استنجاء میں مبالغہ کرنے سے روزہ کا حکم
سوال: حضرت مفتی صاحب ایک عورت اپنے شبہے کے مرض کیوجہ سے روزے کی حالت میں استنجاء کرتے ہوئے اتنا مبالغہ کرتی تھیں جتنے سے روزہ فاسد ہونے کا ڈر رہتا ہے (انگلی داخل کرکے صاف کرنا)، اور ایسا وہ بیسوں سال سے کرتی ہیں اب انکو جب مسئلہ معلوم ہوا تو بہت پریشان ہوگئیں ہیں، کیا اس عمل سے انکا روزہ ٹوٹ گیا یا کچھ گنجائش ہے؟ اگر ٹوٹ گیا تو قضا کا کیا حکم ہے؟
المستفتی: عبد اللہ قاسمی کٹولی اعظم گڑھ ممبر پاسبان علم وادب
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب
مسئلہ تو یہی ہے کہ اگر کوئی روزہ کی حالت میں استنجاء کرتے وقت اپنی تر انگلی کو شرمگاہ (قبل یا دبر) کے اندر اس حصے تک داخل کرے جہاں سے معدہ اسے جذب کرلے، یا وہ خود معدہ میں پہونچ جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اور اس کی مقدار فقہاء کرام نے موضع حقنہ تک بیان کی ہے، (موضع حقنہ پائخانہ کی راہ میں وہ جگہ ہے، جہاں پر پچکاری وغیرہ کے ذریعے دوا پہنچائی جاتی ہے) یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کوشش اور ارادہ کے ساتھ ایسا کیا جائے، مگر استنجاء میں بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔
اس لئے صورت مسئولہ میں جب یقین نہیں ہے کہ انگلی موضع حقنہ تک پہنچی کہ نہیں تو ضابطہ ”الیقین لا یزول بالشک“ اور ”المشقة تجلب التیسیر“ کے پیش نظر روزہ کے فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا جائیگا؛ البتہ آئندہ روزہ کی حالت میں اتنے مبالغہ سے پرہیز کریں۔
الدلائل
في ’’ الدر المختار مع رد المحتار‘‘ : (أو أدخل أصبعه الیابسة فیه) أي دبره أو فرجها ولو مبتلة فسد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو بالغ في الاستنجاء حتی بلغ موضع الحقنة فسد، درالمختار‘‘. قوله : (ولو مبتلة فسد) لبقاء شيء من البلة في الداخل ، وهذا لو أدخل الأصبع إلی موضع الحقنة.
قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَالْحَدُّ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِالْوُصُولِ إلَيْهِ الْفَسَادُ قَدْرُ الْمِحْقَنَةِ.
أي قدر ما يصل اليه رأس المحقنة التي هي آلة الاحتقان. (رد المحتار: 397/2)
وإذا استنجى، وبالغ حتى وصل الماء إلى موضع الحقنة يفسد صومه. (المحيط البرهاني 383/2)
وَكَذَا لَوْ بَالَغَ فِي الِاسْتِنْجَاءِ حَتَّى بَلَغَ مَوْضِعَ الْحُقْنَةِ أَفْطَرَهُ وَتَذَكُّرُ الصَّوْمِ شَرْطٌ فِي جَمِيعِ هَذِهِ الصُّوَرِ؛ لِأَنَّ النَّاسِيَ فِي جَمِيعِهَا لَيْسَ بِمُفْطِرٍ اتِّفَاقًا. (مجمع الأنهر 1/ 241، 242)
ولو أدخل إصبعه في استه أو المرأة فی فرجها لا یفسد وهو المختار إلا إذا کانت مبتلة بالماء أو الدهن فحینئذ یفسد لوصول الماء أو الدهن. (الفتاوی الھندیة 1/ 204، ومثله في التاتارخانیة زکریا 3/ 380، تبیین الحقائق 2/ 183)
في الخلاصة من كتاب الصوم إنما يفسد إذا وصل الماء إلى موضع الحقنة وقلما يكون ذلك اهـ وفي القهستاني من كتاب الصوم ومع هذا في إفساد الصوم بذلك خلاف. اهـ (حاشية الطحطاوي على المراقي 1/ 48).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 25- 10- 1440ھ 29- 6- 2019م السبت
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.