قربانی عشق الہی کا مظہر اعظم!
غفران قاسمی
سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی آزمائشوں سے بھری پڑی ہے، کبھی انکو خود انکے باپ نے پتھر مارنے کی دھمکی دی، کبھی انہیں مادر وطن چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور کبھی انکو آگ کے دھکتے ہوئے انگاروں کے حوالے کر دیا گیا، کہتے ہیں عشق و محبت حیرت انگیز کارنامے کر دکھاتی ہے اگر عشق سچا ہو تو انسان بڑی سے بڑی قربانیوں سے ہنستے ہوئے دیوانہ وار گذر جاتا ہے اور اس کے پائے استقامت میں ذرا سی لغزش بھی نہیں آتی پھر بھلا ابراہیم علیہ السلام کو یہ آزمائشیں کیا جھنجھوڑتیں!
ان کا عشق ذات وحدہ لا شریک لہ کے ساتھ تو اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا وہ کیسے ان ابتلاءات سے گھبرا جاتے اور کیوں اپنا قدم پیچھے کھینچتے اسلئے تاریخ شاہد ہے کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ان تمام آزمائشوں کے سامنے صبر و استقلال کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔ ذرا تصور کیجئے ایک انسان جس کے سب مخالف ہوں جس کا کوئی ہمدرد نہ ہو جسکو آگ کی ظالم لپٹوں کے حوالے کرنے کیلئے آگ دھکائی جا چکی ہو اسے اس آگ میں ڈالنے کی تدبیر کی جا رہی ہو، وقت کے بڑے بڑے شیطان اپنی دماغی توانائی اس مسئلہ پر غور و خوض کیلئے صرف کر رہے ہوں کہ کس طرح اس کو آگ میں پھینکا جائے آگ ایسی تپش اور خطرناک سوزش والی کہ دور ہی سے گزرنے والے کو جھلسا دے، سوچئے وہ انسان کس قدر گھبراہٹ کا شکار ہوگا، کتنا چیخےگا کس کس طرح رحم طلب نظروں سے ایک ایک کی طرف تکے گا مگر قربان جائیے ابراہیم علیہ السلام کے ایمان پر انکے اعتماد اور بھروسہ پر جو انکو خدا کی ذات پر تھا کہ وہ بالکل نہیں گھبرائے انہیں آگ میں ڈالا گیا وہ کود پڑے مگر مجال ہے کہ نمرود جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوں۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق * عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اللہ تبارک و تعالی کی رحمت بھلا کیوں نہ جوش میں آتی اور کیوں نہ اپنے عاشق صادق کی معاون مددگار ہوتی اللہ تبارک و تعالی نے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ تو ابراہیم علیہ السلام کیلئے ٹھنڈی اور سلامتی کا سامان بن جا، اللہ بزرگ و برتر کے فیصلہ کے سامنے کسی کے لیے مجال دم زدن کہاں، آگ ٹھنڈی اور گلزار ہو گئی۔
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا * آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں ایک ایسا امتحان بھی پیش آیا جس میں کامیاب ہونا ہر کسی کے بس میں نہیں بڑے بڑے جگر والوں کا پتہ بھی پانی ہو جائے اور قدم پیچھے کھینچ لینے پر مجبور کر دے، ذرا سوچئے ایک ایسا انسان جو اولاد کی آرزو دل میں لئے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہو لیکن اولاد کی فرحت بخش نعمت سے اب تک محروم ہی رہا ہو، اچانک اسے خدائے پاک کی طرف سے خوشخبری دی جائے کہ آپ کو بہت جلد ایک لڑکا ہوگا اور لڑ کا بھی ایسا جو نہایت بردبار اور سنجیدہ ہوگا تو اسکی خوشی کا عالم کیا ہوگا اس کادل چاہےگا کہ وہ مسرت سے اچھل جائے ،ہر کسی کو سناتا پھرے،خیر ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایسا ہوا، ان کو خدائے پاک کی طرف سے ایک حلیم لڑکے کی نوید سنائی گئی بہت انتظار کے بعد آخر وہ مسرت بھرا دن بھی آیا جب ابراہیم علیہ السلام کے یہاں ایک نہایت ہی خوبصورت اور پیارے سے بچے کی ولادت ہوئی جسکا نام اسمعیل رکھا گیا ( علیہ الصلوۃ والسلام)
دیکھتے ہی دیکھتے یہ بچہ چلنے پھرنے اور کھیلنے کودنے لگا، ابراہیم علیہ السلام کتنے خوش ہو رہے ہونگے اپنے اس لخت جگر کو دیکھکر کیسے کیسے ارمان دل میں جگ رہے ہونگے، کتنا اچھا لگتا ہوگا جب اسمعیل علیہ السلام انکی انگلیاں پکڑ کر چل رہے ہونگے اور کانوں میں رس گھولنے والی پیاری سی آواز سے ان سے باتیں بھی کئے جا رہے ہونگے، بہت خوش تھے باپ اور بیٹے دونوں کے دونوں، کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا حکم ہوتا ہے کہ اپنے اس لاڈلے کو میرے لئے قربان کر دو، کوئی اور ہوتا تو شاید اس صبر آزما موقع پر ہاتھ پیر ڈال دیتا اور اس خدائی حکم کی تعمیل سے کنی کٹاتا مگر جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام عشق الہی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے انکے لئے سب کچھ اللہ کی ذات ہی تھی، اللہ تبارک و تعالی کے مقابلہ میں انکی نگاہ میں کسی چیز کی کوئی وقعت نہیں تھی، وہ تیار ہو گئے اور پہر فرمانبردار بیٹے سے بھی ذکر کر دیا اور انکی رائے جاننی چاہی بیٹا بھی آخر کس کا،ابراہیم علیہ السلام کا، فورا تیار ہو گیا بلکہ یہ جان کر نہایت مسرور بھی ہوا کہ وہ خدا کے حضور قربان ہونے کی سعادت سے سر فراز ہونے والا ہےپہر کیا تھا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری چلا دی ،آسمان ساکن وصامت، زمین سہمی اور گھبرائی ہوئی۔
زمین سہمی پڑی تھی آسماں ساکن تھا بیچارہ * نہ اس سے پیشتر دیکھا تھا یہ حیرت کا نظارہ
لیکن باپ اور بیٹے اپنی قربانی میں مصروف ،ایک قربان کر رہا ہے دوسرا قربان ہو رہا ہے ،اللہ اللہ !! عشق الہی کا کتنا روح پرور اور دلفریب منظر ہے! عشق الہی کا ایسا دلکش منظر کب کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا، آزمائش پوری ہوئی ،ابراہیم علیہ السلام کو سو فی صد کامیاب ہونے کا مزدۂ جانفزا سنایا گیا اور جنت سے ایک دنبہ بھیجا گیا جو اسمعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح ہوا
خدا کا کتنا کرم ہے کہ اس نے ہم کو یہ حکم نہیں دیا کہ ہم اپنی اولاد کی قربانی کریں ورنہ شاید کوئی اس کی تعمیل کر پاتا بلکہ اس نے ہمیں جانور ذبح کرنے کا حکم دیا جو بہت ہی آسان ہے خدا ہی کا دیا ہوا مال ہے، خدا ہی کی طرف سے خرچ کرنے کا مطالبہ ہے، اس لئے اس میں ذرا بھی پس و پیش نہیں ہونا چاہئے بلکہ نہایت خوش دلی کے ساتھ قربانی کے اس عمل کو کار ثواب سمجھتے ہوئے انجام دینا چاہئے ہمیں شوق دلانے کیلئے یہ بات کیا کم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مسلسل دس سال تک قربانی کیا ایک سال بھی ناغہ نہیں کیا بلکہ ایک بار تو آپ نے سو اونٹ قربان کئے۔
آجکل کچھ روشن خیال لوگ سیدھے سادھے مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ آخر اتنے جانوروں کی قربانی سے کیا فائدہ ؟ کیوں نہ یہ رقم غریبوں کی مدد میں خرچ کی جائے تو یاد رکھیں کہ قربانی کا بدل کوئی دوسری چیز ہرگز نہیں ہو سکتی اگر ایسا ہوتا تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی تعلیم ضرور دی گئی ہوتی اور ایک امتی کیلئے صرف اتنی بات کافی ہے کہ یہ میرے نبی کا عمل ہے
اب اخیر میں قربانی کا مقصد ذکر کر دینا بہت مناسب معلوم ہوتا ہے دراصل اللہ تبارک و تعالی ہمیں قربانی کا حکم دیکر ہمیں اس بات کی تعلیم دینا چاہتا ہے کہ ہم اپنے دلوں میں یہ جذبہ راسخ کر لیں کہ کبھی بھی کسی وقت بھی اگر ضرورت پڑی تو ان شاء اللہ ہم کسی بھی طرح کی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹینگے وہ قربانی چاہے جس چیز کی بھی ہو مال کی ہو جذبات کی ہو یا پہر جان کی!!!
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.