دو بیویوں کے درمیان نفلی عطیات میں بھی برابری ضروری ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں درج ذیل مسئلہ میں:
ایک شخص کے پاس دو بیویاں ہیں. ایک بیوی مدرسہ میں پڑھاتی ہے جس سے اس کو تنخواہ ملتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے خرچ کرتی ہے جب کہ دوسری بیوی کماتی نہیں ہے۔
شوہر دونوں بیویوں کو نفقہ، کسوہ اور سکنی میں برابری کرتا ہے، مگر شوہر دوسری بیوی (جو کماتی نہیں اور پہلی والی کے مقابلے میں بچے بھی زیادہ ہیں) کو الگ سے کچھ رقم دینا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی زائد ضروریات وخواہشات کو پوری کر لے جیسے موبائل کا خرچہ وغیرہ۔
برائے مہربانی شریعت کے روشنی میں بتائیں کہ کیا شوہر کو واجبی نفقہ کے علاوہ دوسرے نفلی خرچ میں بھی بیویوں کے درمیان برابری کرنا از روئے شریعت واجب ہے؟ کیا واجبی نفقہ میں قیمت کے اعتبار سے برابری واجب ہے یا ضرورت کے اعتبار سے کمی زیادتی ہو سکتی ہے؟
المستفتی: مفتی محمد آصف اعظمی مقیم حال زامبیا، ممبر پاسبان علم وادب
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
حضرات حنفیہ کے نزدیک متعدد بیویوں کے مابین حقوقِ واجبہ کے ساتھ نفلی عطیات وتحائف میں بھی برابری ضروری ہے، اور اگر ان کے بچے بھی ہوں تو باپ کے ذمہ ان کا خرچہ الگ سے ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر کوئی بیوی اپنا مکمل یا کچھ حق معاف کردے تو کوئی حرج نہیں، یا بیوی نافرمان ہو تو شوہر کے ذمہ برابری ضروری نہیں۔
صورت مسئولہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی شوہر کی اجازت سے پڑھانے جاتی ہے اگر صورت حال ایسی ہی ہے تو دونوں بیویوں کے درمیان ہدایا وتحائف میں بھی برابری ضروری ہے البتہ شوہر اس بیوی کو پڑھانے سے منع کر سکتا ہے اور اگر وہ نہ مانے تو شوہر کمی زیادتی کرسکتا ہے یا اس شرط پر اجازت دیدے کہ میں دوسری بیوی کو کچھ زیادہ رقم دوں گا، اس طرح کمی زیادتی کرسکتا ہے۔
الدلائل
قال الله تعالى: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا﴾ (سورة النساء: ٣).
عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه عن النبي ﷺ قال: إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینهما جاء یوم القیامة وشقه ساقط. (سنن الترمذي، سنن أبي داؤد، سنن النسائي، سنن ابن ماجة، بحواله: مشکاة المصابیح 279).
ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه. (مشکاة المصابیح 2/ 256).
ویجب أن یعدل فیه: أي في القسم بالتسویة في البیتوتة وفي الملبوس والمأکول والصحبة لا في المجامعة کالمحبة؛ بل یستحب (الدر المختار) قال العلامة ابن عابدین رحمه اللّٰه: قوله: بل یستحب: أي ما ذکر من المجامعة، أما المحبة فهي میل القلب، وهو لا یملک. (الرد المحتار، کتاب النکاح/ باب القسم 3/ 201، 202 کراچی، البحر الرائق، کتاب النکاح/ باب القسم 3/ 379، 381 زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیة، 226/3 کراچی)
والمذهب عندنا هو التسویة بین الحقوق الواجبة والنافلة من المأکول والملبوس. (کما في الدر المختار 2/ 652، إعلاء السنن 11/ 135دار الکتب العلمیة بیروت).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 27/1/1440ه 8/10/2018م الاثنين
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.