hamare masayel

فلیٹ قسط پر خریدنا اور تعمیر مکمل ہونے سے پہلے بیچنا

(سلسلہ نمبر: 824)

فلیٹ قسط پر خریدنا اور تعمیر مکمل ہونے سے پہلے بیچنا

سوال: حضرت آج ایک مسئلہ کا علم ہوا کہ مال میں ادھار جائز نہیں ، پیسوں میں ادھار کر سکتے ہیں۔

حضرت، احقر نے بھی دو فلیٹ کا قسطوں پر معاملہ کیا۔ ایک فلیٹ کی کُل قیمت چند سالوں تک قسطوں کی شکل میں دینے کے بعد ہم کو تیار ہو کر مل چکا ہے اور اب کرائے پر ہے۔

دوسرا ابھی تیاری کی مرحلے میں ہے اور اس کی آدھی قیمت بکنگ کرواتے وقت دے دی تھی کیونکہ ایسا کرنے سے فلیٹ کی مجموعی قیمت میں رعایت مل رہی تھی۔ باقی نصف قیمت قسطوں کے شکل میں ہر مہینے جاری ہے۔ یہ فلیٹ والدین کے گھر سے قریب ہے۔ اب اس کے قیمت بھی کافی زیادہ ہو گئی ہے لیکن فروخت کر کے جو نفع ہو گا وہ کیا حرام ہو گا۔ کیونکہ بیع فاسد تھی۔

احقر ان دونوں فلیٹوں کا کیا کرے؟ کیا اس معاملے کو صحیح کرنے کی کوئی صورت ہے ؟ کیا فروخت کر دے ؟ فروخت کر کے جو رقم ملے گی ، کیا وہ حلال ہو گی؟

جو فلیٹ کرائے پر ہے، وہ کرائے کی آمدنی کیسی ہے؟

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: آپ نے جس طریقہ سے فلیٹ خریدا تھا اس طریقہ میں کوئی قباحت نہیں ہے اور بیع درست ہے اور رہی بات بیچنے کی تو آپ کا وہ فلیٹ جو تیار شدہ ہے اور آپ کے قبضہ میں بھی ہے اسکا بیچنا جائز ہے اور نفع بھی جائز ہے اور آپ کا وہ فلیٹ جو ابھی بن کر مکمل تیار نہیں ہوا مگر تھوڑا بہت تیار ہوگیا ہے اور آپ کو اسکی حدود اور جگہ معلوم ہے تو اسکی بیع بھی صحیح ہوگی اور نفع آپ کے لئے جائز ہوگا مگر یاد رہے اگر فلیٹ صرف نقشہ میں ہوگا تو اسکو فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

الدلائل

يجوز الاستصناع استحسانا لتعامل الناس ،وتعارفهم في سائر الأعصار من غير نكير. كذا في محيط السرخسي.” الفتاوى الهندية ،4 / 517).

(ومنها) أن يكون مملوكا. لأن البيع تمليك فلا ينعقد فيما ليس بمملوك. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،5/ 146).

“ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض.” (فتح القدير: کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل اشترى شيئا مما ينقل ويحول، 6/ 510 و511، ط: دار الفكر)

“لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا.” ( تبين الحقائق شرح كنز الدقائق، کتاب البیوع، باب التولیۃ، فصل بيع العقار قبل قبضه، 4/ 80، ط: المطبعة الكبرى الأميرية – بولاق، القاهرة).

بيع حصة شائعة معلومة كالثلث والنصف والعشر من عقار مملوك قبل الإفراز صحيح. (مجلة الأحكام العدلية، المادة: 214،ص43، ط: نورمحمد،کراچی).

وفیه ایضاً: للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلا.

 والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

28- 3- 1446ھ 5-10- 2024م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply