قرات اس طرح پہنچی ہے: فصیام ثلاثة أیام متتابعات “ (مصنف عبدالرزاق ج ٨ ص ٤٤٣۔ رقم الحدیث : ١٦٣٨٤۔ ١٦٣٨٣۔ ١٦٣٨٢‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ جدید ‘ ١٤٢١ ھ)
ابو العالیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابی قرات کرتے تھے : ” فصیام ثلاثة أیام متتابعات “. (السنن الکبری للبیہقی ج ١٠ ص ٦٠‘ ملتان ‘ معرفۃ السنن والاثار للبیہقی ج ٧ ص ٣٢٦‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)
علامہ ابن ھمام حنفی فرماتے ہیں : اس صورت میں مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی چیز کو مطلقاً بھی وجود میں داخل کرنا مطلوب ہو اور اسی چیز کو مقیداً بھی وجود میں داخل کرنا مطلوب ہو کیونکہ کفارہ قسم کے تین روزوں کو بغیر کسی قید کے مطلقاً بھی رکھنے کا حکم ہے اور تسلسل کی قید کے ساتھ بھی رکھنے کا حکم ہے اور یہاں پر ایک ہی واقعہ ہے اور ایک ہی حکم ہے اسی لیے یہاں پر مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے۔ قرآن مجید کی قرات متواترہ میں مطلقاً تین روزے رکھنے کا حکم ہے اور قرات مشہورہ میں تتابع اور تسلسل کی قید ہے اور قرات مشہورہ سے قرآن مجید پر زیادتی جائز ہے۔ (فتح القدیر ج ٤ ص ٢٣٢‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
ظہار میں علماء اہل حديث کا موقف
ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء اور مفسرین نے ” ثم یعودون لما قالوا “ کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ مظاہر جماع کے لیے لوٹنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ تین کفاروں میں سے کوئی ایک کفارہ دے اور فرقہ ظاہریہ (غیر مقلدین) علماء نے یہ کہا ہے کہ ” ثم یعودون لما قالوا ‘ کا معنی یہ ہے کہ وہ ایک بار اپنی بیوی سے یہ کہنے کے بعد کہ تو میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے ‘ دوبارہ یہی بات کہے کہ تو میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے تو اس پر کفارہ ظہار واجب ہوگا۔
شیخ علی بن احمد بن سعید بن حزم اندلسی متوفی ٤٥٦ ھ لکھتے ہیں :
جس شخص نے اپنی بیوی سے کہا : تو میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے ‘ اس پر کچھ واجب نہیں ہے ‘ نہ اس کی بیوی سے جماع کرنا اس پر حرام ہے حتیٰ کہ وہ اسی بات کو دوبارہ کہے اور جب وہ دوبارہ اسی بات کو کہے گا تو اس پر کفارہ ظہار واجب ہوجائے گا۔ (المحلی بالاثار ج ٩ ص ١٨٩‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٥ ھ)
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ لکھتے ہیں: فرقہ ظاہریہ کا یہی مسلک ہے۔ (فتح البیان ج ٧ ص ٩‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)
﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَيَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ ۡ وَاِذَا جَاۗءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ ۙوَيَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ ۭ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ ۚ يَصْلَوْنَهَا ۚ فَبِئْسَ الْمَصِيْرُ﴾
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : یہ آیت یہود اور منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ وہ آپس میں سرگوشی کرتے تھے اور مسلمانوں کی طرف دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف آنکھوں سے اشارے کرتے تھے ‘ پھر مسلمان کہتے کہ شاید ان کو یہ خبر پہنچ گئی ہے کہ مہاجرین اور انصار میں سے ہمارے بعض بھائی قتل ہوگئے ہیں یا ان پر کوئی مصیبت آئی ہے یا وہ شکست سے دوچار ہوگئے ہیں اور اس سے مسلمانوں کو رنج پہنچتا ‘ جب یہودیوں اور منافقوں نے کئی بار ایسا کیا تو مسلمانوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی تو آپ نے یہودیوں اور منافقین کو سرگوشیوں سے منع فرمایا اور جب وہ باز نہیں آئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (اسباب النزول ص ٤٣٠۔ رقم الحدیث : ٧٩٢‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
حضرت ابو سعید خدری (رض) نے کہا : ایک رات ہم آپس میں باتیں کررہے تھے ‘ اچانک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آئے اور فرمایا : یہ تم کیسی سرگوشیاں کررہے ہو ؟ کیا تم کو سرگوشی کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! ہم اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔ ہم تو مسیح الدجال کا ذکر کررہے تھے ‘ اس کے خوف کی وجہ سے۔ آپ نے فرمایا : کیا میں تم کو اس چیز کی خبر نہ دوں ‘ جس کا خوف مسیح الدجال سے بھی زیادہ ہے ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں ! یارسول اللہ ! ‘ آپ نے فرمایا : وہ شرک خفی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی وجہ سے (نیک) کام کرے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣٠‘ حافظ ابن کثیر نے کہا : اس حدیث کی سند ضعیف ہے ‘ تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٣٥٥‘ دارالفکر ‘ بیروت)
یہودیوں کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کی صورت میں بددعا دینا اور آپ کا جواب
اس کے بعد فرمایا : اور جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو ان الفاظ کے ساتھ آپ کو سلام کرتے ہیں جن الفاظ کے ساتھ آپ کو اللہ نے سلام نہیں بھیجا اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے اس قول کی وجہ سے اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ الایۃ
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کے پاس آئے اور کہنے لگے : السام علیکم (تم پر موت آئے) ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب دیا اور فرمایا : کیا تم کو معلوم ہے انھوں نے کیا کہا تھا ؟ صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں ‘ یا نبی اللہ ! انھوں نے سلام کیا تھا ‘ آپ نے فرمایا : نہیں ! انھوں نے ایسے ایسے کہا تھا ‘ مجھے بتاؤ ! میں نے کیا کہا تھا ؟ صحابہ نے بتایا : آپ نے کہا تھا : السام علیکم “ آپ نے فرمایا : ہاں ! پھر اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اہل کتاب میں سے کوئی شخص تم کو سلام کرے تو تم کہو : علیک ‘ یعنی تم پر وہی نازل ہو جو تم نے کہا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٠١‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٤٠ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہود آئے اور کہا : السام علیک یا ابا القاسم ! آپ نے فرمایا : وعلیکم ‘ میں نے کہا : السام علیکم اور اللہ تمہارے ساتھ ایسا یسا کرے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ٹھہرو اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ بد زبانی کو ناپسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے دیکھا نہیں ‘ وہ کیا کہہ رہے تھے ! آپ نے فرمایا : کیا تم نہیں دیکھتیں کہ میں ان پر وہی جواب لوٹا دیتا ہوں جو وہ کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : وعلیکم ‘ اور تم پر بھی وہی نازل ہو ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی : ” بما لم یحیک بہ الله “ (المجادلہ : ٨) یعنی اللہ آپ پر سلام بھیجتا ہے اور یہ کہتے ہیں : السام علیک اور السام کا معنی موت ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٢٧‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٩٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٩٨)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اہل کتاب تم کو سلام کریں تو تم کہو : وعلیکم (یعنی تم پر بھی وہی چیز نازل ہو جس کے نزول کی تم نے ہمارے لیے دعا کی۔ خواہ تم نے ہماری موت کی دعا کی ہو یا ہمارے دین پر مصیبت کے نزول کی دعا کی ہو) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٢٦۔ ٦٢٥٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٣‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٥٢٠٧‘ سنن ترمذی رقم الحدیث :؍ ٣٢٩٦‘ مسند احمد ج ٣ ص ٤٩٩‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٩١٦)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور کہا : السام علیک یا ابا القاسم۔ پس آپ نے فرمایا : وعلیکم ‘ پھر حضرت عائشہ (رض) نے غضب ناک ہو کر کہا : کیا آپ نے نہیں سنا یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ! پس میں نے ان کو وہی جواب دیا ہے جو جواب ہم ان کو دیتے ہیں اور وہ یہ جواب ہم کو نہیں دیتے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٦ )
اہل ذمہ کو سلام کا جواب دینے میں فقہاء کے مذاہب
علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
اہل ذمہ کو جواب دینے میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ‘ شعبی اور قتادہ کا موقف یہ ہے کہ ان کے سلام کا جواب دینا واجب ہے کیونکہ آپ نے انھیں جواب دینے کا حکم دیا ہے اور اشہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ ان کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے ‘ اگر تم جواب دینا چاہو تو کہو : ” وعلیک “ اور ابن طاؤس کا مختار یہ ہے کہ تم جواب میں کہو : ” علاک السلام “ یعنی سلامتی تم پر سے اٹھ گئی ہے اور ہمارے بعض اصحاب کا مختاریہ ہے کہ اسلام (سین کی زیر) کہو ‘ یعنی تم پر پتھر برسیں اور جو امام مالک کا قول ہے وہ اتباع سنت کی وجہ سے زیادہ بہتر ہے۔ واللہ اعلم
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ یہودیوں نے آ کر کہا : السام علیک یا ابا القاسم ! آپ نے فرمایا : و علیکم
حضرت عائشہ نے کہا : تم پر موت ہو اور مذمت ہو ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ ! بد زبانی کرنے والی نہ بنو ‘ حضرت عائشہ نے کہا : آپ نے سنا نہیں انھوں نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیا میں نے ان کے قول کو ان پر لوٹا نہیں دیا ؟ میں نے کہا : وعلیکم۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٥ )
یہودیوں کی گستاخیوں کے باوجود ان پر فوراً عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ
اس کے بعد فرمایا : اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے اس قول پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ‘ ان کے لیے دوزخ کافی ہے ‘ وہ اس میں داخل ہوں گے اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے۔
یہودیوں نے کہا : اگر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہوتے تو اللہ ہمارے اس قول (السام علیکم) کی وجہ سے ہمیں ضرور عذاب دیتا اور اس میں ان کی جہالت ہے کیونکہ وہ اہل کتاب تھے اور وہ جانتے تھے کہ کبھی آنبیاء (علیہم السلام) کو غضب میں لایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو غضب میں لانے والوں پر فوراً عذاب نازل نہ کرنا اس کی مشیت اور مصلحت میں نہ ہو تو وہ قیامت اور آخرت میں عذاب نازل فرماتا ہے ‘ جیسا کہ اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے : ان کے لیے دوزخ کافی ہے اور وہ اسی میں داخل کئے جائیں گے اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے۔
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ ۚ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ﴾
مقاتل نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الصفۃ میں تشریف فرما تھے اور جگہ تنگ تھی اور وہ جمعہ کا دن تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین اور انصار میں سے شہداء بدر کی تکریم کرتے تھے ‘ پھر حاضرین بدر میں سے کچھ صحابہ آئے اور مجلس میں لوگ پہلے سے آگے بیٹھے ہوئے تھے ‘ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لوگوں کے پیروں کی جانب کھڑے ہوگئے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ ان کے لیے کشادگی کرکے بیٹھنے کی جگہ بنائی جائے۔ لوگوں نے ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں دی تو یہ چیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناگوار ہوئی تو آپ کے گرد جو غیر بدری صحابہ تھے ‘ آپ نے ان سے فرمایا : فلاں ! تم اٹھو ‘ اے فلاں ! تم اٹھو ‘ اور آپ نے اتنے غیر بدری صحابہ کو اپنے قریب سے اٹھا دیا جتنے بدری صحابہ آئے تھے۔ پس جن لوگوں کو اپنی جگہ سے اٹھایا گیا تھا ان کو یہ اٹھانا ناگوار گذرا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے چہروں سے ناگواری کو بھانپ لیا تو منافقین نے مسلمانوں سے کہا : کیا تمہارا یہ زعم نہیں تھا کہ تمہارے پیغمبر لوگوں کے درمیان عدل اور انصاف کرتے ہیں۔ پس اللہ کی قسم ! انھوں نے ان لوگوں کے ساتھ عدل اور انصاف نہیں کیا۔ مسلمان اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ چکے تھے اور وہ اپنے نبی کے قریب بیٹھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ان مسلمانوں کو ان کی جگہوں سے اٹھا دیا اور جو لوگ دیر سے آئے تھے ‘ ان کو ان کی جگہوں پر بٹھا دیا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ کشادہ ہوجائے تو کشادہ ہوجایا کرو۔ الایۃ (اسباب النزول للواحدی ص ٤٣٢۔ رقم الحدیث : ٩٥‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٨٤٦۔ ج ١٠ ص ٣٣٤٤۔ ٣٣٤٣‘ معالم التنزیل ج ٥ ص ٤٤‘ الدرالمنشور ج ٨ ص ٨٧)
امیر اور منتظم مجلس کو چاہیے کہ عام لوگوں کو صف اول سے اٹھا کر اصحاب فضل کو بٹھائے
ہر چند کے آداب مجلس کا یہی طریقہ ہے کہ جو شخص مجلس میں آ کر پہلے بیٹھ چکا ہو اس کو اس کی جگہ سے نہ اٹھایا جائے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد احادیث میں کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھانے سے منع فرمایا ہے لیکن مذکور الصدر حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اصحاب فضل کے لیے امیر مجلس دوسروں کو ان کی جگہوں سے اٹھا کر اپنے قریب بٹھا سکتا ہے ‘ البتہ اصحاب فضل کو ازخود دوسروں کو ان کی جگہوں سے اٹھا کر خود بیٹھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
حضرت ابو مسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگوں میں سے جو بالغ اور عقلمند ہیں ان کو میرے قریب کھڑے ہونا چاہیے ‘ پھر جو ان کے قریب ہوں ‘ پھر جو ان کے قریب ہوں۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣٢‘ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٦٧٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٨٠٧‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٧٦‘ مسند احمد ج ١ ص ٤٥٧ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں کو ان کے مراتب اور مناصب کے مطابق بٹھاؤ۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٨٤٢ )
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اور اس حامل قرآن کی تعظیم کرنا جو قرآن میں غلو نہ کرے اور اس کے احکام پر عمل کرے اور سلطان عادل کی تعظیم کرنا ‘ اللہ کی تعظیم کرنے سے ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٨٤٢ )
اصحاب فضل کا کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی ممانعت
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا کہ ایک شخص کسی کو مجلس سے اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے لیکن دوسروں کے لیے کشادگی اور وسعت کرو۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٢٧٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٧٧‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٨٠٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٥٨٤‘ مسند احمد ج ٢ ص ١٧‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٨٢٨‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٧٤٩‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٨٦)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ ہرگز نہ بیٹھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٧٨‘ سنن بیہقی ج ٣ ص ٢٣٣)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آجائے تو پھر اس جگہ کا وہی زیادہ حقدار ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٧٩‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٨٥٣‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٨٣‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٧٩٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٣٧‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٨٨)
اللہ کے کشادگی کرنے کا معنی
نیز اس آیت میں فرمایا : اللہ تمہارے لیے کشادگی فرما دے گا ‘ یعنی تمہارے لیے قبر میں کشادگی کردے گا یا تمہارے دلوں میں کشادگی فرما دے گا یا تمہارے لیے دنیا اور آخرت میں وسعت فرما دے گا۔
نیز فرمایا ہے : اور جب تم سے کہا جائے کہ کھڑے ہو جاؤ تو کھڑے ہوجایا کرو۔
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جب تم سے جہاد کے لیے کھڑے ہونے کا کہا جائے یا نماز کے لیے یا کسی بھی نیک کام کے لیے کھڑے ہونے کا کہا جائے تو کھڑے ہوجایا کرو۔
اس کے بعد فرمایا : اللہ تم میں سے کامل مومنوں کے اور علم والوں کے درجات بلند فرمائے گا۔ الایۃ
یعنی اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں عزت و کرامت اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے گا پس مومنوں کا غیر مومنوں پر اور علماء کا غیر علماء پر درجہ بلند فرمائے گا۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.