surah qiyamah with urdu translation

Surah Qiyamah With Urdu Translation, Surah Al Qiyamah Urdu

سورة القيامة  ترجمہ اور تفسير

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا

لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ ﴿1﴾

میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔

 وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ﴿2﴾

اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔

 أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ ﴿3﴾

کیا آدمی سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے؟

 بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ ﴿4﴾

کیوں نہیں ؟ جبکہ ہمیں اس پر بھی قدرت ہے کہ اس کی انگلیوں کے پور پور کو ٹھیک ٹھیک بنادیں۔ (٢)

 بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ ﴿5﴾

اصل بات یہ ہے کہ انسان چاہتا یہ ہے کہ اپنی آگے کی زندگی میں بھی ڈھٹائی سے گناہ کرتا ہے۔

 يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ ﴿6﴾

وہ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا۔

 فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ﴿7﴾

(قیامت کا دن وہ ہوگا) جب آنکھیں پتھرا جائیں گی۔

 وَخَسَفَ الْقَمَرُ ﴿8﴾

اور چاند بےنور ہوجائے گا

 وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ﴿9﴾

اور سورج اور چاند ملا کر ایک (حالت پر) کر دئیے جائیں گے (یعنی بےنور ہوجائیں گے) ۔

 يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ ﴿10﴾

اس روز انسان کہے گا کہ اب کدھر بھاگوں؟

 كَلَّا لَا وَزَرَ ﴿11﴾

ہرگز نہیں۔ کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔

 إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ ﴿12﴾

اس دن صرف آپ کے پروردگار کے پاس ہی ٹھکانا ہوگا۔

 يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ﴿13﴾

اس دن ہر انسان کو جتلا دیا جائے گا کہ اس نے کیا کچھ آگے بھیجا ہے، اور کیا کچھ پیچھے چھوڑا ہے۔

 بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴿14﴾

بلکہ انسان خود اپنے آپ سے اچھی طرح واقف ہوگا۔

 وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ ﴿15﴾

خواہ وہ کتنے ہی بہانے بنائے۔

 لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿16﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنی زبان کو (وحی نازل ہونے کے وقت) جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں

 إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿17﴾

(کہ قرآن یاد ہوجائے) بلاشبہ اس کا (آپ کا قلب پر) جمع کرا دینا اور پھر اس کو پڑھوا دینا ہماری ذمہ داری ہے۔

 فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿18﴾

پھر جب ہم اسے پڑھوا دیں تو آپ اس کی قراءت کی پیروی کیجیے۔

 ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿19﴾

پھر ہمارے اوپر ہے اس کو بیان کردینا۔

 كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ ﴿20﴾

ہرگز نہیں۔ بلکہ (اے کافرو) تم جلدی حاصل ہونے والی دنیا سے محبت رکھتے ہو۔

 وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ ﴿21﴾

اور آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو۔

 وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ﴿22﴾

(کتنے ہی) چہرے اس روز بشاش ہوں کے ،

 إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿23﴾

اور اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

 وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ ﴿24﴾

اور (کتنے ہی) چہرے اس روز بےرونق ہوں گے،

 تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ ﴿25﴾

اور سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا معاملہ کیا جائے گا۔

 كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ ﴿26﴾

ہرگز نہیں۔ جب جان گلے کی ہنسلی تک پہنچ جائے گی۔

 وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ ﴿27﴾

اس وقت کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک والا ہے؟

 وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ ﴿28﴾

اور وہ سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے رخصت ہونے کا وقت ہے

 وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿29﴾

اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی پر لپٹ جائے گی۔

 إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ ﴿30﴾

وہ دن تیرے رب کی طرف جانے کا دن ہوگا۔

 فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ﴿31﴾

پس اس نے نہ تو تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی۔

 وَلَٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿32﴾

بلکہ حق کو جھٹلایا اور منہ موڑ لیا۔

 ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ ﴿33﴾

پھر چل دیا اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا۔

 أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿34﴾

بربادی ہے تیرے لیے اور خرابی ہے تیرے لئے۔

 ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ﴿35﴾

پھر بربادی ہے تیرے لیے اور خرابی ہے تیرے لئے۔

 أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى ﴿36﴾

کیا انسان اس خیال میں ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔

 أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَىٰ ﴿37﴾

کیا وہ نطفہ (حقیر پانی کا قطرہ) نہ تھا جو رحم میں ڈالا جاتا ہے۔

 ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿38﴾

پھر وہ خون کا لوتھڑا بنا۔ پھر (اللہ نے) اس کو پیدا کیا اور اس کے اعضاء کو درست کیا۔

 فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ ﴿39﴾

پھر بنایا اس سے جوڑا، نر اور مادہ !

 أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ﴿40﴾

کیا وہ (اللہ) اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ مردوں کو (دوبارہ) زندہ کردے ؟

تشريح

سوره القیامہ کا شان نزول

مشہور یہ ہے کہ اس آیت میں انسان سے مراد معین انسان ہے، مفسرین نے بغیر سند کے یہ روایت بیان کیا ہے کہ عدی بن ربیعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہنے لگا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے بتایئے کہ قیامت کب آئے گی اور اس کا معاملہ کس طرح ہوگا ؟ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قیامت کے احوال کی خبر دی، وہ کہنے لگا : اگر میں قیامت کے دن کو دیکھ بھی لوں تب بھی آپ کی تصدیق نہیں کروں گا اور آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا، کیا اللہ تعالیٰ مردوں کی ہڈیوں کو جمع فرمائے گا ؟ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت عدی بن ربیعہ اور اخنس بن شریک کے متعلق نازل ہوئی ہے اور ان دونوں کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی تھی : اے اللہ ! ان دو برے پڑوسیوں سے تو مجھے کفایت فرما، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو جہل کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (امام ابو اسحاق ثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ : الکشف والبیان ج ١٠ ص ٨٢، امام ابو الحسن الواحدی متوفی ٤٦١ ھ اسباب النزول ص ٤٦٩، امام بغوی متوفی ٥١٢ ھ : معالم التنزیل ج ٥ ص ١٨٢، علامہ زمخشری متوفی ٥٣٨ ھ : الکشاف ج ٤ ص ٦٦٠، امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ : تفسیر کبیرج ١٠ ص ٧٢٢، علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ : الجامع الاحکام القرآن جز ١٩ ص ٨٦، علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ : روح المعانی جز ٢٩ ص ٢٣٦)

﴿لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ، وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ﴾

 انسان کے نفس کی تین قسمیں ہيں:

نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ۔

نفس امارہ کی یہ تعریف ہے کہ وہ طبیعت بدنیہ اور اس کے تقاضوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور لذات اور شہوات حسیہ کے حصول کا حکم دیتا ہے اور دل کو گھٹیا اور خسیس چیزوں کی طرف کھینچتا ہے اور یہ نفس، اخلاق مذمومہ، شرور اور خبائث کا معدن اور منبع ہوتا ہے۔

نفس لوامہ وہ ہے جو دل کے نور سے روشن ہوتا ہے اور جب انسان پر غفت طاری ہوتی ہے اور وہ اپنی جبلت ظلمانیہ کے تقاضے سے کسی برائے یا گناہ کا ارتکاب کرلیتا ہے تو اس کا وہ نفس اس کو ملامت کرتا ہے اور اس سے متنفر ہوتا ہے۔

اور نفس مطمئنہ وہ ہے جو دل کے نور سے مکمل نور ہوتا ہے اور وہ مذموم صفات سے عاری اور خالی ہوتا ہے اور اوصاف محمودہ سے متصف ہوتا ہے اور اخلاق الٰہیہ سے متخلق ہوتا ہے اور اس انسان کی جبلت ظلمانیہ اسے برائی پر نہیں اکساتی اور نیکی کے خلاف مزاحمت نہیں کرتی۔

بعض صوفیاء نے یہ کہا ہے کہ نفس لوامہ ہی نفس مطمئنہ ہے جو نفس امارہ کو امامت کرتا رہتا ہے اور بعض صوفیا نے کہا : نفس لوامہ کا نفس مطمئنہ سے اوپر درجہ ہے کیونکہ نفس مطمئنہ خود کامل ہوتا ہے اور نفس لوامہ ملامت کر کے دوسرے کی تکمیل کرتا ہے۔

(المفردات ج ٢ ص ٥٨٨، روح المعانی جز ٢٩ ص ٢٣٦۔ ٢٣٥)

﴿اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ، بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ﴾

مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر کفار کا شبہ اور اس کا جواب

کفار جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو یہ شبہ ہوتا تھا کہ جب انسان کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گی اور مٹی کے ذرات سے مختلط ہوجائیں گی، پھر عرصہ گزرنے کے بعد آندھیوں اور تیز ہواؤں سے ان کے ذرات اڑ کر دوسری ہڈیوں کے ذرات سے خلط ملط ہوجائیں گے، پھر ایک انسان کے ذرات دوسرے انسان کے ذرات سے کیسے ممیز اور ممتاز ہوں گے ، پھر ان مختلف اور مختلط ذرات کو دوبارہ کس طرح انسانی پیکر میں ڈھالا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیوں نہیں ! ہم اس پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کو ہر جوڑ اپنی جگہ پر درست کردیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ان مختلف اور مختلط ذرات کو باہم ممتاز کرنا اور انسانی پیکر میں ڈھالنا اس شخص کے لیے مشکل ہوگا جس کا علم ناقص ہو اور اس کی قدرت ناقص ہو، اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کیوں مشکل ہوگا جس کا علم بھی کامل اور محیط ہے اور اس کی قدرت بھی کامل اور محیط ہے۔

نیز اس آیت کی تفسیر اس طرح ہے کہ ہم انسان کی انگلیوں کے پوروں کو دوبارہ بنانے پر کیوں قادر نہیں ہوں گے جب کہ ہم ان کو پہلی بار بنا چکے ہیں اور دوسری بار بنانا تو پہلی بار بنانے سے زیادہ آسان ہے اور انگلیوں کی ہڈیوں کا ذکر فرما کر اس پر تنبیہ کی کہ جب ہم انسان کے جسم کی ان چھوٹی ہڈیوں کو دوبارہ بنانے پر قادر ہیں تو بڑی ہڈیوں کے بنانے پر بہ طریق اولیٰ قادر ہیں۔

﴿لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ﴾

دوران وحی قرآن مجید کو یاد کرنے کے لیے عجلت سے قرآن مجید کو دہرانے کی ممانعت

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید کی کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ جلدی جلدی اپنی زبان کو حرکت دیتے، آپ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ اس آیت کو دہراتے رہتے تھے، آپ کا ارادہ یہ ہوتا تھا کہ آپ اس آیت کو حفظ کرلیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ ( قرآن کو یاد کرنے کے لیے) اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ آپ اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے، سفیان نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دے کر دکھایا، امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کی تنزیل سے بہت مشقت اٹھاتے تھے، اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : میں اپنے ہونٹوں کو اس طرح حرکت دیتا ہوں جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرکت دیتے تھے، سعید بن جبیر نے کہا : میں نے اپنے ہونٹوں کو اس طرح حرکت دیتا ہوں جس طرح حضرت ابن عباس (رض) حرکت دیتے تھے، پھر انھوں نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دے کر دکھائی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤٨، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٥٢٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٩، مسند احمد ج ١ ص ٣٤٣ )

﴿ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه﴾

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ میں قرآن مجید کو محفوظ کرنا اور اللہ سبحانہ کے ذمہ ہے

حضرت ابن عباس نے فرمایا : یعنی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اس قرآن کو آپ کے سینہ میں جمع کریں، پس جب ہم قرآن کی کوئی آیت نازل کریں تو آپ غور سے سنیں، پھر یہ ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اس قرآن کو آپ کی زبان سے پڑھوائیں، اس کے بعد جب حضرت جبرائیل آتے تو آپ سر جھکا کر بیٹھ جاتے، پھر جب وہ چلے جاتے تو آپ قرآن مجید کی ان آیتوں کو اس طرح پڑھ لیتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٢٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤٤٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٢٩)

مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت جبرائیل دو با رہ آپ کے پاس آئیں اور آپ کے سامنے دوبارہ ان آیات کو پڑھیں اور آپ سن کر ان کو دہرائیں حتیٰ کہ آپ کو وہ آیات حفظ ہوجائیں۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہوا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم یہ آیات آپ سے اس طرح پڑھوائیں گے کہ آپ ان کو نہیں بھولیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

سنقرئک فلا تنسی۔ ( الاعلی : ٦) ہم عنقریب آپ کو پڑھائیں گے سو آپ نہیں بھولیں گے۔

﴿ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ  اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾

مؤمنین قیامت کے دن اور جنت میں اپنے رب کو دیکھنے كے بارے ميں احاديث:

حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت کے ادنیٰ شخص کا یہ مقام ہوگا کہ وہ اپنی جنتوں کی طرف اور اپنی بیویوں کی طرف اور اپنے خادموں کی طرف اور اپنی کنیزوں کی طرف، ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھ سکے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم شخص وہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طرف صبح و شام دیکھے گا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات پڑھیں : ” وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ۔ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۔ “ (القیامہ : ٢٢۔ ٢٣ ) (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٢٧۔ ٢٥٥٦، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ جنتیں چاندی کی ہیں، ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے وہ چاندی کا ہے اور دو جنتیں سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ ان میں سے وہ سونے کا ہے اور مسلمانوں اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اللہ کی کبریائی کی چادر ہوگی، جو جنت عدن میں اس کے چہرے پر ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٨٠۔ ٤٨٧٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٢٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٨٦، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١٣ ص ١٤٨، مسند حمد ج ٤ ص ٤١١)

حضرت جریر البجلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا : بیشک تم لوگ اپنے رب کو بالکل ظاہر دیکھو گے جیسا کہ تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں اپنے رب کو دیکھنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی، پس اگر تم اس کی استطاعت رکھتے ہو کہ طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے کی نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو۔ ( یعنی فجر اور عصر کی نمازوں کو دوام کے ساتھ پڑھو) تو ایسا کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٥١۔ ٥٥٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٣٣، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٢٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٥١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ١٧٧، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٧٩٩، مسند احمد ج ٤ ص ٣٦٠ )

حضرت ابو رزین (رض) بیان کرتے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ہم میں سے ہر شخص اپنے رب کو دیکھے گا؟ ( راوی عبید اللہ بن معاذ نے کہا : یعنی وہ قیامت کے دن تنہاء اپنے رب کو دیکھے گا) آپ نے فرمایا : ہاں اے ابورزین ! ، انھوں نے پوچھا : اللہ کی مخلوق میں اس کی کیا علامت ہے ؟ آپ نے فرمایا : اے ابو رزین ! کیا تم میں سے ہر شخص چاند کو نہیں دیکھتا ؟ ( ابن معاذراوی نے کہا : یعنی چودھویں رات میں کیا ہر شخص اکیلا چاند کو نہیں دیکھتا) ہم نے کہا : کیوں نہیں ! ، آپ نے فرمایا : پس اللہ سبحانہ تو سب سے زیادہ عظیم ہے (ابن معاذ نے کہا : چاند تو اللہ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے اور اللہ عزوجل تو بہت عظیم اور بہت بزرگ ہے) (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٣١، حافظ ابن حجر نے کہا : اس حدیث کی سند مقبول ہے)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس جب حجاب کھول دیا جائے گا تو سب اللہ سبحانہ کی طرف دیکھیں گے، سو اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے اپنی رویت اور اپنے دیدار سے بڑھ کر زیادہ پسندیدہ کوئی چیز ان کو عطاء نہیں کی اور نہ اس سے زیادہ ان کی آنکھیں کو ٹھنڈک پہنچانے والی کوئی چیز عطاء کی تھی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٥٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٤٤١، مسند احمد ج ٤ ص ٣٣٤)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب عزوجل تجلی فرمائے گا، حتیٰ کہ اب اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر سجدے میں گرجائیں گے، پھر اللہ سبحانہٗ فرمائے گا : اپنے سر اٹھاؤ کیونکہ یہ دن عبادت کرنے کا دن نہیں ہے۔ ( سنن دارقطنی، کتاب الرویۃ، رقم الحدیث : ٦٢)

﴿وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ  تَظُنُّ اَنْ يُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ﴾

مجاہد وغیرہ نے کہا: ”فاقرہ“ کا معنی ہے : ایسی مصیبت جو آدمی کی کمر توڑ دے، قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے : شر، سدی نے کہا : اس کا معنی ہے : ہلاکت، حضرت ابن عباس (رض) اور ابن زید نے کہا : اس سے مراد : دوزخ میں داخل ہونا اور یہ سب مقارب معانی ہیں۔

اصل میں اس کا معنی ہے : لوہا گرم کر کے اونٹ کی ناک پر ایسا گرم نشان لگانا جو اس کی ہڈی تک پہنچ جائے۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ٢٩ ص ١٠٠، دارالفکر، بیرو ت، ١٤١٥ ھ)

﴿فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى وَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى ثُمَّ ذَهَبَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ يَتَمَطّٰى اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى﴾

یہ آیات ابو جہل کے متعلق نازل ہوئی ہیں، یعنی ابو جہل نے نہ تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کی تصدیق کی اور نہ آپ کے پیغام پر عمل کرتے ہوئے نماز پڑھی،ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد سے نکلے تو وہ سامنے بنو مخزوم کے دروازے سے آ رہا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک بار یا دو بار جھٹکا دیا، پھر فرمایا : ” اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی۔ “ (القیامہ : ٣٥) پس ابو جہل نے کہا : کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو ؟ پس اللہ کی قسم ! میں اس وادی میں سب سے زیادہ معزز اور مکرم ہوں، پھر آپ کے اوپر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ( تفسیر امام عبد الرزاق رقم الحدیث : ٣٤٢٠۔ ٣٤٩ )

قتادہ نے کہا : ابو جہل اکڑ اکڑ کر جا رہا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ” اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی۔ ثُمَّ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی۔ “ (القیامہ : ٣٤۔ ٣٥) تب ابوجہل نے کہا : میرا نہ تم کچھ بگاڑ سکتے ہو، نہ تمہارا رب کچھ بگاڑ سکتا ہے، پس بیشک میں ان دو پہاڑوں کے درمیان سب سے زیادہ معزز اور مکرم ہوں، پھر جنگ بدر کے دن اس نے مسلمانوں کی طرف سر بلند کر کے دیکھا اور کہا : آج کے بعد کبھی اللہ کی عبادت نہیں کی جائے گی، پھر اللہ سبحانہٗ نے اس کی گردن ماردی اور وہ بڑی ذلت اور رسوائی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔

اس آیت میں ” اولیٰ لک “ کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ” اولیٰ “ کا معنی قریب ہے، یعنی تیرے لیے ہلاکت اور عذاب قریب ہے پھر اس کی تاکید کے لیے چار بار مکرر ذکر فرمایا اور ایک قول یہ ہے کہ یہ تکریر اس لیے ہے کہ اس عذاب کو تو اپنے پہلے برے کام کے لیے لازم سمجھ لے، پھر دوسرے برے کام کے لیے، پھر تیرے برے کام کے لیے، پھر چوتھے برے کام کے لیے، جن کا ذکر القیامہ ٣٣۔ ٣١ میں مذکور ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” اولیٰ “ کا معنی ” ویل “ ہے یعنی ہلاکت، اور چار بار ” ویل “ کے ذکر کا معنی یہ ہے : تیرے لیے زندگی میں ویل ہو اور مرتے وقت ویل ہو اور حشر کے دن ویل ہو اور دوزخ میں دخول کے دن ویل ہو۔

اور اس کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ تیرے لیے ہلاکت ہو اور عذاب ہو اور اس کی تاکید کے لیے چار بار مکرر فرمایا۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ٩٩ ص ١٠٤۔ ١٠٣، دارالفکر، بیروت، ٤١٥ ھ)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply