از قلم: مفتى غفران صاحب قاسمی استاذ جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڈھ
نکاح کی اہمیت اور طلاق دینے کا بہتر طریقہ
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا
حالات سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ آجکل مسلم معاشرہ میں طلاق کے واقعات کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور طلاق دینے کا جو طریقہ شریعت میں منع ہے اسی طریقہ سے دی جا رہی ہے، یہ صورتحال تشویشناک بھی ہے اور توجہ طلب بھی، اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ تو اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسلم عوام کی طلاق کے مسائل سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے اور کچھ نہیں۔
بہت سے لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ایک ساتھ تین طلاق نہ دی جائے طلاق ہوتی ہی نہیں ہے، حالانکہ یہ خیال سراسر غلط ہے، ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو سخت ناپسند کیا گیا ہے، اور اس سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے، اسلئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں طلاق دینے کا جو بہتر طریقہ ہے اسے ذکر کیا جائے، لوگوں کو اس سے واقف کرایا جائے تاکہ اس غیر مناسب صورتحال سے نجات ملے ،نیز نکاح کی اہمیت بھی لوگوں کے دلوں میں بٹھائی جائے، اور یہ بتایا جائے کہ نکاح ایک نعمت خداوندی ہے، اس کی قدر کرنی چاہئے، اور اگر میاں بیوی کے درمیان ان بن ہو جائے ،اور اختلاف دن بدن بڑھنے لگے تو طلاق کے بجائے ان طریقوں کو اختیار کیا جائے جنکی تعلیم ہمیں قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے دی ہے، یقینا وہ طریقے ایسے ہیں کہ اگر سچے جذبے سے انکو اختیار کیا جائے تو طلاق کی نوبت ہی نہ آئیگی، اور اسی لئے وہ طریقے بتائے بھی گئے ہیں تاکہ نکاح جیسی بیش بہا دولت سے محرومی کا طریقہ اختیار نہ کرنا پڑے، مگر ناس ہو شریعت سے ناواقفیت کا کہ اس نے مسلم معاشرہ کے حسین و دلکش تانے بانے کو بکھیر کر رکھدیا ہے ، ذیل کی یہ سطور اسی جذبے سے رقم کی گئی ہیں کہ شاید کوئی بندۂ خدا انہیں پڑھکر اپنی اصلاح کرلے، ممکن ہے ان سطور کو پڑھکر کوئی نکاح ٹوٹنے سے بچ جائے، اور کسی کی بیٹی ، کسی کی بہن کی زندگی تباہ ہونے سےمحفوظ ہو جائے۔
اللہ تبارک و تعالی نے مرد و عورت کی تخلیق کچھ اس طرح فرمائی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کیلئے دوسرے میں کشش ہے، ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے، مرد عورت کے بغیر ادھورا ہے، تو عورت بھی مرد کے بغیر ناقص و نامکمل، زندگی کا سفر تبھی آسان اور خوشگوار ہوتا ہے جب مرد کی ہم سفر کوئی عورت بھی ہو ، تنہا زندگی کے سفر کو طے کرنا جس طرح ایک عورت کیلئے دشوار اور مشکل ہے اسی طرح ایک مرد کیلئے بھی آسان نہیں، آسان ہو بھی تو کیوں ہو؟ زندگی بہت سی الجھنوں اور دشواریوں سے عبارت ہے، ایک انسان زندگی کے سفر میں تھکتا بھی ہے، حالات کی ناسازگاری اسے مایوسیوں کے بھنور میں پہنسا دیتی ہے، ایسے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے ایک مخلص ہم سفر کی جو دلاسہ اور تسلی دے، دم توڑتے ہوئے حوصلوں کو نئی زندگی دے۔
اللہ تبارک و تعالی نے انسان کے اندر شہوت کا مادہ بھی رکھا ہے، اس کے بھی تقاضے ہیں، جنکی تکمیل کیلئے ایک عورت کی ضرورت ہے، پھر عورت کی زندگی مرد کے بغیر اور مرد کی زندگی عورت کے بغیر آسان کیسے ہو سکتی ہے ؟
اب ایک صورت تو وہ تھی کہ مرد و عورت کو آزاد چھوڑ دیا جاتا کہ جو جسکے ساتھ رہنا چاہے رہے، اور جب تک جی چاہے رہے، جب الگ ہونا چاہے الگ ہو جائے، جیسا کہ اہل یورپ کرتے ہیں، اور جس کے سنگین نتائج وہ بھگت رہے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ اسلام جو دین فطرت ہے، جسکا نظام خود خالق کائنات نے مرتب کیا ہے ، وہ اسکی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ اسلئے اس نے نکاح کا نظام پیش کیا ہے، جس میں ایک عورت کو بھرپور عزت بھی ملتی ہے اور مکمل تحفظ بھی، محبت بھی ملتی ہے اور شفقت و مہربانی بھی ، قرآن وحدیث میں اس نظام پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دی گئ ہے، اور نکاح کرنے پر ابھارا بھی گیا ہے، قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا:
﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ ﴾[الروم: 21]
یعنی اللہ تبارک و تعالی نے تمہاری بیویوں کو تمہارے لئے سکون کا سامان بنایا ہے، اور میاں بیوی میں محبت و شفقت کا رشتہ بھی قائم فرمایا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جو محبت میاں بیوی میں ہوتی ہے اس طرح کی محبت کہیں اور نہیں ہوتی، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ نَرَ – يُرَ – لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلُ النِّكَاحِ». (سنن ابن ماجة: 1847)، (المستدرك على الصحيحين: 2677)
اسی لئے جو لوگ سچی محبت کے جویا ہیں، اور جنہیں تلاش ہے ایک ایسے ہم سفر کی جو ان سے ٹوٹ کر محبت کرے، جسکی چاہت بے لوث ہو ، تو انہیں فضولیات سے دامن جھاڑکر نکاح کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی چاہئے، جسے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي». (سنن ابن ماجة: 1846)
سچائی یہ ہے کہ جو محبت ایک بیوی دے سکتی ہے، جس طرح دیوانہ وار ایک بیوی اپنے خاوند کو چاہتی ہے، جو وارفتگی بیوی میں ہوتی ہے، جس شیفتگی اور فریفتگی کے ساتھ بیوی شوہر کی راحت رسانی میں جٹی رہتی ہے، اس طرح کی محبت کی توقع بیوی کے علاوہ کسی اور سے وابستہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے پانی پر لکیر کھینچنا۔
جب خدا مہربان ہو جائے، اور ہم رشتۂ ازدواج سے منسلک ہو جائیں، تو پھر خدائے پاک کی اس عطا کردہ نعمت بے بہا کی دل و جان سے قدر کریں، اور ان تمام اسباب پر پورے تیقظ اور کمال ہوشیاری کے ساتھ نظر رکھیں جو میاں بیوی کے درمیان ناچاقی و نا اتفاقی کا بیج بوتے ہیں ، اور اگر خدا ناخواستہ ہماری غفلت کے نتیجے میں ایسا کچھ ہو جائے، تو قبل اس کے کہ یہ اختلاف تناور درخت کی شکل اختیار کرکے ہماری ازدواجی زندگی کو تباہ کردے، وقت رہتے ہوئے اس کے تدارک کی کوشش کریں، اور ان طریقوں کو اختیار کریں جنہیں ایسے مشکل حالات میں اختیار کرنے کی قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے۔
ان طریقوں کے بارے میں بتانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے اس حصے کو ذکر کر دیا جائے جس میں نکاح کو ٹوٹنے سے بچانے والے یہ طریقے بتائے گئے ہیں،ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا﴾ [النساء: 34- 35]
نا اتفاقی دور کرنے کا پہلا قرآنی طریقہ
قرآن پاک کے اس ٹکڑے میں اللہ بزرگ و برتر یہ ارشاد فرماتا ہے، کہ اگر شوہر کو یہ لگے کہ بیوی کے مزاج میں کجی ہے یا کجی پیدا ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ بات بات پر جھگڑنے لگی ہے، تو اسے نہایت ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے بیوی کے ساتھ بیٹھنا چاہئے، اور سمجھانا بجھانا چاہئے ، حکمت کے ساتھ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ آخر وہ بات کیا ہے جو محبت و موافقت کے گلے کا پہانس بنی ہوئی ہے ، اور معلوم ہو جانے پر اس کا جو بھی بہتر سے بہتر حل نکل سکے، اسے فورا اختیار کرنا چاہئے، اس گفتگو میں بیوی کو اپنی محبت اپنی ہمدردی کا احساس دلائیں، اور انداز گفتگو بالکل مشفقانہ اور ہمدردانہ ہو، اس سلسلے میں اگر کسی سمجھدار تجربہ کار مخلص خیر خواہ سے مشورہ بھی لیں تو بہت مفید ہوگا۔
دوسرا قرآنی طریقہ
اگر سمجھانے بجھانے سے کام نہیں چلا، اور جھگڑا جوں کا توں باقی رہا، تو پھر بیوی کی اصلاح کا دوسرا قرآنی طریقہ یہ ہے کہ بستر الگ کر لیا جائے، اور بیوی کے ساتھ نہ سویا جائے، اور اگر ایسا کر لیں کہ بستر تو ایک ہی رہے لیکن کروٹ دوسری طرف کر لیں تو بھی اس قرآنی طریقہ پر عمل ہو جائیگا، یہ طریقہ اپنانے کا فائدہ ان شاء اللہ یہ ہوگا کہ اگر بیوی کے دل میں آپکی محبت ہے، مگر کسی کونے میں سوئی پڑی ہے، تو وہ جگ جائیگی ، اور بیوی آپکی محبت میں بے قرار ہوکر اپنی روش تبدیل کر لیگی۔
تیسرا قرآنی طریقہ
اگر بستر الگ کرنا بھی کار آمد نہ ہو، تو اصلاح کی نیت سے تیسرا قرآنی طریقہ یہ اختیار کریں کہ بیوی کو ماریں، لیکن یاد رکھیں جانوروں کی طرح نہ ماریں ، جیسا کہ بہت سے بے غیرت اور بے مروت لوگ کرتے ہیں، کیونکہ حدیث میں اسے سخت ناپسند کیا گیا ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو جانوروں کی طرح پیٹے، یہ مت بھولئے کہ وہ بھی کسی کی بیٹی اور بہن ہے، جیسے آپ اپنی بیٹی اور بہن پر جان چھڑکتے ہیں، اور وہ آپکی دلاری اور لاڈلی ہیں، اسی طرح آپکی یہ بیوی بھی اپنے عزیز و اقارب کی دلاری اور لاڈلی ہے ، اور وہ بھی اس پر جان چھڑکتے ہیں ، اور اسکی بلائیں لیتے ہیں، بلکہ ایسی مار ماریں کہ نشان نہ پڑے، اور خیال رکھیں کہ چہرہ پر نہ ماریں ، اسی طرح بدن کے نازک حصوں پر نہ ماریں، مارنے کا مقصد بیوی کو اس کے نامناسب رویہ پر متوجہ کرنا ہے، اسے احساس دلانا ہے کہ اس نے اپنے خاوند کو اتنا مجبور کر دیا کہ ہاتھ چھوڑنے کی نوبت آگئی، اگر اس میں کچھ بھی سمجھ ہوگی، تو اس سے وہ ان شاء اللہ ضرور سدھر جائیگی، چنانچہ اگر وہ اپنی پرانی روش چھوڑکر محبت و یگانگت کے ساتھ رہنے سہنے لگے ، تو پرانی باتیں یکسر بھول جائیں ، اور آئندہ کیلئے خیال رکھیں کہ اس طرح کی کوئی بات پیدا ہی نہ ہو جس سے اس طرح کے اختلاف کو سر ابھارنے اور پنپنے کا راستہ مل جائے۔
چوتھا قرآنی طریقہ
اگر مار سے بھی اصلاح نہ ہو، اور نبھاؤ مشکل ہو جائے، تو پھر چوتھا قرآنی طریقہ یہ ہے کہ شوہر کی طرف سے کچھ معاملہ فہم لوگ آگے آئیں، اور بیوی کی طرف سے بھی کچھ اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والے حضرات سامنے آئیں ، اور دونوں طرف کے لوگ خلوص و محبت کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں۔
ان تمام باتوں کو جو میاں بیوی کے درمیان پیش آئے ہیں، غور سے سنیں، اور مخلصانہ کوشش کریں کہ بناؤ کی کوئی قابل عمل صورت نکل جائے، اگر پورے خلوص کے ساتھ غور و خوض کرینگے، تو اللہ تبارک و تعالی کی مدد شامل حال ہوگی، اور میاں بیوی کے درمیان موافقت کی کوئی صورت نکل آئیگی۔
اب اگر ان تمام طریقوں کو بروئےکار لایا گیا، لیکن بد قستی سے بات ایسی بگڑی ہے کہ بنائے نہیں بن رہی ہے، تو پھر مجبور ہوکر طلاق کو اختیار کیا جائیگا ، اور وہ بھی یہ سوچ کر کہ اگر ان دونوں کی آپس میں نہیں بن رہی ہے ، تو ممکن ہے کہ دوسرے نکاح کے بعد اس مرد کی دوسری عورت کے ساتھ اور عورت کی دوسرے شوہر کے ساتھ زندگی خوشگوار ہو جائے، اور طلاق کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جسکی تعلیم شریعت نے دی ہے، اور یہ طریقہ اتنا مناسب اور بہتر ہے کہ بعد میں بھی اگر میاں بیوی ساتھ میں رہنا چاہیں تو بہت آسانی سے بغیر کسی رسوائی اور شرمندگی کے جو تین طلاق دینے کے بعد اٹھانی پڑتی ہے دونوں اکٹھا ہو سکتے ہیں، اور وہ مناسب اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کو جب وہ ماہواری سے پاک ہو جائے ہمبستری کرنے سے پہلے صرف ایک طلاق دیدے ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر اس بیوی سے ابھی نہ ہمبستری ہوئی ہے، اور نہ ہی دونوں خلوت اور تنہائی میں ملے ہیں، اور طلاق دینے کے بعد دونوں کا ارادہ بدل گیا، اور ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اور ایسا بہت ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد دونوں کو ندامت ہوتی ہے، اور ساتھ رہنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے، نفرت ختم ہو جاتی ہے، اور سوئی ہوئی محبت بیدار ہو جاتی ہے، تو پھر آسانی کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں، اور اگر ہمبستری ہو چکی تھی، پھر طلاق کی نوبت آئی ہے، اور اب پھر میاں بیوی کی طرح رہنا چاہتے ہیں ، اور ابھی طلاق کے بعد عورت کو تین ماہواری نہیں آئی ہے، تو نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہے، بلا کسی تکلف کے ساتھ رہ سکتے ہیں،اور اگر اپنی رائے پر قائم رہے تو تین ماہواری کے بعد نکاح ختم ہو جائیگا۔
اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے مسلم معاشرہ میں بیداری لائی جائے، اور لوگوں کو نکاح و طلاق کے مسائل سے آگاہ کیا جائے، اگر لوگ نکاح کی اہمیت کو سمجھ گئے ، اور اس بات کو بخوبی سمجھ لیا کہ یہ بھی کسی کی بیٹی اور بہن ہے، یا عورت نے ہوش کے ناخن لئے، اور اسے اپنے خاندان کی رسوائی کا جو طلاق کے بعد ہوگی احساس ہوگیا، تو ان شاء اللہ طلاق کی نوبت ہی نہیں آئیگی، اور بادل نا خواستہ آ بھی گئی، اور طلاق دینے کا یہ مناسب طریقہ اختیار کیا گیا ، اور بعد میں ساتھ رہنے کا خیال آگیا تو بھی کوئی دشواری پیش نہیں آئیگی، اور بآسانی ساتھ رہ سکینگے، اسلئے خدارا جذبات اور غصہ میں آکر کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔
ضامن ہے عافیت کی سلامت روی کی چال
کہتا ہے کون حشر اٹھاتے ہوئے چلو
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.