عظیم علمی شخصیت مولانا صادق بستوی کی ملی ادبی صحافتی صداقت !
بقلم — حضرت مولانا قیام الدین القاسمی. جنرل سکریٹری:- جمعیۃ علماء ضلع بستی حبیب منزل رودھولی بستی یوپی
تمھیدی اشاریہ
ھماراملک ھندوستان شروع ہی سے علم وادب کا گہوارہ رہا ہے بطورخاص شمالی ھند کا خطہ اپنے علمی ادبی ملی سیاسی صحافتی سرگرمیوں سے ملک وملت کا نقیب و پاسبان رہا اور تحریک دیوبند و علیگڑھ کے علاوہ شیراز ھند , مرغزارعلم وادب علاقۂ اودھ سے لیکر سجاد و رحمانی اور قاضی و قاسمی مہمات سمیت امارت شرعیہ پھولواری شریف پٹنہ بہار جیسی شاداب گیتیاں اور انسے ابھرنیوالیں علمی ہستیاں انہیں زرخیزخطے سے منسلک ھیں جو ہمیشہ وطن عزیزاور حلقۂ علم ودانش کےلئے سرمایۂ افتخار رہی ہیں جسکا اعتراف وقت کے مؤرخین , علم دوست حضرات کے علاوہ ارباب اقتدار کو بھی کرنا پڑا جس کے لئے انہیں سرکاری ادبی اداروں اور اکیڈمیک کے توسط سے نشان علم وآگہی کے ساتھ انعامات واعزازات سے نوازتے رہے چنانچہ اِسی خطہ سے تعلق ایک ایسے عظیم علمی شخصیت کی ھے جنکے حیات و خدمات کی صداقت سپرد قلم ہے۔
ولادت وسکونت
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع بستی (سنت کبیر نگر) کی مردم خیز سرزمین تپہ اجیار موضع دریاباد(مجاہد آزادی مولانا رحم اللہ علیہ الرحمۃ کی انقلابی دھرتی ) کے خاموش دینی خانوادہ میں 15/اپریل/1936 کو ایک ایسے اہم عبقری ہستی نے جنم لیا کہ جسکے زائچۂ مستقبل سے بے خبر پُرسان حال احباب کو کیا معلوم ؟ کہ پیوند خاک ہونے کے باوجود وہ اپنےشاندار ماضی کے نقوش حیات کا پُر اثر اور پُرشور آوازہ بنکر آئندہ نسلوں کے لئیے مشعل راہ بنےگا ! جی ہاں یہ وہی مائہ نازسپوت ہے جسے ہم اورآپ صادق علی انصاری قاسمی دریابادی بستوی کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں مولاناکی سکونت اور وطنیت کا تعلق جہاں تک ہے آپکا آبائ وطن دریاباد ہے اور یہی جاے پیدائش بھی جسے سیاسی سماجی اور علمی ادبی گہوارہ ھونے کا فخر حاصل ہے جیسا کہ مولانا بقلم خود رقم فرماتے ہیں کہ : بارہ بنکی کے دریاباد کی طرح بستی کادریاباد بھی علم و ادب کا عظیم گہوارہ رہا اور آج بھی یہاں کتنے صاحب قلم ,ارباب فکر ونظر ,ماہر نقاد اور اردو عربی کے مصنف اور اعلی ڈگریوں کے حامل اسا تذہ اور فنکار موجود ہیں , مولانا آگے لکھتے ہیں , خوش قسمتی سے میری جاے پیدائش یہی گاؤں ہے : لیکن مولانا کئ برسوں پہلے ہی آبائ وطن سے انتقال مکانی فرماکر لہرولی بازار کے باسی ہوگئے تھے اور بر وقت آپ کے پس ماندگان بھی یہیں خانۂ آباد ہیں جبکہ مولانا مرحوم آبائ وطن کے شہر خموشاں میں پیوند خاک ہیں۔
اکتسابِ عِلم و آ گہِی
مولانا بستوی کی تعلیم وتربیت کسی باضابطہ مخصوص تعلیمی پلان اور کیریئر گائڈ لائینس کے تحت قطعا نہیں بلکہ روایتی انداز سے سادہ طرز عمل کے ساتھ جاری رہا چنانچہ علم وآگہی کی اکتساب اِسٹوری یوں ھے کہ آپکی ابتدائ تعلیمی نشونما مقامی مکتب کے چندمخلص باکمال پختہ کار اتالیق کے زیر آغوش ہوئ جبکہ آپ نےدرس نظامیہ کی ابتدائیہ کا آغاز پڑوس کے ایک قدیم دینی درسگاہ مدرسہ دینیئہ موڑا ڈیہ بیگ سے کیا جہاں بروقت مردمجاھد روشن دل شخصیت کے مالک مولانا عبد الوہاب قاسمی رح اور لذت سحر گاھی سے آشنا شخص فقیہ دوراں مفتی مرتضی حسین رح جیسے ساقیان علم وفن تشنگان علوم نبوت کو سیراب وشاداب فرمارہےتھے ۔
پھر مولانا مرحوم نے متوسطات کے لئیے مشرقی اترپردیش کے مشہور تعلیمی ادارہ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ کا تعلیمی سفر طے کیا اور وہاں کے انقلاب آفریں مجاہد آزادی مولانا کلیم اللہ نوری کےزیر نگرانی علوم مشرقیہ کی مختلف علوم وفنون عربی ادب قواعد وانشاء. حدیث. تفسیر. معانی بلاغت. عقاید. منطق وفلسفہ جیسے علوم ومعارف کے حصول کے لئیے جامعہ کے مشفق ماہرعلم وفن علماءصالحین اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا۔
اور اعلی تعلیم کے لئیے ایشیاء کی عظیم علمی مرکز دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا مولانا بستوی رح نے باذوق اور نہایت انہماک کے ساتھ وہاں کے صاحب عزیمت مرد آھن شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رح(1879ء-1957ء) , علوم عقلیہ ونقلیہ میں عدیم المثال بلند پائہ محقق شیخ المنطق والفلسفہ علامہ محمد ابراھیم بلیاوی (1304ھ-1387ھ) , اسرار و رموز کے واقف کاربارعب مشہورعالم دین مولانا محمد حسین مُلابہاری (1905ء-1992ء) سمیت دیگر چند ھُمانصیب اساتذۂ کرام کی دقیقہ سنج درسیات سے فیض یابی کی سعادت حاصل کی۔
اور وہاں کی خوشگوار فضا سے معمور ہوکر سنہ 1955ء میں دارالعلوم دیوبند کےفارغ التحصیل قابل فخر فاضل بنے آپ کا یہ تعلیمی رکارڈ رہا کہ قاعدہ بغدادی سے لیکر فراغت تک دوران تعلیم ہم درس طلبہ اور اساتذہ آپکی ذہانت اور تعلیمی انہماک کے مداح رھے بسا اوقات دارالعلوم دیوبند میں انھماک کی حد یہاں تک ھوجاتی کہ دانا پانی کا بھی خیال نہ آتا دسترخوانی احباب آپکو تلاش کرتے پھر ماحضر تناول فرماتے:
جیسا کہ رئیس القلم مولانا عبد الحفیظ رحمانی سابق محقق شیخ الہند اکیڈمی دار العلوم دیوبند مولانا مرحوم کی ذہانت اور درسی انہماک کا اپنا مشاہداتی واقعہ قلمبند کرتے ہیں کہ : : مجھے جب دوست بن کر (دوران طالب علمی دارالعلوم میں ) ساتھ رہنے کا موقع ملا تو صادق کی ذہانت کے باوصف میں ان کے شوق علم سے انتہائ متاُثر ہوا. ہمہ وقت کتاب کی گفتگو , علماءوادباء کے لطائف اور دقیقہ سنجیاں , اسی میں شب و روز گذارتے تھے , بسا اوقات یہ کتابوں میں اس درجہ منہمک ہوجاتے تھے کہ کھانا پانی کی سدھ بھی نہ رہتی تھی ساتھیوں کو تلاش کرکے کھانا کھلانا پڑتا تھا, سونااور کھانا ان کے لئیے ایک اتفاقی امر بن گیا تھا …….صادق کی یہ حالت دیکھ کر اسلاف یاد آ تے تھے جن کے اس طرح کے واقعات سے تذکرے معمور ہیں : : بہر حال مولانا مرحوم نے اکتساب علم و آگہی کے مواقع کو غنیمت سمجھا اور تعلیمی کیرئیر میں مزید نکھار پیداکرنےکے لیئے پنچاب ینورسٹی ,لکھنؤ ینورسٹی , یوپی مدرسہ الہ آباد بورڈ , جامعہ اردو علیگڑھ کے منعقدہ امتحانات میں حصہ لئیے اور نمایاں نمبرات سے پاس ہوکر ممتاز ڈگری ہولڈرس کے زمرہ میں شامل ہوگئے اسطرح آپنے مرحلہ واراپنے تعلیمی مراحل کو مکمل کیا۔
