(سلسلہ نمبر: 418)
کیا نابالغ پر بھی قربانی واجب ہے
سوال: کیا نابالغ لڑکے کی قربانی اس کے والد کے ذمہ واجب ہے، جیسا ہدایہ کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے: “الأضحية واجبة على كل حر مسلم مقيم موسر في يوم الأضحى عن نفسه وعن ولده الصغار”. برائے کرم اس مسئلہ کا تشفی بخش جواب مرحمت فرمائیں۔
المستفتی: مولانا صفی الرحمن، بنارس۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
اگر نابالغ لڑکا صاحب نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے وجوب اور عدم وجوب دونوں طرح کا قول منقول ہے، لیکن راجح اور مفتی بہ عدم وجوب ہے، اور یہی قول قواعد کے مطابق ہے کیونکہ شریعت میں کوئی عبادت نابالغ پر فرض نہیں ہے۔
یعنی گرچہ لڑکا صاحب نصاب ہو اس کی طرف سے والد کے ذمہ قربانی واجب نہیں ہے، البتہ اگر کوئی باپ اپنے مال سے بچے کی طرف سے نفلی قربانی کرنا چاہے تو ثواب کا مستحق ہوگا۔
الدلائل
ویضحي عن ولدہ الصغیر من ماله، صححه في الهدایة، وقیل: لا صححه في الکافي، قال: ولیس للأب أن یفعله من مال طفله، ورجحه ابن الشحنة، قلت: وهو المعتمد لما في متن مواهب الرحمن من أنه أصح ما یفتی به. (الدر المختار).
واختارہ في الملتقی حیث قدمه وعبر عن الأول قیل: ورجحه الطرسوسي بأن القواعد تشهد له؛ ولأنها عبادۃ، ولیس القول بوجوبها أولی من القول بوجوب الزکوۃ في ماله. (رد المحتار: 6/ 316، 317).
وفي الولد الصغیر عن أبي حنیفة روایات: في ظاهر الروایات تستحب ولا تجب بخلاف صدقة الفطر، وفي روایۃ الحسن عن أبي حنیفۃ أنه یجب أن یضحي عن ولدہ الصغیر وولد ولدہ الذی لا أب له، والفتوی علی ظاهر الروایة. (الفتاوى الهندية: 5/ 338، زکریا دیوبند
جدید).
وقوله: لا عن طفله: یعني لا یجب علیه عن أولادہ الصغار؛ لأنها عبادۃ محضة بخلاف صدقة الفطر. (البحرالرائق: 8/ 319).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
6- 12- 1441ھ 28- 7- 2020م الثلاثاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.