ترجمہ اور تفسير سورہ الم نشرح
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا
﷽
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ﴿1﴾
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ کھول نہیں دیا۔
وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ ﴿2﴾
اور آپ سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا۔
الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ ﴿3﴾
جس سے آپ کی پیٹھ کو گراں بار کررکھا تھا۔
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ﴿4﴾
اور ہم نے آپ كے ذکر کو رفعت اور بقائے دوام عطا فرمائی۔
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿5﴾
پس یہ واقعہ ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿6﴾
یقینا ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ﴿7﴾
لہذاجب آپ فارغ ہوں تو (عبادت میں) مشقت اٹھائیے۔
وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَبْ ﴿8﴾
اور اپنے پروردگار کی طرف رغبت کیجئے۔
تفسير
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے مبارک میں علوم و معارف کے سمندر اتار دیئے اور لوازم نبوت اور فرائض رسالت برداشت کرنے کیلئے بہت بڑا حوصلہ عطا فرمایا بیشمار دشمنوں کی عداوات اور مخالفوں کی مزاحمت سے نہ گھبرائیں ۔
حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی (رح) لکھتے ہیں کہ آپ کی ہمت عالی اور پیدائشی استعداد جن کمالات پر پہنچنے کا تقاضا کرتی ہے قلب اطہر کو جسمانی یا نفسانی تشویشنات کی وجہ سے ان پر فیض ہونا دشوار معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ مبارک کھول دیا اور آپکے حوصلوں کو کشادہ کردیا اور سب دشواریاں جاتی رہیں اور سب بوجھ ہلکے ہوگئے۔
شق صدر کی مختصر تفصیل
جب آپ کی عمر مبارك تقریباً دو ڈھائی سال تھی، آپ اس وقت حضرت حليمہ سعديہ كے يہاں تھے، آپ اپنے رضاعى بھائى كے ساتھ گھر كے آس پاس جنگل ميں كھيل رہے تھے، تو آپ کے رضاعی بھائی دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے: دو آدمیوں نے ہمارے قریشی بھائی کا سینہ چاک کردیا، اور اب وہ اس کو سی رہے ہیں، حلیمہ اور ان کے شوہر اس بات کو سن کر حواس باختہ ہوگئے، اور جنگل میں جا کر آپ کو دیکھا تو آپ ایک جگہ کھڑے تھے اور چہرے کا رنگ زردہو گیا تھا، انھوں نے آپ کو سینے سے چمٹا لیا اور واقعہ پوچھا، آپ نے سارا قصہ سنایا۔
یہ جبرائیل اور میکائل دو فرشتے تھے، جو سفید لباس میں انسانی شکل میں آئے تھے، انھوں نے شکم مبارک چاک کیا، قلب اطہر کو نکال لیا پھر قلب کو چاک کیا اس کے اندر سے خون کے جمے ہوئے ایک دو ٹکڑے نکالے، اور کہا کہ یہ شیطان کا حصہ ہے پھر قلب اور شکم کو برف سے دھویا، بعد ازاں قلب کو اپنی جگہ رکھ کر سینے پر ٹانکے لگادیئے۔ ( سیرت حلبیہ و ابن ہشام)
شق صدر كى حكمتيں
یہ شق صدر اس لیے تھا کہ قلب میں گناہ و معصیت کا مادہ باقی نہ رہے، یہ شق صدرکا پہلا واقعہ ہے عقبہ بن عبد سلمی (رض) ابوذر (رض) ف شداد بن ابن عباس (رض) انس بن مالک اور خالد بن معدان تابعی نے اس کو ذکر کیا ہے۔
دوسری مرتبہ شق صدردس سال کی عمر میں ہوا اس کا ذکر ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے ( صحیح ابن حبان) یہ شق صدر لہو و لعب کے مادہ کو نکالنے کیلئے تھا۔ ( فتح الباری)
تیسری مرتبہ عطا نبوت کے وقت شق صدر کا واقعہ پیش آیا جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) سے اور حضرت ابو ذر (رض) سے منقول ہے۔ ( فتح الباری و مجمع الزوائد)
یہ شق صدر اس لیے تھا کہ وحی الٰہی اور علوم ربانی کے تحمل کی استعداد پیدا ہو ۔ چوتھی مرتبہ معراج کے موقعہ پر شق صدر ہوا جس کا ذکر حدیث ابو ذر (رض) میں بخاری، مسلم، ترمذی و نسائی وغیرہ کے اندر آیا ہے، یہ اس لیے ہوا تاکہ دل میں تجلیات الٰہیہ کے مشاہدہ اور ملکوت السموات کی سیر کیلئے صلاحیت پیدا کی جائے۔
بہرحال بار بار شق صدر کے ذریعے آپ کے قلب کو طہارت اور نورانیت کی انتہاء تک پہنچانا مقصود تھا۔
فضائل خاتم الانبیاء
﴿ورفعنالک ذکرک﴾: تمام انبیاء اور فرشتوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بلند کیا اور دنیا میں تمام سمجھدار انسان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر نہایت عزت اور وقعت سے کرتے ہیں اذان و اقامت ، خطبہ ، کلمہ طیبہ اور التحیات وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد آپ کا نام لیا جاتا ہے جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا وہاں آپ کی فرمان برداری کی بھی تاکید فرمائی۔
﴿فان مع العسر یسراً﴾: اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے بشارت ہے کہ مشکلات کے دن تھوڑے ہیں، ہر مشکل کے بعد بلکہ اس کے ساتھ ہی آسانی شروع ہوجاتی ہے،﴿ان مع العسر یسراً﴾ کا یہی مطلب ہے۔
دوسری بشارت یہ ہے کہ ایک ایک مشکل کے ساتھ دو دو آسانیاں ہیں۔
ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے ان کی سند کے ساتھ حسن بصری رحمه الله کا قول نقل کیا ہے، انھوں نے فرمایا : “کانوا يقولون لا يغلب عسر واحد يسرين” وہ (صحابہ) کہا کرتے تھے کہ ایک مشکل دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی۔
ابن کثیر نے اس کی تفصیل یہ بیان كى ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دہرا کر یہ بات فرمائی ہے: ﴿فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسراً﴾اورعربی زبان کا قاعدہ ہےکہ اگر کوئی اسم دوسری دفعہ معرفہ ہو کر آئے تو اس سے مراد پہلا اسم ہی ہوتا ہے، یہاں دوسری دفعہ “العسر”معرفہ آیا ہے جب کہ “یسراً ”دوسری دفعہ بھی نکرہ ہو کر آیا ہے، تو معنی یہ ہوا کہ اسی پہلی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے۔ “ یعنی ایک مشکل کے ساتھ دو آسانیاں ہیں۔
اس قاعدے کی ایک مثال سورة مزمل میں ہے، فرمایا : ﴿انا ارسلنا الیکم رسولاً شاھداً علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولاً فعصی فرعون الرسول﴾ (الزمل : ١٥، ١٦) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو تم پر شہادت دینے والا ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا، تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی۔ “ پہلے ” رسولاً “ سے مراد ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، دوسرے سے موسیٰ (علیہ السلام) اور تیسرا ” الرسول “ معرفہ آیا ہے اور اس سے مراد وہی رسول ہے جو اس سے پہلے مذکور ہے اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔
یاد رہے کہ نکرہ کو دوبارہ نکرہ کی صورت میں لانے کا یہ قاعدہ اکثر مفسرین نے بیان کیا ہے، مگر یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ مشہور نحوی ابن ہشام نے ” مغنی اللبیب “ میں اسے خطا قرار دیا ہے، کیونکہ کئی دفعہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے ابن عاشور نے ” التحریر والتنویر “ میں اور زمخشری نے ” کشاف “ میں حسن بصری اور قتادہ کے اقوال اور بعض مرسل روایات میں آنے والی بات کہ ” لن یعلب عسر یسرین “ (ایک مشکل دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آئے گی) کے متعلق فرمایا کہ آیت سے یہ بات اس کے تکرار کی وجہ سے نکلتی ہے، اس قاعدے کی وجہ سے نہیں، پھر دونوں مفسروں نے اپنے اپنے انداز سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔
﴿فاذا فرعت فانصب﴾: آپ کے دنیا کے کام ہوں یا تبلیغ دین یا جہاد فی سبیل اللہ، اگرچہ یہ سب عبادات اور نیکیاں ہیں مگر ان میں پھر بھی مخلوق سے کچھ نہ کچھ رابطہ رہتا ہے، جب بھی ان کاموں سے کچھ فراغت ملے، تو ہر چیز سے منقطع ہو کر اپنے رب سے تعلق جوڑ کر ذکر الٰہی، تلاوت قرآن، قیام اور رکوع و سجود کی محنت کریں اور اپنی تمام رغبت اپنے رب ہی کی طرف رکھیں۔ یہ وہی بات ہے جو سورة مزمل کے شروع میں کہی گئی ہے، فرمایا : ﴿ان لک فی النھار سبحاً طویلاً ، واذکر اسم ربک وتبتل الیہ تبتیلاً﴾ (المزمل : ٨: ٨) ” یقیناً تجھے دن میں بہت لمبی مصروفیت ہے اور اپنے رب کا نام ذکر کر اور ہر طرف سے کٹ کر اسی کی طرف متوجہ ہوجا۔ “
فانصب: ” نَصِبَ یَنْصَبُ نصباً “ (باب سمع) کے مفہوم میں محنت و مشقت کے ساتھ تھکن بھی اشمل ہے، یعنی صرف راحت کے وقت ہی نہیں، طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی عبادت اور ذکر الٰہی کی مشقت جاری رکھ۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت اتنا قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا، جیسا کہ صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.