افادۂ درس ونظر
فراغت کے بعد مولانا مرحوم نے درس وتدریس کامشغلہ اپنایا جسکے لئے انہوں نے جامعہ خادم الاسلام ہاپوڑ یوپی , مدرسہ جعفریہ ھدایت العلوم کرہی سنت کبیرنگر یوپی , مدرسہ اطہر العلوم امرڈوبھاسنت کبیرنگر یوپی , مدرسہ عربیہ سراج العلوم آٹاکلاں ایس کے نگر اترپردیش جیسے اداروں میں درسی , نظری خدمات انجام دیں اسیطرح دیگر ادارے , مدارس اور وِفاق کی بحیثیت سرپرست ونگراں اورتاسیسی ممبر خدمت کرتے رہے اور نونہا لان ملت آپکی درس ونظر سے فیضیاب ہوئے۔
انفرادی شناخت کے تشکیلی عناصر
زیادہ دنوں درس وتدریس کا شُغل , ارباب مدارس کامروجہ رول اور فرسودہ نظام مولانا کو رأس نہ آسکا اسلئیے کہ مولانا مرحوم اپنی بے لچک عزم وحوصلہ , قابل رشک استعداد اور علمی سَروَری کے ناطے ھَم مزاجی, بےسبب سمع وطاعت, چشم پوشی اور روایتی بود و باش جیسے صُلحِ کُل سے سمجھوتہ کے قائل بالکل نہ تھے بلکہ حق گوئ , بے باکی , غیرتمندی, بے نیازی اور اصابت راےُ جیسی عناصرِ پرواز آپکے خمیر میں رچی بسی تھی کہ عُسرت زمانہ , خانگی مسائل , تنگدستی کے باوجود حرص و ھوس سے دُور قناعت پسندی کے ساتھ یاس وبیم کے بادلوں سے بےخوف ہوکر رفتار زمانہ سے کبھی آپ مرعوب نہ ہوےُ بس یوں ہی تصنُّع , تکلُّف سے پاک آزاد وضع قطع , غیر رسمی مولویانہ لَے اور شاھانہ کردار وگفتار جیسے تشکیلی عناصر سے ھم آھنگ اپنی پوری نشیب و فراز زندگی کو انفرادی شناخت بنایا اور یہی عناصرِ غیُّور ہر خاص وعام میں آپ کے لئیے وجہ امتیاز بنیں۔
تصنیف و صحافت
مولانا نے تدریسی دنیا سے یکسر کنارہ کشی فیصلہ لینے کے بعد تصنیف و صحافت جیسے مرغوب مشغلہ کو میدان عمل کے لئیے منتخب کیا اور اس کے لئیے آپ نے بذات خود لہرولی بازار بستی نندور لب روڈ *خالدکمال اشاعت گھر * کے نام سے ایک گھریلو اکیڈمی قائم کرلی اوراسی کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کے لئے سرگرم عمل رہے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ تصنیف و صحافت میں مولانا بستوی نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوالیا۔
گورکھپور ریڈیو اسٹیشن سے جاری اردو نشریات کے پرگرامس میں حصہ لیکر شخصیات ,ادبیات , دینیات , سیاسیات پر مقالہ جات , فیچرس اور محاضرات پیش کرنے جیسے ملی معاشرتی اور تاریخی خدمات سے سامعین کو استفادہ کا موقع فراھم کیا اسیطرح اردو ٹائمس ممبئ , قومی آواز لکھنؤ , اردو روزنامہ راپتی گورکھپور , مشرقی آواز گورکھپوراور ملک کے دیگر رسائل وجرائد کے شماروں میں بحیثیت کالمنگار اڈیٹر آپکے مضامین , ایڈوٹوریل ,بیانات اور مراسلے وغیرہ شائع ہوےاور شائقین استفادہ کرتے رہے۔
رفتہ رفتہ تصنیف وتالیف کے میدان میں ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آگئیں جو اردو ادب , عربی گرامرس ( علم نحو صرف) لاجک فلسفہ جیسے غیر مانوس اور مشکل فنون و موضوعات پر تسہیلات وشروحات سمیت اردو نظم و نثر تخلیقات پر مبنی ایسے قابل قدر ادبی اثاثہ ہیں جو باذوق نئ نسلوں کے لئیے راھنما خطوط ہیں۔
نُقوشِ حَیات کا اِجرا ء
مولانا بستوی نے 1988ء میں ایک ماھنامہ اردو رسالہ * نقوش حیات* جاری فرمایا یہ رسالہ حقیقت میں دینی سماجی سیاسی حالات حاضرہ کا ترجمان ہی نہیں بلکہ یہ ایک ملی تحریک تھی اسکے مشمولات خاصکر اداریہ اخبار وافکار اور چوپال کو قارئین حضرات بڑے ہی شوق وذوق سے پڑھتے اور آئندہ شمارہ کا شدت سے انتظاربھی کرتے مولانا کی اِس مفکرانہ مدبرانہ ادبی رول کو خوب سراھتے۔
واقعی مولانا نے رسالہ کی معیاریّت کو ہر زاوئہ سے مُزین اور جَتَن کرنے میں کوئ کسرباقی نہیں چھوڑی اسکے باوجود مقامی سطح پر خاطر خواہ پزیرائ حاصل نہ ہوئ بس تن تنہا عزم وحوصلہ کا یہ توانا انسان کبھی تھکا نہیں . چلتا رہا بلکہ راہ رو آتے گئےاور کاروں بنتا گیا کا صادق مصداق بھی نہ بنا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ وسائل کی کم یابی , حالات کی سنگدلی , عوامی بے رغبتی اور وقت کی جس بے التفاتی کا آپ کی تحریک صحافت وادارت کو اُس زمانہ میں سامنا رہا خود ایک مستقل تلخ تاریخ ہے جیسا کہ خود فاونڈر ایڈیٹر کی حیثیت سے مولانا مرحوم ” نقوش حیات ” کے شمارہ دسمبر 1993ء کے ادارتی صفحہ پر (جو اداریہ نہیں بلکہ بعنوان , میں اکیلا ھی چلا تھا, حاسدین کی حسد کا شکوہ ہے ) رقمطراز ہیں:
“مقامی سیاست نے میری معاشی اور دوسری مجبوریوں کے باعث جن سے آدمی خود کو تنہا اور کمزور محسوس کر سکتا ہے نا جائز فائدہ اٹھاناچاہا اور پرچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی, ایک دیہات سے ایک معیاری پرچے کا نکلنا بجاے اسکے کہ یہاں کے عوام وخواص کے لئیے باعث مسرت ہوتا میرے خیال میں دکھ کا باعث بن رہا ہے حاسدین کی نگاہوں میں تنکا بن کر کھٹک رہا ہے اس لئیے میں نے اِسی شمارے سے اداریہ اور چو پال کا سلسلہ مجبوراً بند کردیا , قارئین سے اس کے لئیے معافی چاہوں گا پرچہ انشاءاللہ جاری رہے گا لیکن اس کی شکل و صورت بدل جاےُ گی.۔….. “
مولانا دریابادی کی اِس شکایتی تحریر سے اب آپ اندازہ لگائیے کہ نقوش حیات کی اِجرائ زندگی میں کتنے اتار چڑھاؤ آے پھر بھی اِن حالات میں پرچے کو فوکس كرنے ليے کتابت ,کمپوزنگ ,پروف ریڈنگ, پرنٹنگ پریس اور ممبر سازی جیسے دشوار کن مراحل سے گذرنا مولانا جیسے کوہ کَن کے بَس کی بات تھی اور فقط یہی نِجی کاوش اُن کے پَرچے کےکَل پُرزے تھے بہر حال حاسدین کی حسد سے قطعِ قلم وقت کا یہ المیہ رہا کہ رسالہ کی جو قدر دانی ھونی چاھئیے تھی وہ ھم جیسے نا اھل قارئین سے بھی نہ ہوسکی حالانکہ مولانا کہا کرتے تھے کہ ہمنے فارغین فضلاء کے لئیے سنہرا موقع فراہم کیا ہے کہ نقوش حیات کے مشمولات میں حصہ لیکر اپنے اندر مضمون نگاری کا ملکہ پیدا کریں الحمد للہ بہت سے فضلاء نے استفادہ کیا لیکن راقم آثم اس سے محروم رہا اور یہ پرچہ اپنی رفتار کے ساتھ جاری رہا بالآخر مولانا کی زندگی کے آخری پڑاؤ 2015ء میں پیرانہ سالی اور عوارض جسمانیہ کی وجہ سے ماھنامہ نقوش حیات بند ھوگیا جسکی کسک بندۂ ناچیز کے دل میں ابتک باقی ہے لیکن جب مولانا مرحوم کے ھونہار فرزند ارجمند ماسٹر خالد کمال ایم اے صاحب کے زبانی معلوم ہواکہ ماھنامہ نقوش حیات کی نشأۃ ثانیہ اور اس کو جاری کرنے کا ارادہ ہے جس کا اگلا شمارہ انشاءاللّٰہ بانئ مدیر مولانا صادق بستوی نمبر ہوگا تو اِس بات سے بڑی خوشی ھوئ بدرگاہ رب العزت دعا گو ہوں کہ محترم کا ارادہ بار آور ہو۔
شعر و ادب اور تجدیدی کارنامہ
بلاشبہ مولانا جہاں ایک باصلاحیت عالم دین , انشاء پرداز نثر نگار ادیب اور باکمال صحافی تھے تو دوسری طرف وہ برجستہ قادر الکلام شاعر اسلام بھی یہ اور بات ہے کہ اُنکی شاعرانہ حیثیت تعلیمی تحقیقی ادبی اور صحافتی نگارشات کے انبار تلے دب گئ جہاں تک مولاناکی شاعرانہ اصناف اور اردو اسلوب نگارش کی صلاحیت و مقبولیت کی بات ھے تو اس میں کوئ شک نہیں اسلئیے کہ مولانا نے جناب سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات وسیرت کے حساس اورنازک موضوع پر : داعی اسلام : کے نام سے جو غیر منقوط منظوم کتاب تصنیف کی ھے بیشک وہ ایک ایسا تجدیدی کارنامہ ہے جو اردو ادب کی وسعت و جامعیت کا پتہ دیتا ھے اور فاضل نگار مصنف کی ادیبانہ و شا عرانہ شان کی جھلک کےساتھ داعئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت ومحبت کا اِنسِلاک اور محبان اردو کے خیمہ سے حیرت و استعجاب کا اشتراک بھی دکھائ دیتاھے چنانچہ غیرمنقوط منظوم : داعئ اسلام : کا یہ نسخہ جب شائع ہوا تو اردو دنیا میں ادبی انقلاب آگیا کہ ینورسٹیز کے اَدَبکَدوں میں بیٹھے بڑے بڑے اردو مھنت دنگ رہ گئے بلکہ اسکا شُہرہ حلقۂ علم و ادب کے علاوہ سماجی عوامی گلیاروں سے لیکر حکومت وقت کے ایوانوں تک جا گونجا قارئین کرام اِس کے علاوہ شاعر اسلام کی شعری مجموعہ اور منظوم کلام ہیں جو: تب و تاب : کے نام سے اشاعت پزیر ھوکر مقبول عام پوچکی ہے جو مولانا کی قیمتی ادبی سرمایہ ہے مجھے فخر ہے کہ حضرت نے 26/03/2013کو بطور ھدیہ پُر خلوص تب تاب نامی کتاب کا ایک نسخہ عنایت فرماکر ہماری شفقت افزائ فرمائ جس کے لئیے مولانامرحوم کے حق میں دعا گو ہوں بہر حال اس مجموعہ میں انہوں نے ملک وملت کے ہر طبقہ کو نہایت ہی عام فہم ادیبانہ انداز سے دعوت فکر دینے کی کامیاب کوشش کی ھے بلکہ اگر بنظر غائر پڑھاجاے۔
تو انکے یہاں ہرطرح کے صنف سخن منظوم کلام حمد ونعت , غزلیات , نظمیات , طنزیات , تھنیات , قطعات اور قصیدہ و مرثیہ نگارشات پر طبع آزمائ کے کامیاب نمونے نظر آتے ھیں جو سطحی آلودگیوں سے پاک سنجیدگی متانت سے لیس ہرحال میں عام فہم اور سہل تر اسلوب کا ترجیحی بنیاد پر خاص خیال رکھاجاتا ہے کہ جن سے رسالت و وحدانیت کی عقیدت محبت میں پختگی کے ساتھ ملت کے نونہالوں نوجوانوں اور تمام شعبۂ زندگی کے افراد کو پیغام امن اور اصلاحی مشن کو شئیر کرنے میں دیر نہ لگے نیز یہ خیال رہے کہ انھوں نے کبھی شعری صنف سُخن کو رونق اسٹیج نہیں بنایا اور نہ ہی گراں نرخ سودا کیا چنانچہ یہی مزاج مولانا کو اپنے معاصرین شعراء سے ممتاز کرتی ہے یقینا مولانا کے اس منفرد ادیبانہ رویہ نے ادو ادب کو زبردست جلا بخشی اور غیر منقوط شاعری نے ادبی حُسن کو اور دوبالا کردیا جس کی وجہ سے آپکو اردو اکیڈمی لکھنؤ اترپردیش حکومت کیطرف سے پانچ ہزار روپیہ بطور انعام اور حمد ونعت اکیڈمی نئ دھلی کیجانب سے شاعررسول حسام ابن ثابت ایوارڈ سے نوازا گیا اسی طرح علمی و ادبی تفوق کی وجہ سے آپکو سعودی وزارت حج کی دعوت پر شاھی مہمان کی حیثیت سے ادائیگئ حج کے اعزاز سے بھی سرفراز کیا گیا گویا مدرسہ کے فارغ التحصیل مولانا بستوی کی یہ ادبی شاہکار اور اعزاز اس پیغام کی ضمانت دیتی ہے کہ بلاشبہ اردو ادب کی ارتقاء میں مدارس اسلامیہ کا کلیدی رول رہا ہے بلکہ اِس کا ارتقائ رول کئ صدیوں پر محیط ھے جو ایک مستقل موضوع اور باب ہے۔
جمعیتی جذبہ اور مِلّی امنگ
دوران تعلیم مولانا دریا آبادی دار العلوم دیوبند کے قائدانہ مزاج اساتذۂ یگانہ بالخصوص قائد ملک وملت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کی تعلیم وتربیت سے متاثر ھوکر فراغت کے بعد ملی معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے چنانچہ ملی امنگ کو دیکھتے ہوے مقامی علماء کے اتفاق راے سے آپکو جمعیۃ علماء ضلع بستی اتر پردیش کا جنر ل سکریٹری بنایا گیا بقول مولانا مرحوم , جس زمانہ میں جمعیۃ کی ذمہ داری بندۂ ناتواں کے کندھوں پر رکھی گئ اسوقت آمد ورفت کے آرام دہ ذرائع بالکل نہیں تھے لیکن جس جذبہ اورلگن سے اپنے ذاتی سائیکل پر سوار ہوکر غیر منقسم ضلع بستی کے قصبات اور پکڈنڈی مینڈھی چکروڈ والے مواضعات کا بذات خود دورہ کیا اور جمعیۃ علماء ھند کا عوامی تعارف اورابتدائ ممبر سازی کے لئیے عوام وخواص کو بیدار کیا وہ میرے لئیے اپنی نوعمری کا قابل فخر حوصلہ بخش زمانہ ھے۔
مولانا کے اِس جمعیتی جذبہ کو دیکھکر جمعیۃ علماء اتر پردیش کی عاملہ نے آپکو صوبائ سکریٹری بھی منتخب کیا اکابرین ملت کی ہدایات کے مطابق اُسوقت کے حساس مسئلہ پر مولانا نہایت ہی سنجیدگی اور حکمت عملی سے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ سر گرم عمل رھتے جمعیۃ علماء ھند کی ایک اھم اور تاریخ ساز تحریک : ملک وملت بچاؤ تحریک سنہ1977ء : کے تحت مرکزی جنتا پارٹی کی حکومت میں ایک ہفتہ تہاڑ جیل میں قید وبند کی سزا بھی کاٹی چند برسوں بعد مولانا ذاتی عوارض اور مصروفیت کی وجہ سے جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ضلع بستی کے عہدہ سے مستعفی ھوگئے اسکے بعد مولانا تصنیف وتالیف اور صحافتی خدمات انجام دینے لگے پھر کبھی جمعیۃ کی طرف مائل نہ ھوے اسکے علاوہ اترپردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ ,شمالی ھند ریلوے مراعاتی بورڈ , آل انڈیا اردو اڈیٹر کانفرنس نئ دھلی کے ممبرس اور نیشنل انٹر کالج موڑاڈیہ بیگ ایس کے نگر کے منیجر عہدے پر فائز رہکر عوامی وسماجی خدمات انجام دیں۔
زیارت و تعارف
شرف ملاقات اور تعارف سے پہلے ہی بندہ آپکے رسالہ نقوش حیات سے متاثرہو کر اور علم دوست حضرات سے سن کر آپکی علمی ادبی شخصیت سے غائبانہ شناسا ہوا پہلی مرتبہ مشہور شاعر استاذ الشعراء مولانا مجیب بستوی صاحب کے ہمراہ بغرض زیارت وتعارف آپکے دولت کدہ پر جانے کا اتفاق ہوا نشست گاہ کے زاویئے سے معلوم ہوا کہ اِس درِ دولت پہ سماج کے ہر طبقہ کے لوگوں کا ورود ہوتا رہتا ہے. سلام کلام ھوا مولانا نے رسمی مہمان نوازی کے ساتھ پُر زور خیر مقدم کیا مولانا مجیب صاحب نے بحسب عادت جب میرا تعارف کرایا تومولانا دریابادی نے تبسم ریز لہجہ میں کہا کہ ماشاء اللہ آپ ہی مولانا قیام الدین ہیں اخبارات میں آپکے بیان مراسلے اور مضامین وغیرہ پڑھتے رہتے ہہں انھوں نے اپنے دعائیہ اور تشجیعی کلمات سے نوازا۔
مولانا موصوف کی خورد نوازی اور شفقتی انداز کا جو حوصلہ افزا ء برتاؤ تھا وہ میرے مَن کی نہاں خانوں میں آج بھی پیوست ہے مولانا سے دیدو شنید کا یہ وقفہ زیادہ دیر نہ رہا اور کم وقت میں گذرے لمحات کے آئینہ سے تحریکات , شخصیات اور آپ بیتی پرانھوں نے جو تذکرہ وتبصرہ فرمایا اور تکلم وتخاطب کے وقت لبوں سے جو الفاظ ومعانی نکا لے وہ آج بھی خانۂ خیال میں مرتسم ہیں جن سے ہمارے تاریخی علم میں اضافہ ہوا۔
اِدھر تقریبا دوسال قبل آخری مرتبہ مولانا کے دولت کدہ پر حاضری کا شرف حاصل ہوا اور وجہِ حاضری تھی ” مولانا عبد الحفیظ رحمانی رحمہ اللہ کی ملی سرگرمیوں کے بابت مواد ومعلومات اکٹھا کرنا ” آپ کے علمی ساکھ کا احترام واکرام رکھتے ہوے علیک سلیک کیا اور آپ کے زیر ضیافت مجلسِ گفتنی کا آغاز ہوا احقر نے حضرت مولانا کے رُوبَرو مرحوم رحمانی کو موضوع سُخن بناکر استفہامیہ گفت و شنید کا سماں باندھا اُس وقت مولانا نے سوانح نگاری کے اھم ضابطہ کی نشاندہی کرتے ہوے فرمایا کہ سوانح نگار کی حیثیت ایک مؤرخ کی ہوتی ہے جو تاریخ کے نشیب وفراز کا امین اور نقیب تصور کیا جاتا ہے اس لئیے کسی شخصیت پر قلم اٹھانے سے پہلے عقیدت نہیں بلکہ حقیقت اور واقعیت پر نگاہ رکھنی چاہئیے مولانا نے دُکھڑا سناتے ہوے کہا کہ آج کل کُچھ شائقینِ قلم اپنے قرطاس کو حقیقت کے بجاے عقیدت کے قالب میں ڈھال کر سَستِی شُہرت حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے. بہرحال مولانا کا بروقت وہ اصولی عندیہ گرچہ قابل تسلیم تھا لیکن جس انداز سے مولانا رحمانی کی مِلّی خدمات سے حضرت نابلد نظر آے وہ میری ناقص راے میں کسی عبقری شخصیت سے چشم پوشی کرنیکی اجتہادی غلطی تھی. مولانا نےضلعی جمعیۃ کے با ل و پر سے لیکر مستعفی ہونے تک اپنی مختصر کار گذاری سنائ اور گفتگو کا یہ دورانیہ سوال وجواب اثبات و نفی کے ساتھ اختتام پزیر ہوا۔
مجلس کی نشست و برخاست سے مجھے اندازہ ہوا کہ مولانا بستوی صاحب اپنی نوعمری میں جمعیۃ علماء ھند کے ایک جانباز فعال عہدہ دار تھے جس کے لئیے انھوں نے اپنی جوانی کی کِریم ٹائم کوجمعیتی مومنٹ کے لئیے شِیئَر کیا تھا بحمداللہ ہمکلامی سے مشرف ہوکر بہت سی معلومات سے آگاہی ہوئ لیکن عاجز آثم کو وجہِ حاضری کے تناظر میں بے نیل و مرام واپس آنا پڑا حالانکہ دیگر ذرائع سے حوالہ جات کی روشنی میں مولانا بستوی ہی کے ضابطہ کو سامنے رکھتے ہوے مرحوم رحمانی کی ملی خدمات کو قلمبند کرنیکی سعادت نصیب ہوئ. اس کے بعد کئ مرتبہ مختلف تقریبات اور پرگراموں میں مولانا مرحوم سے مصافحہ اور مزاج پرسی کا اتفاق ہوا۔
وفات و تعزیت
پیرانہ سالی کے سبب کچھ عرصہ سے مولانا کی طبیعت ناساز رہا کرتی تھی باقاعدہ بنہواں خلیل آباد میں علاج جاری تھا عمومی طور پر صحت زیادہ خراب نہیں تھی البتہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب کھانسی زیادہ آرہی تھی اور سنیچر کی صبح انھوں نے سانس پھولنے کی شکایت کی صاحبزادۂ محترم انھیں بغرض علاج بنہواں ڈاکٹر کے پاس لے گئے معائنہ کے بعد علاج شروع ھوا کہ بالآخر 45/منٹ بعد 15/دسمبر/سنہ2018 بروز سنیچر بوقت صبح 9/بجکر 45 منٹ پر قرطاس و قلم کی امانت کا حامل یہ انوکھا انسان دارِ آخرت کو سُدھار گیا (اناللہ وانا الیہ راجعون ) انتقال کی خبر پھیلتے ہی آبائ وطن , اہل خانہ اور اعزہ اقارب کے ساتھ ساتھ دینی ,علمی , ادبی , سماجی اور سیاسی حلقوں میں سوگ کی لہر دوڑ گئ تجہیز وتکفین کے بعد جسد خاکی آبائ وطن دریاباد لائ گئ جہاں بعد نماز عصر مولانا بلا ل احمد قاسمی کی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھکر ہزاروں سوگواروں نے نمناک آنکھوں سے مولانا مرحوم کو سُپر دِخاک کیا بوقت جنازہ گورکھپور , مہراج گنج , گونڈہ , بستی اور بلرام پور کے علاوہ دیگر مقامات سے آنیوالے شرکاء جنازہ کا جو جَن سَیلاب نظر آرہاتھا گویا اُن کی عبقری شخصیت کو فالو کرنیکی سچی شہادت کامنظر نامہ تھا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کسی کی اھمیت اور وقعت کا اندازہ اس کے سانحۂ ارتحال کے بعد ہی ھوتا ہے. ارباب مدارس اور ضلع جمعیۃ علماء بستی نے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوے مدارس میں تعزیتی تعطیل کا اعلان کیا اورمولانا مرحوم کے حق میں ایصال ثواب , دعاء مغفرت کی پس ماندگان کو صبر جمیل کی تلقین اور تعزیتی پیغام پیش کیا۔
خراج عقیدت
دعا ہے کہ اللہ رب العزت اُ نھیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرماے آمین یا رب العالمین . مولانا اب اِس دنیا میں نہیں رہے اور اِس فانی دنیامیں ہمیشہ کون رہتا ھے ؟لیکن یہ اُن کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ دارِ آخرت سُدھار لینے کے بعد بھی اپنی قابل رشک صلاحیت , انفرای شناخت اور تصنیف وصحافت کے نرالے کام کے ناطے تادیر زندہ رہیں گے مرنے کے بعد وہی زندہ رہتے ہیں جو زندگی میں مرنے کے بعد زندہ رہنے کا سامان کرجاتے ہیں اور نئ نسلوں کے دلوں میں اپنے نقوشِ حیات کے بامقصد اور بامراد الفاظ و معانی ثبت کر جاتے ہیں . راقمِ دعا گو یہی سمجھتا ہے کہ مولانا صادق بستوی رحمہ اللہ کی اِنھیں نرالے کارناموں کو قابل تحسین و عمل سمجھنا مرحوم کے حق میں سچی خراج عقیدت ہے ……….
یاد رکھے گا تمہیں بھی یہ زمانہ اختر
شرط لیکن یہ ہے کچھ کام نرالے تو کرو
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.