Qul Ya Ayyuhal Kafirun

Surah Al Kafiroon With Urdu Translation

ترجمہ اور تفسير سورہ كافرون

ترتيب: محمد ہاشم قاسمى بستوى

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿1﴾

تم کہہ دو کہ: اے حق کا انکار کرنے والو۔

 لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿2﴾

میں ان چیزوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔

 وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿3﴾

اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

 وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ ﴿4﴾

 اور نہ میں ( آئندہ) اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم کرتے ہو۔

 وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿5﴾

 اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

 لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿6﴾

تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔

شانِ نزول

اس سورت کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک بار چند روسا نے  جن میں ولیدبن مغیرہ، عاص بن وائل وغیرہ شامل تھے حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا کہ آیئے ہمارے معبودوں کی آپ عبادت کیا کیجئے اور آپ کے معبود کی ہم عبادت کیا کریں جس میں ہم اور آپ طریق دین میں شریک رہیں جونسا طریقہ ٹھیک ہوگا اس سے سب کو کچھ کچھ حصہ مل جائے گا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ کذا في الدر المنثور.

سورة الکافرون گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان لوگوں سے اعلان برأت ہے جن پر ہر لحاظ سے ” حق “ واضح ہوچکا تھا اور وہ اس اتمام حجت کے باوجود بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے پر ُ تلے ہوئے تھے ۔ یہ موڑ ہر رسول (علیہ السلام) کی دعوت کے سفر کے دوران آتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسے اعلان کا انداز ناصحانہ یا واعظانہ نہیں بلکہ جارحانہ ہوتا ہے۔ یہ سورة مبارکہ مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب قریش مکہ وقتاً فوقتاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے ‘ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی ایک کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہوجائے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور ان کے مابین پیدا ہوچکا تھا۔ اس پر یہ سورة مبارکہ نازل ہوئی جس نے کفار مکہ کی ساری امیدوں کو خاک میں ملا دیا اور انھیں ہمیشہ کے لیے مایوس کردیا۔

سورة كافرون كے فضائل

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورة کو چوتھائی قرآن قرار دیا ہے، (سنن الترمذي،  2894)

حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نماز فجر کی سنتوں میں پڑھنے کے لیے دو سورتیں بہتر ہیں۔ ١۔ سورة الکافرون۔ ٢۔ سورة الاخلاص، متعدد صحابہ (رض) سے منقول ہے کہ انھوں نے آنحضرت ﷺکو صبح کی سنتوں میں اور مغرب کی نماز میں انہی دو سورتوں کو پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

حضرت فروہ بن نوفل کا بیان ہے کہ میرے والد نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئے کہ جس کو میں سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔ آپ ﷺ  نے فرمایا قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ پڑھ لیا کرو اس میں شرک سے بیزاری کا اظہار ہے۔ (مظہری: ص: ٣٥٥: ج : ١٠)

حضرت زید بن حارثہ (رض) کے بھائی جبیر بن حارثہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سوتے وقت جب بستر پر لیٹ جاؤ تو اس پوری سورة کو پڑھ جاؤ: کیونکہ یہ شرک سے بےزاری کا اظہار ہے: “فإنھا براءۃ من الشرک” (الطبراني، عن حبلة بن حارثة، رقم الحديث: 2195)

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طواف کی دو رکعتوں میں اس سورة کا اور “قل هو اللہ” کا پڑھنا چابت ہے، (مسلم، عن جابر، حدیث نمبر : 1218) حضرت ابوہریرہ (رض)، نے ایک روایت میں فجر کی سنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان دونوں سورتوں کی قراءت کرنے کا ذکر کیا ہے۔ (مسلم، عن ابوہریرہ (رض)، حدیث نمبر : 726)

تشریح

اس سورة مبارکہ میں حق و باطل اور دین کی مضبوط حدود کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے حق و باطل یعنی روشنی اور اندھیرا ‘ یعنی ایک ہی وقت میں دن بھی ہو اور رات بھی ‘ یہ تو قانون قدرت کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے یہ تو کسی صورت ممکن ہی نہیں کہ سرداران قریش کی یہ تجویز مان لی جائے کہ کچھ مدت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کی پرستش کریں اور کچھ مدت وہ کفار توحید کا اقرار کر کے اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں۔ کفر و اسلام کا تو اکٹھا ہونا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے سچ اور جھوٹ ایک ہوجائیں یا روشنی اور اندھیرے کو یکجا کردیا جائے۔

اس ناممکن عمل کو یعنی شرک اور توحید کو یکجا کردینا کسی صورت بھی ممکن نہیں یہ دونوں عقیدے دونوں عمل ایک دوسرے کے انتہائی مخالف ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے پیارے رسول ان کو اچھی طرح سمجھا دو فرمایا ” کہہ دو ان سے تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے۔

دین کوئی چیز نہیں کہ جس کا لین دین کرلیا جائے یہ تو عقیدہ ہے۔ اور عقیدے کی اہمیت اور ضرورت یوں ہے کہ اس سے انسان کی بیشمار پریشانیوں ‘ تکلیفوں اور گمراہیوں کا علاج خودبخود ہوجاتا ہے۔ تفکر و تدبر کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے مگر عقیدہ سے ہٹے بغیر۔ جب ہم نے یعنی انسان نے علم و عرفان حاصل کیا تو تفکر و تدبر سے اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ علم نے یہ گتھی سلجھا دی کہ انسان کیسے پیدا ہوا۔ تو یوں ڈارون اور بیشمار مفکرین کی الٹی سیدھی الجھی ہوئی تھیوریوں سے نجات مل گئی۔ یہ تھیوری کفر کی بنیاد پر بنائی گئی لہٰذا قرآن کی خبر انسان کی پیدائش کے بارے میں بہت سی قباحتوں سے بچا لیتی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ” اللہ کا انکار کرنا اور گندگی کے کیڑے کی طرح زندگی گزارنا ‘ اس نظریہ کی جڑ بنیاد اور اس کا اصل مقصد ہے ”۔

اس لیے اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتا دیا کہ یہ نیکی ہے یہ بدی ہے۔ تم نائب اللہ ہو۔ اشرف المخلوقات ہو۔ تمہیں علم ‘ زبان ‘ عقل اور ارادہ دیا گیا ہے۔ یہ دنیا بڑی آزمائشوں ‘ ترغیبات اور طرح طرح کے اونچے نیچے راستوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس زندگی کو اگر قرآن و سنت کے قوانین ‘ اصول اور رہبری کے مطابق گزارو گے تو خوش رہوگے ‘ زندگی آسان اور خوش گوار گزرے گی۔ پھر بار بار یہ خبر یہ عقیدہ اور حکم سنایا گیا کہ یاد رکھو زندگی صرف کھیل تماشہ نہیں بلکہ پکی بات ہے کہ تم نے مرنے کے بعد قیامت کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اپنی اس زندگی کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور اجر پانا ہے۔ جس کا یہ عقیدہ مضبوط ہوگا وہ یقینا دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی آزمائشوں سے خود کو زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کرے گا تو یوں انسانی زندگی بیشمار برائیوں سے پاک صاف ہوجاتی ہے۔ تو یہ عقیدہ اللہ کی وحدانیت سے یوم الدین پر ایمان تک ایک مکمل عقیدہ کے اندر سمٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس عیسائی ‘ یہودی مجوسی ‘ بدھ اور ہندو دھرم وغیرہ وغیرہ یہ سب اس عقیدہ اسلام سے ہٹ کر ہیں۔ سب میں اللہ کو مانا جاتا ہے مگر شرک کے ساتھ تو جب بنیاد ہی کمزور اور بےمعنی ہے تو اس پر عمارت کیسے مضبوط ہوسکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کفر وشرک کو ایک مدت کے لیے مان لینا اس شرط پر کہ کفار اتنا عرصہ اللہ پر ایمان لے آئیں گے ‘ یہ کیسے عملی صورت میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اسی لیے رب العزت نے فیصلہ کن انداز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے۔ ” کہ کہہ دو تمہارا دین تمہارے لیے ہے اور میرا دین میرے لیے ہے۔

ہمارا دین ہمارا دستور حیات اور ہمارا عقیدہ وحی الٰہی سے ترتیب دیا گیا ہے۔ بھلا اس کا مقابلہ انسان کا بنایا ہوا دین کہاں اللہ خالق ومالک اور کہاں ” انسان مخلوق و مجبور ؟ اللہ کا یہ فرمان ہر وقت یاد رکھنا چاہیے۔ (القرآن) اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو رکھیں گے ‘ تو کسی شخص کی ذرہ برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی۔ (کسی کا عمل) ہوگا تو ہم اس کو حاضر کردیں گے اور ہم حساب لینے میں تنہاکافی ہیں۔ (الانبیاء : 47)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply