ترجمہ اور تفسير سورہ صف
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ مظفر پور اعظم گڑھ
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے
سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿1﴾
اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے جو چیز بھی آسمانوں میں ہے اور جو چیز بھی زمین میں ہے، اور وہی زبردست ہے حکمت والا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿2﴾
اے ایمان والو ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو،
كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿3﴾
بیشک اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم ایسے بات کہو جس کو تم کرتے نہ ہو۔
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ﴿4﴾
بیشک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿5﴾
( اور (یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم ! تم مجھے اذیت کیوں پہنچاتے ہو جب کہ تم (اچھی طرح) جانتے ہو میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ پھر جب وہ اپنے ٹیڑھے پن پر جمے رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو اور ٹیڑھا کردیا۔ اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ ﴿6﴾
اور (یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اس توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور میں ایک ایسے رسول کی خوش خبری دیتا ہوں جو میرے بعد آئیں گے ان کا نام ” احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ ہوگا پھر جب وہ کھلی نشانیوں کے ساتھ آگئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿7﴾
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑتا ہے۔ حالانکہ اس کو اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے۔ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿8﴾
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ حالانکہ اللہ تو اپنے نور (ہدایت) کو مکمل کرکے رہے گا اگرچہ وہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿9﴾
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس کو (دنیا بھر کے جھوٹے) مذہبوں پر غالب کردے۔ اگرچہ مشرکین اس کو کتنا ہی برا کیوں نہ سمجھیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿10﴾
اے ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی سوداگری بتادوں، جو تمہیں عذاب دردناک سے بچادے ؟
تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿11﴾
(وہ یہی ہے کہ) تم لوگ اللہ اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ، اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو تمہارے حق میں یہی بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿12﴾
اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا) جو ہمیشہ رہنے والے باغوں میں ہوں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے۔
وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿13﴾
اور ایک اور (ثمرہ بھی) کہ وہ تمہیں محبوب ہے (یعنی) اللہ کی طرف سے مدد اور جلد فتح یابی اور آپ ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ ﴿14﴾
اور کہہ دیجئے کہ اے ایمان والو ! تم اللہ کے (دین کے) مددگار بن جاؤ۔ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم نے اپنے حواریوں ( صحابیوں) سے کہا تھا کہ اللہ کے لیے (کاموں میں) میرا مددگار کون ہے ؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے (دین کے) مددگار ہیں۔ پھر بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ لوگوں نے انکار کردیا ۔ پھر ہم نے ان کو (عیسیٰ اب مریم (علیہ السلام) کو) ان کے دشمنوں کے مقابلے میں قوت عطا فرمائی۔ پھر وہ غالب ہو کر رہے۔
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾
آيت كا شانِ نزول
حضرت عبداللہ بن سلام (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب بیٹھے ہوئے مذاکرہ کر رہے تھے، ہم نے کہا : کاش ! ہمیں معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل بہت پسندیدہ ہے تو ہم اس پر عمل کرتے تو سورة الصف کی یہ دو آیتیں نازل ہوئیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٠٩، مسند احمد ج ٥ ص ٤٥٢ المسدترک ج ٢ ص 487)
امام رازی نے کہا : یہ آیت منفاقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو پہلے قتال اور جہاد کی تمنا کرتے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے قتال کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا :
﴿وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال﴾ (النساء : ٧٧) منافقوں نے کہا : اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر قتال کیوں فرض کردیا ؟
﴿كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾
ابن زید نے کہا : یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو کہتے تھے : اگر تم اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کے لیے نکلے اور تم نے ان سے قتال کیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور ان کے ساتھ قتال کریں گے اور جب مسلمان کفار سے مقابلہ کے لیے نکلے تو وہ پیچھے لوٹ گئے اور انھوں نے قتال نہیں کیا۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو کسی کام کی نذر مانتے ہیں اور پھر اس کو پورا نہیں کرتے یعنی وہ ایک بات کہتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ نذر کا پورا کرنا واجب ہے۔
اسی طرح انسان جب کسی شخص سے کسی چیز کو دینے کا وعدہ کرے یا اس کے لیے کسی کام کو کرنے کا وعدہ کرے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے ورنہ وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا۔
اسی طرح اس آیت کے مصداق وہ علماء اور واعظین ہیں جو لوگوں کو برائی سے روکتے ہیں اور خود برائی سے نہیں رکتے، اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :
حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، اس کی انتڑیاں دوزخ میں بکھر جائیں گی اور وہ اس طرح گردش کر رہا ہوگا جس طرح چکی کے گدھا گردش کرتا ہے، دوزخی اس کے گرد جمع ہو کر اس سے کہیں گے : اے فلاں ! کیا بات ہے ؟ تم تو ہم کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے، وہ کہے گا : میں تم کو نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود نیک کام نہیں کرتا تھا اور میں تم کو برائی سے روکتا تھا اور خود برے کام کرتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٦٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٨٩ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٨٦٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٨٢)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : معراج کی شب میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا، جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، جب بھی ان کو کاٹا جاتا وہ جڑ جاتے اور پھر ان کو کاٹا جاتا، میں نے پوچھا : اے جبرائیل چ یہ کون لوگ ہیں ؟ انھوں نے کہا، یہ آپ کی امت کے وہ واعظین ہیں جو لوگوں سے کہتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے، کتاب اللہ کو پڑھتے تھے اور عمل نہیں کرتے تھے۔ (حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص 386 مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٣٩٩٢ مجمع الزوائد ج ٧ ص 276 مسند ابویعلی کی حدیث کی سند صحیح ہے۔)
﴿وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ ۭ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ﴾
موجودہ انجیل کے متن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بشارتیں
یسوع نے ان سے کہا : کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی کون کے سرے کا پتھر ہوگیا، یہ خدا ند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے ؟۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ (متی کی انجیل، باب : ٢١ آیت 42-43 ص ٥ ہ مطبوعہ بائبل سوسائٹی لاہور 1992ء )
یہ آیت بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت ہے اور قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق ہے :
(الانعام : ٨٩) یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم شریعت اور نبوت عطا کی ہے، پس اگر ان چیزوں کے ساتھ یہ لوگ کفر کریں تو بیشک ہم نے ان چیزوں پر ایسی قوم کو مقرر فرما دیا ہے جو ان سے انکار کرنے والے نہیں ہیں۔
میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ ان سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ اور جو کچھ تم مییر نام سے چاہو گے میں وہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔ اگر میرے نام سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔ اور میں باپ سے درخاست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ (یوحن کی انجیل، باب : ٤ آیت 12-16 ص ٩٩ پاکستان بائبل سوسائٹی، لاہور 1992ء)
لیکن جب وہ مددگار آئے گا جن کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی روح حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔ (یوحن کی انجيل، باب : ١٤ آیت : ٢٦، ص ٠٠ ۃ پاکستان بائبل سوسائٹی، لاہور، ١٩٩٢ ئ)
لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا۔ گناہ کے بارے میں اس لیے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے۔ راست بازی کے بارے میں اس لیے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ عدالت کے بارے میں اس لیے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ مجھے تم سے اور بھی بہت سے باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اسی لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہ کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ (یوحنا کی انجیل، باب :16 آیت :7-14، ص 101 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 1992 ئ)
اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ سے اس کا کچھ نہیں۔
(یوحنا کی انجیل، باب : ١٤ آیت : ٣٠ ص : ٩٩ پاکستان بائبل سوسائٹی، لاہور، ١٩٩٢ ئ)
نیز ان آیات میں میں ہے : وہ میری گواہی دے گا۔ (یوحنا : باب : ١٤، آیت : ٢٦ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں لوگوں کی بہ نسبت ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں، تمام انبیاء، علاتی (باپ شریک) بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٠١٥ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٦٧٥)
ان آیات میں ہے : وہ تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔ (یوحنا باب : ١٦ : آیت : ١٣)
نیز اس آیت میں ہے : وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔ (یوحنا باب : ١٦، آیت : ١٣)
اور قرآن مجید میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہے :
(انجم : ٤۔٣) اور وہ اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے۔ ان کا فرمانا وہی ہوتا ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
نیز حضرت عیسیٰ علہی السلام نے فرمایا : وہ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ (یوحنا باب : ١٦ آیت : ١٣)
یہ پیش گوئی بھی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہے اور اس کی تائید اس حدیث میں ہے :
حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ایک مقام پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے قیامت تک ہونے والے تمام امور بیان کردیئے، جس نے ان کو یاد رکھا، اس نے یاد رکھا جس نے ان کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٠٤ صحیح مسلم رقم الحدیث : 2891-7130 سن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٢٤٠ )
اس کے بعد فرمایا : پھر جب وہ رسول واضح دلائل کے ساتھ آگئے تو (کافروں نے) کہا : یہ کھلا ہوا جادو ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں کہ جب وہ کھلے ہوئے معجزات کے ساتھ آگئے تو بنی اسرئایل نے ان کے متعلق کہا : یہ کھلا ہوا جادو ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کے مطباق سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے ائٓے اور آپ نے اپنی نبوت پر دلائل اور معجزات پیش کئے تو منکرین نے کہا، یہ کھلا ہوا جادو ہے۔
﴿يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ﴾
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چالیس دن وحی نازل نہ ہوئی تو کعب بن اشرف نے کہا، اے یہودیو ! تمہیں مبارک ہو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو وحی کا نور نازل ہوتا تھا وہ بجھ چکا ہے اور اب ان کا نور پور انھیں ہوگا، تو رسولا لہل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غم گین ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس کے بعد مسلسل وحی نازل ہونے لگی۔ (النکت و العیون ج ٥ ص 530)
اور اللہ کے نور کی تفصیل میں علامہ الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے حسب ذیل اقوال لکھے ہیں :
(١) ابن زید نے کہا : اس سے مراد قرآن مجید ہے، یہود اپنے اعتراضات سے قرآن مجید کو باطل کرنا چاہتے تھے۔
(٢) اسدی نے کہا : ایس سے مراد اسلام ہے، کفار اسلام کو مٹانا چاہتے تھے۔
(٣) اس سے مراد ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، مخالفین آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔
﴿هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ﴾
یعنی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دین اسلام کی تبلیغ کے لیے دلائل اور معجزات کے ساتھ بھیجا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے حتیٰ کہ آخر زمانہ میں اسلام کے سوا اور کوئی دین نہیں ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) ضرور نازل ہوں گے ، وہ عدل کے ساتھ حکومت کریں گے، وہ ضرور صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور ضرور خنزیر کو قتل کریں گے اور وہ ضرور جزیہ ختم کردیں گے اور ضرور اونٹنیاں کھلی چھوڑ دی جائیں گی اور ان کو کوئی نہیں پکڑے گا اور ضرور بغض، بخل اور حسد ختم ہوجائے گا اور مال لینے کے لیے لوگوں کو بلایا جائے گا اور کوئی مال کو قبول نہیں کرے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢٢٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣٣، مسند احمد ج ٢ ص ٥٣٧)
﴿فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ ۖ﴾
نصاریٰ کے تین فرقے
اس کے بعد فرمایا : پھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لے آئی اور دوسری جماعت نے کفر کیا۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : یعنی جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایمان لائے اور جن لوگوں نے ان کے زمانہ میں کفر کیا، کیونکہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تو ان کے تین فرقے ہوگئے، ایک فرقہ نے کہا : وہ خود اللہ تھے، پس اوپر چلے گئے، دوسرفرقہ نے کہا : وہ اللہ کے بیٹے تھے اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور تیسرے فرقہ نے کہا : وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، اللہ نے انھیں اپنی طرف اٹھا لیا اور وہی مسلمان تھے اور ہر فرقہ کی لوگوں نے اتباع کی اور کافر فرقوں نے متفق ہو کر مسلمانوں کو قتل کیا اور ان کو اپنے علاقے سے نکال دیا اور نصاریٰ اسی حال پر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرما دیا، پھر مسلمان کافروں پر غالب آگئے، جیسا کہ اس کے بعد فرمایا :
پس ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو مومن (کافروں پر) غالب آگئے۔
مجاہد نے کہا : مومنین سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین ہیں، ابراہیم نے کہا : جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے، جب انھوں نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی تو ان کی حجت دوسروں پر غالب آگئی کہ حضرت عیسیٰ کلمتہ اللہ و روح اللہ ہیں۔
(ماخوذ از تبيان القرآن، از مولانا غلام رسول سعيدى)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.