(سلسلہ نمبر: 379)
نماز میں سبحانک اللہم سے پہلے “ثنا” کہنا
سوال: اگر کوئی شخص نماز میں “سبحانک اللہم” سے پہلے کہتا ہے “ثنا” پھر پڑھتا ہے سبحانک اللہم الخ بظاہر اس سے نماز فاسد ہو جانی چاہئیے، کیونکہ یہ لفظ کلام الناس کے قبیل سے ہے، کہتے ہیں: “الحمد ھو الثناء باللسان” دوسرے یہ کہ ثنا عنوان ہے، جیسے سورۃ الفاتحہ مکیة عنوان ہے، جس کا مقصد اعلام، اخبار ہوتا ہے، ثنا بولنے والا خبر دیتا ہے کہ میں سبحانک پڑھنے جارہا ہوں، تبیین الحقائق میں ہے: ألا تری أن من قال: قرات الفاتحة ونحو ذلک من کلام الناس تبطل صلاته وان لم یکن خطابا لآدمی (1/ 132)، تیسرے یہ کہ عموماً مکاتب ومدارس میں ان عناوین کے یاد کرانے کا معمول ہے، اس وجہ سے ان عناوین کا بولنا ان کی عادت میں داخل ہوجاتا ہے، فتوی کی کتابوں میں لکھا ہے: وإن جری علی لسانه نعم، فان کان له عادۃ یجری علی لسانه کثیرا في غیر الصلاۃ تفسد لأنه من کلامه. (حلبی کبیری: 390)، اس وجہ سے بھی نماز فاسد ہو جانی چاہئے، آں محترم کی کیا رائے ہے؟ بینوا توجروا.
المستفتی: مولانا خورشید انور صاحب فیض ابادی۔ استاذ حدیث وفقہ مدرسہ شاہی مرادآباد، یوپی.
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
چھوٹے بچوں کو مکاتب میں دعاؤں کے ساتھ اس کا عنوان بھی یاد کرایا جاتا ہے تاکہ آسانی کے ساتھ محفوظ رکھ سکیں، لیکن بڑے ہونے پر بعض لوگ عادت اور کم علمی کی وجہ سے نماز میں عنوان بھی پڑھتے ہیں، اور عنوان چونکہ ثنا کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی قرآن کا؛ اس لئے سبحانک اللہم سے پہلے ثنا کہنے کی وجہ سے نماز فاسد ہوجانی چاہئے۔
نوٹ: چونکہ ثنا کو “أثني یا نثني” کا مفعول مطلق بنانا -اگرچہ دور کی تاویل ہی سہی- ممکن ہے، اس لیے اس تاویل کا سہارا لے کر المشقة تجلب التیسیر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کی نماز پر صحت کا حکم لگانا چاہئیے جو ایک زمانے سے اسی طرح پڑھتے رہے ہیں، البتہ آئندہ مسئلہ سے واقفیت کے بعد ایسا کرنے پر فساد صلاۃ ہی کا حکم لگایا جائے گا۔
الدلائل
عن عائشة قالت: كان رسول الله ﷺ إذا استفتح الصلاة قال: “سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك”. (سنن أبي داود: الصَّلَاة/ أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ / بَابُ مَنْ رَأَى الِاسْتِفْتَاحَ بِـ “سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ”، الرقم: 776).
ومن تكلم في صلاته عامدا أو ساهيا بطلت صلاته، خلافا للشافعي رحمه الله في الخطأ والنسيان ومفزعة الحديث المعروف.
ولنا قوله عليه الصلاة والسلام “إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس وإنما هي التسبيح والتهليل وقراءة القرآن”. (الهداية: 1/ 62).
إذا قرأ الرجل في صلاته شيئا من التوراة أو الإنجيل أو الزبور لم تجز صلاته، سواء كان يحسن القرآن أو لا يحسن، علل فقال: لأن هذا كلام وليس بقرآن ولا تسبيح، والذكر الذي يجري في الصلاة إما قرآن أو تسبيح وما يجري مجراه، قال عليه السلام: «إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس إنما هو التسبيح والتهليل وقراءة القرآن». (المحيط البرهاني: 1/ 308).
وأن الصلاة يمنع فيها عن غير القراءة والذكر قطعا، وما كان قصة ولم تثبت قرآنيته لم يكن قراءة ولا ذكرا فيفسد. (رد المحتار: 1/ 485).
(ولو جرى على لسانه نعم) أو آري (إن كان يعتادها في كلامه تفسد) لأنه من كلامه (وإلا لا) لأنه قرآن. (الدر المختار).
(قوله أو آري) كلمة فارسية كما في شرح المنية، وهي بمد الهمزة وكسر الراء: بمعنى نعم كما تقدم (قوله لأنه من كلامه) بدليل الاعتياد (قوله لأنه قرآن) هذا ظاهر في نعم، وكذا في آري على رواية أن القرآن اسم للمعنى؛ أما على رواية أنه اسم للنظم والمعنى فلا. (رد المحتار: 1/ 623).
وحمل أمورالمسلمين على الصلاح والسداد واجب ما أمكن. (بدائع الصنائع: 3/ 212، رد المحتار: 2/ 141).
ومن القواعد الفقهية قاعدة: “المشقة تجلب التيسير”.
وقاعدة : “إذا ضاق الأمر اتسع”. وقاعدة: الضرر يزال،
وقاعدة: “الضرورات تقدر بقدرها”. انظر: (الأشباه والنظائر).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
5- 11- 1441ھ 27- 6- 2020م السبت.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.