surah takasur tafseer in urdu

Surah Takasur Tafseer In Urdu,Surah Takasur In Urdu

ترجمہ اور تفسير سورہ تكاثر

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿1﴾

تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔

حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿2﴾

یہاں تک کہ تم قبرستانوں میں پہنچ جاتے ہو۔

كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿3﴾

ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔

ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿4﴾

پھر ﴿سن لو کہ﴾ ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔

كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ﴿5﴾

ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے ﴿اس روش کے انجام کو﴾ جانتے ہوتے ﴿تو تمہارا یہ طرز عمل نہ ہوتا﴾۔

لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ﴿6﴾

تم دوزخ دیکھ کر رہو گے،

ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ﴿7﴾

پھر ﴿سن لو کہ﴾ تم بالکل یقین کے ساتھ اسے دیکھ لوگے۔

ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴿8﴾

پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔

حلِ لغات

الہکم التکاثر: الہی ماضی واحد مذکر غائب، إلهاء باب افعال، بمعنی زیادہ ضروری چیز سے غافل رکھنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ تم کو غفلت میں کھا۔

 التکاثر: تكاثر يتكاثر، باب تفاعل، بمعنى بہتات، زیادہ طلبی، دولت و جاہ، عزت و مرتبہ، مال اور اولاد کی کثرت کے لیے باہم جھگڑنا۔

حتی زرتم المقابر: حتی انتہاء غایت کے لیے ہے۔ یہاں تک کہ ۔ زرتم: ماضی جمع مذکر حاضر زیارۃ (باب نصر)۔ تم نے دیکھا۔ تم نے جا زیارت کی۔ المقابر: مقبرۃ کی جمع  ، قبریں۔

کلا سوف تعلمون: کلا حرف ردع وزجر ہے۔ کسی امر سے باز داشت (روکنے) اور جھڑک دینے کے لیے ہے۔ یہاں تکاثر سے بازداشت کے لیے ہے مطلب یہ کہ تمہیں ایسا نہ کرنا چاہیے۔

سوف تعلمون: تم عنقریب جان لوگے ،  تعلمون کا مفعول محذوف ہے یعنی عذاب کے وقت تم جان لو گے کہ اس تکاثر کا انجام کیا ہے ؟

لترون الجحیم: جملہ جواب قسم میں ہے جس کا جملہ قسمیہ محذوف ہے۔ أي والله لترون الجحیم. خدا کی قسم تم دوزخ کو ضرور دیکھو گے۔ یعنی تم کو دوزخ ضرور دیکھنا ہوگا۔

ثم لترونھا عین الیقین:   لترونھا:  لام تاکید کا ۔ ترون مضارع تاکید بانون ثقیلہ کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ھا ضمیر مفعول واحد مونث غائب کا مرجع جحیم ہے ،   پھر (یعنی قبروں سے اٹھنے کے بعد ، قیامت کے روز) تم اس کو ضرور بالضرور دیکھ لوگے۔

 عین الیقین: مضاف مضاف الیہ۔ یقین کی آنکھ۔ یہ لترون کا مفعول مطلق ہے۔

ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم :  لتسئلن مضارع مجہول لام تاکید بانون ثقیلہ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ باب فتح،  تم ضرور پوچھے جاؤ گے۔ تم سے ضرور سوال کیا جائے گا۔

 یومئذ: یوم اسم ظرف منصوب۔ مضاف اذ مضاف الیہ۔ اس دن، ایسے واقعات کے دن۔

 النعیم: اسم معرفہ۔ مجرور، نعمت، راحت، عیش۔ مراد اللہ تعالیٰ کی جملہ نعمتیں۔

تفسير

شان نزول

مکہ مکرمہ میں دو خاندان آباد تھے ایک خاندان کا نام بنی سہم ہے اور دوسرے خاندان کا نام بنی عبد مناف تھا ان کا آپس میں اختلاف تھا ایک نے کہا ہم تعداد میں زیادہ ہیں دوسرے نے کہا ہم تعداد میں زیادہ ہیں فیصلہ کے لیے مردم شماری کی جائے مردم شماری میں بنی سہم کے لوگ کم نکلے ان کو بڑی پریشانی ہوئی کہ ہم مقابلہ میں ہار گئے پھر کہنے لگے قبروں کو بھی گنو جب قبروں کو شمار کیا گیا تو بنی سہم کی قبریں زیادہ تھی اس سورة میں فرمایا کہ تم مردم شماری میں قبروں کو بھی گنتے ہو اس مردم شماری نے تمہیں اتنا غافل رکھا۔ (مظہری : ص : ٣٣٣: ج : ١٠)

﴿التکاثر﴾ کا معنی ہے زیادتی طلب کرنا اور انسان کی عادت ہے کہ آخری عمر میں اس کو اس بات کی حرص ہوجاتی ہے کہ اس کا مال و اولاد اور نوکر چاکر زیادہ ہوجائیں اور یہی چیزیں معرفت الٰہی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے سے غافل کردیتی ہیں یہ ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو انسان کو انسانیت سے نکال کر حیوانیت کے درجے میں داخل کردیتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الھکم التکاثر پڑھ کر فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ مال کو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اور مال پر جو فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد ہوتے ہیں ان میں سے خرچ نہ کیا جائے۔ (قرطبی : ص : ١٥٧: ج : ٢٠)

﴿حتی زرتم المقابر﴾ یہاں زیارت مقابر سے مراد مر کر قبر میں پہنچنا ہے جیسا کہ حدیث مرفوع میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حتی زرتم المقابر کی تفسیر میں فرمایا حتی یاتیکم الموت (ابن کثیر بروایت ابن ابی حاتم) اس لیے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ تم لوگوں کو مال و دولت کی بہتات یا مال و اولاد اور قبیلہ و نسب پر تفاخر غفلت میں ڈالے رہتی ہے اپنے انجام اور آخرت کے حساب کی کوئی فکر نہیں کرتے یہاں تک کہ اسی حال میں تمہیں موت آجاتی ہے اور وہاں عذاب میں پکڑے جاتے ہو یہ خطاب بظاہر عام انسانوں کو ہے جو مال و اولاد کی محبت یا دوسروں پر اپنی برتری اور تفاخر میں ایسے مست رہتے ہیں کہ اپنے انجام کو سوچنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔

زیارت قبور اور قبر کو بوسہ دینا

 حضرت امام غزالی فرماتے ہیں: ولایمسح القبر ولایمسح ولا یقبله فان ذلک من عادۃ النصاری. (احیاء العلوم : ج : ٤،ص : ٤١٧)

ترجمہ: اور نہ ہاتھ لگائے قبر کو اور نہ اس کو چھوئے اور نہ اس کو بوسہ دے کیونکہ یہ نصاریٰ کی عادت ہے۔

 یہی بات حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں وبوسہ دادن قبر راوسجدہ کردن آں روا کلمہ نھادن حرام و ممنوع است و در بوسہ دادن قبر والدین روایت فقھی نقل میکند و صحیح آئست کہ لایجوز است۔ (مدارج النبوۃ فارسی : ص : ٥٤٧: ج : ٢)

 ترجمہ: اور قبر کو بوسہ دینا اور اسے سجدہ کرنا اور پیشانی رکھنا حرام اور ممنوع ہے اور والدین کی قبر کو بوسہ دینے میں فقہ روایت نقل کرتے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں۔

مولوی امجد علی رضوی بریلوی لکھتے ہيں:  قبر کو بوسہ دینا بعض علماء نے جائز کہا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ منع ہے۔ (اشعۃ اللمعات شیخ عبدالحق محدث دہلوی) اور قبر کا طواف تعظیمی منع ہے اور اگر برکت لینے کے لیے گردمزار پھرا تو حرج نہیں مگر عوام منع کئے جائیں بلکہ عوام کے سامنے کیا بھی نہ جائے کہ کچھ کا کچھ سمجھیں گے۔ (بہار شریعت : ص : ١٦٦: حصہ چہارم مطبوعہ شیخ غلام اینڈ سنز لاہور)۔

 نیز مولوی امجد علی بریلوی رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ مقدسہ کی زیارت کے متعلق لکھتے ہیں کہ خبردار ! جالی شریف کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو، یہ خلاف ادب ہے بلکہ چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ (بہار شریعت : ص : ١٧٦: حصہ ششم مطبوعہ شیخ غلام اینڈ سنز لاہور) ۔

فاضل بریلوی لکھتے ہیں: بلاشبہ غیر کعبہ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ ء قبر میں علماء کو اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصا مزارات طیبہ اولیاء کرام کے متعلق ہمارے علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ فاصلہ سے کھڑا ہو یہی ادب ہے پھر تقبیل کیونکر مقصود ہے یہ وہ ہے جس کا فتوی عوام کو دیا جاتا ہے اور تحقیق کا مقام دوسرا ہے۔ (احکام شریعت حصہ سوم : ص : ١٥٠)

 فاضل بریلوی لکھتے ہیں کہ: کسی نے عرض کیا کہ بزرگان دین کی تصاویر بطور تبرک لینا کیسا ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کعبہ معظمہ میں حضرت ابراہیم و اسماعیل حضرت مریم (علیہم السلام) کی تصاویر ہی تھی کہ یہ ناجائز فعل تھا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود دست مبارک سے اسے دھویا۔ (ملفوظات حصہ دوم : ص : ٨٧)۔۔

حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے متعلق لکھا ہے کہ: شخصے عرض داشت کہ مالیدن رخسار و سجدہ در پیش مزارات متبرکہ و طواف حوائی ایشان جائز است یا نہ افرمودند کہ ظاھر شرع مجیز ایں امور نیست وما بہ چہ طور فتویٰ دھیم وھم بعض آں شخص عرض کرد کہ شنیدم کہ از خواجہ شمس الدین سیالوی اجازتش در ملفوظ ایشاں ثابت شدہ است فرمودند کہ حضرت ایشاں پیر و مرشد معبودند ماز حال شمس سیال بہ نسبت شمار مردماں زیادہ واقف ھستیم وبایددانست کہ ھرچہ حق تعالیٰ فرمودہ است و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان فرمودہ ازبرائے ماشرع است بروئے اعتقاد محکم بایدداشت۔ (ملفوطات طیبہ : ص : ١٠٣: مطبوعہ ١٤: رمضان المبارک ١٣٥١ ھ)

ترجمہ: ایک آدمی نے عرض کیا کہ مزارات متبرکہ پر چہرہ ملنا اور ان کو سجدہ کرنا اور ان کے گرد طواف کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ظاہر شریعت ان امور کی اجازت نہیں دیتی ہم کیونکر ان کے جواز کا فتویٰ دے سکتے ہیں پھر اس شخص نے عرض کیا کہ میں نے سنا ہے خواجہ شمس الدین صاحب سیالوی کے ملفوظات میں ان کی اجازت ثابت ہے تو آپ نے فرمایا کہ حضرت سیالوی میرے پیرومرشد تھے ان کا حال بنسبت تم لوگوں کے میں زیادہ جانتا ہوں اور جاننا چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے تمہارے لیے وہی شریعت ہے اس پر مضبوط اعتقاد رکھنا چاہیے۔

 بریلوی علماء کے مقتداء حضرات کے فتاویٰ جات سے یہ بات صراحتاً معلوم ہوگئی کہ قبروں کو بوسہ دینا ناجائز ہے ان کو سجدہ کرنا اور ان کا طواف کرنا حرام ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ مقدسہ کی جالی کو بھی بوسہ نہ دے اور بزرگان دین کی تصاویر بھی بطور تبرک کے رکھنا ناجائز ہے مگر اس وقت بریلوی عوام ان تمام حدود کو پامال کر رہی ہے ان کے علماء کو چاہیے کہ اس کے سدباب کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے یہود و نصاریٰ کی عادات سے محفوظ ہوجائیں نہ کہ یہود و نصاریٰ ان پر ہنسیں۔

 حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) کا فتوی : حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں پرستش سے مراد یہ ہے کہ کسی کو سجدہ کرے یا کسی چیز کی عبادت کی نیت سے اس چیز کا طواف کرے یا بطور تقرب کے کسی کے نام کا وظیفہ کرے اس کے نام سے کوئی جانور ذبح کرے یا اپنے کو کسی کا بندہ کہے اور جو جاہل مسلمان اہل قبر کے ساتھ ایسا کوئی امر کرے مثلاً اہل قبر کا سجدہ کرے تو وہ فی الفور کافر ہوجائے گا اور اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ (فتاوی عزیزی مبوب : ص : ١٥٤)

خلاصہ کلام : سجدہ تعظیمی، بوسہ قبر اور طواف قبر کے ناجائز اور حرام ہونے میں تمام اہل حق علماء اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔ مسئلہ :۔ قبور کی زیارت علماء کے نزدیک مردوں کیلئے متفق علیہ جائز ہے البتہ عورتوں کے لیے مختلف فیہ ہے۔ (قرطبی : ص : ١٥٩: ج : ٢٠) ۔ فتاویٰ دارالعلوم میں ہے بعض فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے بشرطیکہ آہ و بکا نہ ہو لیکن احوط نہ جانا ہی ہے۔ (فتاوی دارالعلوم : ص : ٣٢: ج : ٥) ۔

 احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں عرض : حضور اجمیر شریف میں خواجہ صاحب کے مزار پر عورتوں کا جانا جائز ہے یا نہیں ؟ ارشاد غنیتہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزارات پر جانا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں سوائے روضہ انور کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں آگے لکھتے ہیں کہ اگر عزیزوں کی قبریں ہیں بےصبری کرے گی اولیاء کی مزار ہیں تو محتمل کہ بےتمیزی سے بےادبی کرے یا جہالت سے تعظیم میں افراط جیسا کہ معلوم و مشاہدہ ہے لہٰذا ان کے لیے طریقہ اسلم احتراز ہی ہے۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت مکمل حصہ دوم : ص : ١٠٦، ١٠٧) ۔

﴿كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ  كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ﴾: یعنی تمہیں یہ غلط فہمی ہے کہ متاع دنیا کی یہ کثرت، اور اس میں دوسروں سے بڑھ جانا ہی ترقی اور کامیابی ہے۔ حالانکہ یہ ہرگز ترقی اور کامیابی نہیں ہے۔ عنقریب اس کا برا انجام تمہیں معلوم ہوجائے گا اور تم جان لو گے کہ یہ کتنی بڑی غلطی تھی جس میں تم عمر بھر مبتلا رہے۔ عنقریب سے مراد آخرت بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ جس ہستی کی نگاہ ازل سے ابد تک تمام زمانوں پر حاوی ہے، اس کے لیے چند ہزار یا چند لاکھ سال بھی زمانے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ لیکن اس سے مراد موت بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ تو کسی انسان سے بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہے، اور یہ بات مرتے ہی انسان پر کھل جائے گی کہ جن مشاغل میں وہ اپنی ساری عمر کھپا کر آیا ہے وہ اس کے لیے سعادت و خوش بختی کا ذریعہ تھے یا بد انجامی و بدبختی کا ذریعہ۔

﴿ثُمَّ لَتُسْئلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ﴾: یہ سوال عدالت الہی میں حساب لینے کے وقت ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متعدد احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بندوں کو دی ہیں ان کے بارے میں جواب دہی مومن و کافر سب ہی کو کرنی ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور شکر گزار بن کر رہے وہ اس محاسبہ میں کامیاب رہیں گے، اور جن لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا حق اد نہیں کیا اور اپنے قول یا عمل سے یا دونوں سے ان کی ناشکری کی وہ اس میں ناکام ہوں گے ۔

حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کو ترو تازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر حضور نے فرمایا ” یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا ” (مسند احمد، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ، عبد بن حمید، بیہقی فی الشعب)

حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے کہا کہ چلو ابو الہیثم بن التیہان انصاری کے ہاں چلیں۔ چنانچہ ان کو لے کر آپ ابن التیہان کے نخلستان میں تشریف لے گئے۔ انھوں نے لاکر کھجوروں کا ایک خوشہ رکھ دیا۔ حضور نے فرمایا تم خود کیوں نہ کھجوریں توڑ لائے ؟ انھوں نے عرض کیا، میں چاہتا تھا کہ آپ حضرات خود چھانٹ چھانٹ کر کھجوریں تناول فرمائیں۔ چنانچہ انھوں نے کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا۔ فارغ ہونے کے بعد حضور نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تمہیں قیامت کے روز جواب دہی کرنی ہوگی، یہ ٹھنڈا سایہ، یہ ٹھنڈی کھجوریں، یہ ٹھنڈا پانی ” (اس قصے کو مختلف طریقوں سے ملسم، ابن ماجہ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن جریر اور ابو یعلی وغیرہم نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے جن میں سے بعض میں ان انصاری بزرگ کا نام لیا گیا ہے اور بعض میں صرف انصار میں سے ایک شخص کہا گیا ہے۔ اس قصے کو مختلف طریقوں سے متعدد تفصیلات کے ساتھ ابن ابی حاتم نے حضرت عمر سے، اور امام احمد نے ابو عسیب، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام سے نقل کیا ہے۔ ابن حبان اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قریب قریب اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں پیش آیا تھا) ۔

ان احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سوال صرف کفار ہی سے نہیں، مومنین صالحین سے بھی ہوگا۔ رہیں خدا کی وہ نعمتیں جو اس نے انسان کو عطا کی ہیں، تو وہ لا محدود ہیں، ان کا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا، بلکہ بہت سی نعمتیں تو ایسی ہیں کہ انسان کو ان کی خبر بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ: ﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا﴾. اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کا پورا شمار نہیں کرسکتے ” (ابراہیم، 34) ان نعمتوں میں سے بےحدو حساب نعمتیں تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے براہ راست انسان کو عطا کی ہیں، اور بکثرت نعمتیں وہ ہیں جو انسان کو اس کے اپنے کسب کے ذریعہ سے دی جاتی ہیں۔ انسان کے کسب سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے متعلق اس کو جواب دہی کرنی پڑے گی کہ اس نے ان کو کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی براہ راست عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں اسے حساب دینا ہوگا کہ ان کو اس نے کس طرح استعمال کیا۔ اور مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے متعلق اس کو بتانا پڑے گا کہ آیا اس نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر دل، زبان اور عمل سے اس کا شکر ادا کیا تھا ؟ یا یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اسے اتفاقا مل گیا ہے ؟ یا یہ خیال کیا تھا کہ بہت سے خدا ان کے عطا کرنے والے ہیں ؟ یا یہ عقیدہ رکھا تھا کہ یہ ہیں تو خدا ہی کی نعمتیں مگر ان کے عطا کرنے میں بہت سی دوسری ہستیوں کا بھی دخل ہے اور اس بنا پر انھیں معبود ٹھہرا لیا تھا اور انہی کے شکریے ادا کیے تھے؟

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply