ایصال ثواب احادیث کی روشنی میں

ایصال ثواب احادیث کی روشنی میں، ایصال ثواب کے دلائل، ایصال ثواب کی شرعی حیثیت

ایصال ثواب احادیث کی روشنی میں

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا

(١) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میری ماں اچانک ہوگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو کچھ صدقہ کرتی، پس اگر میں اس کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا اس کو کوئی اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦٠۔ ١٣٨٨، صحیح مسلم الحدیث : ١٠٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧١٧)

(٢) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی ماں کا انتقال ہوگیا، وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور میں اس وقت موجود نہیں تھا، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا نفع پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! انھوں نے کہا : پس بیشک میں آپ کو گمراہ کرتا ہوں کہ میرا مخراف نام کا کھجوروں کا باغ ان پر صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦٢۔ ٥٦ ٢٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٦٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٨٨٢)

(٣) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ان کی ماں فوت ہوگئی اور انھوں نے ایک نذر مانی ہوئی تھی، آپ نے فرمایا : تم ان کی طرف سے ان کی نذر ادا کرو۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٣٨، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٣٠، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٨١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٣٢)

(٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت فضل بن عباس سواری پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت حضرت فضل کی طرف دیکھنے لگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فضل کے چہرے کو دوسری طرف کردیا، اس عورت نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج کرنا فرض کردیا ہے اور میرا باپ بہت بوڑھا ہے، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اور یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥١٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٣٤، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٨٠٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٤١ )

(٥) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور اب وہ فوت ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کا قرض ادا کرتے ؟ اس نے کہا : جی ! آپ نے فرمایا : تو اللہ کا قرض ادا کرو، وہ قرض کی ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٩٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٨٠٩، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٥٠٧، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٨٤٠ )

(٦) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اس نے کہا : میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، پھر وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہوگئی، آیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! تم اس کی طرف سے حج کرو، یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اس قرض کو ادا کرتیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر تم اللہ کا قرض ادا کرو کیونکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا جائے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣١٥، مؤطا امام مالک رقم الحدیث : ٢٣٦، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢٦٦، عالم الکتب، بیروت)

(٧) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سینگھوں والے مینڈھے کو لانے کا حکم دیا، وہ مینڈھا لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں، پھر آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! چھری لاؤ، پھر فرمایا : اس چھری کو پتھر سے تیز کرو، انھوں نے اس چھری کو دھار تیز کی، پھر آپ نے اس چھری کو پکڑ کر اس مینڈھے کو گرایا، پھر اس کو ذبح کرنے لگے، پھر یہ دعا کی : بسم اللہ ! اے اللہ ! اس کو محمد اور آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما، پھر اس کو قربان کردیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٦٧، الرقم المسلسل، ٥٠٠١، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٧٩٢)

امام احمد نے اس حدیث کو تین مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان سندوں کے ساتھ یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔

(مسند احمدج ٣ ص ٣٥٦ طبع قدیم، ج ٢٣ ص ١٣٤، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، المستدرک ج ٤ ص ٢٢٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٧٩٢، سنن بیہقی ج ٩ ص ٢٦٨، مسند احمد ج ٣ ص ٣٦٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٣ ص ١٧١، مؤسسۃ الرسالۃ، سنن الدار قطنی ج ٤ ص ٢٨٥، مسند احمد ج ٣ ص ٣٧٥ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٣ ص ٢٦٧، مؤسسۃ الرسالۃ، المستدرک ج ١ ص ٣٦٧، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٨٩٩، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٩٤٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣١٢١، الطحاوی ج ٤ ص ١٧٧)

حضرت علی (رض) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قربانی کی حدیث کی سند کی تحقیق

(٨) حنش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو دیکھا، وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، میں نے ان سے پوچھا : اس کی کیا وجہ ہے ؟ انھوں نے کہا کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، سو میں آپ یک طرف سے قربانی کرتا ہوں ( ” ترمذی “ کی روایت میں ہے : میں اس قربانی کو کبھی ترک نہیں کروں گا) ۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٧٩٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٤٩٥، مسند احمد ج ١ ص ١٠٧ طبع قدیم، مسند احمدج ٢ ص ٢٠٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، المستدرک ج ٤ ص ٢٣٠۔ ٢٢٩، سنن بیہقی ج ٩ ص ٢٨٨)

امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام احمد کا سلسلہ سند ہے اس طرح ہے : ” شریک عن ابی الحسناء عن الحکم عن حبنش عن علي

امام ابو عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ اس حدیث کی سند کے متعلق لکھتے ہیں :

یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی حدیث سے پہچانتے ہیں اور بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دی ہے اور بعض نے اس سے منع کیا ہے۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا : مستحب یہ ہے کہ اس جانور کا میت کی طرف سے صدقہ کردیا جائے اور اس کی قربانی نہ کی جائے اور اگر قربانی کردی جائے تو قربانی کرنے والا اس کو خود نہ کھائے اور اس پورے جانور کو صدقہ کر دے۔ محمد ( امام بخاری) نے کہا : علی بن مدینی نے کہا : اس حدیث کو شریک کے علاوہ بھی راویوں نے روایت کیا ہے، میں نے ان سے پوچھا : ابو الحسناء کا نام کیا ہے ؟ تو انھوں نے اس کو نہیں پہچانا اور امام مسلم نے کہا : اس کا نام حسن ہے۔ ( سنن ترمذی ص ٦٣١، دارالمعرفہ، بیروت، ١٤٢٣ ھ)

حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی المتوفی ٧٤٢ ھ ابو الحسناء کے متعلق لکھتے ہیں :

ابوالحسناء کو فی ہیں، ان کا نام حسن ہے اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام حسین ہے، امام ابو دؤد، امام ترمذی اور امام نسائی نے ان سے احادیث روایت کی ہیں، ہمارے پاس ان کی حدیث سند عالی سے ہے، پھر انھوں نے اس حدیث کو اپنی سند سے روایت کیا ہے۔ ( تہذیب الکمال ج ٢١ ص ١٧٩، دارالفکر، بیروت : ١٤١٤ ھ)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ج ١٢ ص ٦٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ شمس الدین محمد بن امحمد الذہبی المتوفی ٧٤٨ ھ لکھتے ہیں :

الحسن بن الحکم النخعی الکوفی ابراہیم، شعبی اور ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں، ابن معین نے کہا : یہ ثقہ ہیں، ابو حاتم نے کہا : یہ صالح الحدیث ہیں، ابن حبان نے ان میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بہ کثرت خطاء کرتے تھے اور شدید وہمی تھے اور جب یہ کسی روایت میں منفرد ہوں تو مجھے وہ روایت پسند نہیں ہے۔ ( میزان الاعتدال ج ٢ ص ٢٣٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ )

علامہ شعیب الانؤط اور ان کے شرکاء اس حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں :

امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے کہ اور علامہ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سند میں جو ابو الحسناء ہے وہ الحسن بن الحکم نخعی ہے، اس کے باوجود انھوں نے ” میزان الاعتدال “ کے ” باب الکنی “ میں اس کا نام ذکر نہیں کیا اور کہا ہے وہ معروف نہیں ہے اور الحسن بن الحکم معروف ہے، اس سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور متعدد ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے اور نسائی کے علاوہ باقی اصحاب السنن نے اس سے حدیث کو روایت کیا ہے۔ (حاشیہ مسند احمد ج ٢ ص ٢٠٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام محمد بن عبداللہ حاکم نیشا پوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حنش بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے دو مینڈھوں کی قربانی کی، ایک مینڈھے کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اور ایک مینڈھے کی اپنی طرف سے اور کہا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم دیا تھا کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کرو، پس میں آپ کی طرف سے ہمیشہ قربانی کرتا رہوں گا۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا اور اس کی سند میں جو ابو الحسناء ہے وہ الحسن بن الحکم النحعی ہے۔ ( المستدرک ج ٤ ص ٢٣٠۔ ٢٢٩، دارالباز، مکہ مکرمہ)

اس حدیث کے ذیل میں علامہ شمس الدین ذہبی متوفی ٧٤٨ ھ لکھتے ہیں :

یہ حدیث صحیح ہے اور ابو الحسنا ہی حسن بن الحکم نخعی ہے۔ ( تلخیص المستدرک ج ٤ ص ٢٣٠۔ ٢٢٩، دا رالباز، مکہ مکرمہ)

اس حدیث پر بعض لوگوں نے ضعیف کا حکم اس لیے لگایا تھا کہ اس کی سند میں ابو الحسناء مجہول راوی ہے، الحمد للہ ! ہم نے اس کی جہالت کو زائل کردیا اور یہ واضح کردیا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

حضرت سعد بن عبادہ کی سند کی تحقیق

حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک سعد کی ماں فوت ہوگئی، پس کونسا صدقہ افضل ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : پانی کا، پھر حضرت سعد نے کنواں کھودا اور کہا : یہ سعد کی ماں کا ہے۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٦٨١)

دوسری سند سے یہ روایت ہے :

(٩) سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا : کس چیز کا صدقہ آپ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : پانی کا۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٦٨٠۔ ١٦٧٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦٦٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٨٤، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٤٩٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٣٤٨، المستدرک ج ١ ص ٤١٤، مسند احمد ج ٥ ص ٢٨٥)

امام حاکم نیشا پوری متوفی ٤٠٥ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث کو سعید بن المسیب نے حضرت سعد بن عبادہ (رض) سے روایت کیا ہے اور یہ امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

علامہ ذہبی نے ” ذیل المستدرک “ میں اس پر تعاقب کیا ہے اور لکھا ہے : نہیں یہ غیر متصل ہے، کیونکہ سعید بن المسیب کا حضرت سعد بن عبادہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (المستدرک مع الذیل ج ١ ص ٤١٤)

امام ابو داؤد نے حدیث : ١٦٨٠ میں اس کو دوبارہ روایت کیا ہے : ” عن الحسن عن سعد بن عبادہ “ یہ بھی منقطع ہے، کیونکہ حسن بصری کا حضرت سعد سے سماع ثابت نہیں ہے، پھر امام ابو داؤد نے اس کو حدیث : ١٦٨١ میں مکرر روایت کیا ہے : ” عن رجل عن سعد بن عبادہ “ اور یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں ” الرجل “ مجہول ہے، لیکن یہ حدیث ان اسانید کے مجموعہ کی وجہ سے حسن بغیرہ ہوگئی اور ابن المسیب کی مراسیل صحیح ہے، اس لیے یہ حدیث لائق احتجاج اور صالح الاستدلال ہے۔

اس حدیث کی تائید میں امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی المتوفی ٣٦٠ ھ کی یہ صحیح السند روایت ہے :

(١٠) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ بیشک میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور انھوں نے کوئی وصیت نہیں کی ہے، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا ان کو نفع پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! تم پر پانی کا صدقہ لازم ہے۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٠٥٧، مکتبۃ المعارف، ریاض، ١٤١٥ ھ، المعجم اولاسط رقم الحدیث : ٨٠٦١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

حافظ نور الدین الہیثمی المتوفی ٨٠٧ ھ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں۔ ( مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٣٨، بیروت)

ایصال ِ ثواب کے متعلق بعض دیگر احادیث

(١١) حضرت سہل بن عبادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور کہا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، انھوں نے کہا کوئی وصیت کی ہے نہ صدقہ، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا وہ مقبول ہوگا ؟ اور انھیں اس کا فائدہ پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اگرچہ تم بکری کا جلا ہوا کھر صدقہ کرو۔ ( المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٧٤٨٦، مکتبۃ المعارف، ریاض، ١٤١٥ ھ)

حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن کریب ضعیف ہے۔ ( مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٣٨)

(١٢) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص نفلی صدقہ کر کے اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے قرار دیتا ہے تو انھیں بھی اس صدقہ کا اجر وثواب ملتا ہے اور اس کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔

( مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٣٩، حافظ الہیثمی نے کہا کہ اس کو طبرانی نے ” اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی خارجہ بن مصعب الضبی ضعیف ہے۔ )

(١٣) عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں تو اس کے بیٹے ہشام نے اپنے حصہ کے پچاس غلام آزاد کردیئے، پھر اس کے دوسرے بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ بقیہ پچاس غلام آزاد کر دے، پھر انھوں نے سوچا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لوں۔ پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور ہشام نے اپنے حصہ کے پچاس غلام آزاد کردیئے اور پچاس غلاموں کو آزاد کرنا باقی ہے، کیا میں اپنے باپ کی طرف سے ان کو آزاد کر دوں ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا تم اس کی طرف سے صدقہ کرتے یا تم اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کو ان عبادات کا ثواب پہنچتا۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٨٨٣، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٨٧۔ ٣٨٦، سنن بیہقی ج ٦ ص ٢٧٩، مسند احمد ج ٢ ص ١٨٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ١١ ص ٢٠٧، مؤسسۃ الرسالۃ)

” مسند احمد “ کے مخرج شعیب الارنؤط لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ ( حاشیہ مسند احمد ج ١١ ص ٣٠٧)

علامہ سید محمود آلوسی نے بھی اس حدیث سے ایصال ثواب کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ البتہ ان کی ذکر کردہ حدیث میں سو اونٹوں کی قربانی کرنے کا تذکرہ ہے اور ’ ’ مسنداحمد “ میں بھی اسی طرح ہے۔ لیکن ” سنن ابو داؤد “ میں سو غلاموں کے آزاد کرنے کا ذکر ہے، جیسا کہ ہم مکمل حدیث ذکر کرچکے ہیں۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ١٠١، دارلفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

(١٤) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا، اگر اچانک انتقال نہ ہوا ہوتا تو ضرور وہ صدقہ کرتیں اور کچھ دیتیں، تو کیا میرا ان کی طرف سے کوئی چیز صدقہ کرنا انھیں کفایت کرے گا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! تم ان کی طرف سے صدقہ کرو۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٧٧٣)

اس حدیث پر امام ابو داؤد نے سکوت کیا ہے اور قاعدہ ہے کہ جس حدیث پر امام ابو داؤد سکوت کریں، اس کی سند حسن ہوتی ہے۔

ہم نے جن احادیث سے ایصال ثواب کے جواز پر استدلال کیا ہے ان میں سے چھ احادیث ” صحیح بخاری “ کی ہیں اور بعض میں ان کے ساتھ امام مسلم بھی متفق ہیں۔ اور ایک حدیث ” صحیح مسلم “ اور ’ ’ ابو داؤد “ کی ہے۔ علاوہ ازیں چار احادیث ” سنن ابو داؤد “ کی ہیں اور یہ بھی صحیح لغیرہ اور حسن ہیں۔ اور تین احادیث امام طبرانی کی ہیں، جن میں سے دو احادیث سند ضعیف کے ساتھ ہیں اور حدیث ضعیف السند فضائل اعمال میں مقبول ہوتی ہے، خصوصاً جب اس کی تائید میں احادیث صحیحہ اور امام طبرانی کی ایک روایت ہم نے سند صحیح کے ساتھ ذکر کی ہے۔ اس کے بعد اب ہم ایصال ثواب کے مطلقاً جواز اور فقہاء احناف اور فقہاء حنابلہ کی عبارات پیش کریں گے۔ قنقول وباللہ التوفیق۔

ایصال ثواب کے متعلق فقہاء احناف میں سے صاحب ہدایہ کی تصریحات

علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر الرغینائی انخعی المتوفی ٥٩٣ ھ لکھتے ہیں :

دوسرے کی طرف سے حج کرنے میں اصل یہ ہے کہ انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا دے، اور وہ عمل نماز ہو یا روزہ یا صدقہ وہ یا کوئی اور عمل ( مثلاً تلاوت قرآن اور اذکار) یہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک ثابت اور مقرر ہے کیونکہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرمئی رنگ کے مینڈھے ذبح کیے، ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے۔ جب آپ نے ان مینڈھوں کا منہ قبلہ کی طرف کردیا تو یہ دعا پڑھی : ” اِنِّی وَجَّھتُ وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ حَنِیفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ المُشرِکِینَ “ (الانعام : ٧٩) (الانعام : ١٦٤۔ ١٦٢) اے اللہ ! یہ میری طرف سے اور میرے لیے ہے، محمد کی طرف سے اور اس کی امت کی طرف سے، بسم اللہ اللہ اکبر پر آپ نے ان کو ذبح کردیا۔ آپ نے دو مینڈھوں میں سے ایک کی قربانی امت کی طرف سے کی یہ اور عبادات کئی اقسام کی ہیں : مالیہ حضہ مثلاً زکوۃ ہدایہ حضہ مثلاً نماز، ان دونوں سے مرکب مثلاً حج اور قسم بنول ( مالیہ حضہ) میں ۔۔ کرنے کا ثواب ہوگا کیونکہ یہ عبادت بدنیہ ہے اور عجز کی صورت میں مال خرچ کرنے کو عبادت کے قائم مقام قرار دیا ہے، جیسے روزہ میں فدیہ دینے کو روزے کے قائم مقام قرار دیا ہے۔ ( ہدایہ اولین ص۔ ٢٩۔ ٢٩٦، مکتبہ شرکت علمیہ، ملتان)

فقہاء احناف میں سے علامہ شامی کی ایصال ثواب کے متعلق تصریحات

سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

معتزلہ ایصال ثواب کی نفی اس آیت سے کرتے ہیں : ” وَاَن لَّیسَ لِلاِنسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی “ ( النجم : ٣٩) لیکن یہ آیت یا منسوخ ہے یا مقصد ہے، یعنی سابقہ امتوں کو یا کافر کی صرف اپنی سعی کا اجر ملے گا، سابقہ امتوں کے مؤمنوں کو آخرت میں اور کافر کو صرف دنیا میں، کیونکہ بہ کثرت ایسی احادیث مروی ہیں جو اس تقیید کا تقاضا کرتی ہیں۔

حجاج بن دینار روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : میرے ماں باپ ہیں جن کے ساتھ میں زندگی میں نیکی کرتا تھا، اب میں ان کی موت کے بعد کیسے ان کے ساتھ نیکی کروں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ نیکی اس طرح ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لیے روزہ رکھو۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٨٧، ادارۃ القرآن، کراچی ١٤٠٦ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا، ایک شخص کہہ رہا تھا : شبرمہ کی طرف سے لبیک، آپ نے پوچھا : شبرمہ کون ہے ؟ اس نے کہا : میرا بھائی ہے یا میرا رشتہ دار ہے، آپ نے پوچھا : کیا تم نے اپنا خج کرلیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ! آپ نے فرمایا : پہلے اپنا حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٨١١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٠٣، المثقی لا بن الجارود رقم الحدیث : ٤٩٩، مشکل الآثار ج ٣ ص ٢٢٣، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٠٣٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٤٤٠، سنن الدارقطنی ج ٢ ص ٢٦٧، سنن بیہقی ج ٤ ص ٢٣٦)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا یا ان کا کوئی قرض ادا کیا وہ قیامت کے دن ابرار ( نیکی کرنے والوں) کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ( سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٩ طبع قدیم، سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٢٥٧٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے حج کرے تو وہ حج اس کی طرف سے بھی قبول کیا جاتا ہے اور اس کے والدین کی طرف سے بھی اور ان کی روحیں آسمان میں نوش ہوتی ہیں اور وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکی کرنے والا لکھا جاتا ہے۔ ( سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٩ طبع قدیم، سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٢٥٧٢، درالکتب العلمیہ، اس کی سند میں ایک راوی ابو سعید البقال ضعیف ہے، تہذیب التہذیب ج ٤ ص ٨٠۔ ٧٩)

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے باپ اور ماں کی طرف سے حج کیا اس کا اپنا حج بھی ہوگیا اور اس کو دس حج کرنے کی فضلیت ملے گی۔

( سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٦ طبع قدیم، رقم الحدیث : ٢٥٧٦، طبع جدید، اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ اس پر جو حج فرض ہے وہ اس کو ادا کرنے کی نیت کرے پھر اس کا ثواب اپنے ماں باپ کو پہنچا دے۔ )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میرے باپ کا انتقال ہوگیا اور اس نے حج نہیں کیا : آپ نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر تمہارے باپ پر قرض ہوتا اور تم اس کو ادا کرتے تو وہ قبول کیا جاتا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔ (سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٩ طبعی قدیم رقم الحدیث : ٥٧٧، طبع جدید، المعجم الاوسط رقم الحدیث ١٠٠، حافظ الہثیمی نے کہا اس حدیث کو امام بزار نے اور امام طبرانی نے ” کبیر “ اور ” اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٨٢)

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص قبرساتن سے گزرا اور اس نے گیارہ مرتبہ ” قل ھو اللہ احد “ پڑھا، پھر اس کا اجر اس قبرستان کے مردوں کی بخش دیا تو اس قبرستان کے جتنے مردے ہیں اتنی بار پڑھنے کا اس کا اجر ملے گا۔ ( جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٣١٥٢، الخصائل سورة اخلاص ج ١ ص ١٠٢ ، ۔ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے قبرستان میں جا کر سورة یٰسین پڑھی ( اور اس کا ثواب مردوں کو پہنچایا) اللہ تعالیٰ ان دن ان کے عذاب میں تخفیف کردیتا ہے ( اسی طرح جمعہ کے دن بھی یٰسین پڑھنے سے عذاب میں تخفیف فرماتا ہے) اور قبرستان کے مردوں کی تعداد کے برابر پڑھنے والے کو نیکیاں عطاء فرماتا ہے۔ اس کو امام خلال نے روایت کیا ہے۔ ( اتحاف السادۃ المتقین ج ١٠ ص ٣٧٣)

( ردالمختار ج ٤ ص ٢٨۔ ١٥۔ ١٣۔ ١٤ ملخصاً ، مخرجاً ، زاید، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

ہم نے علامہ شامی کی ذکر کردہ ان احادیث کو ترک کردیا، جن کا پہلے ذکر آچکا ہے اسی طرح اس حدیث کو بھی ترک کردیا، جس کی سند میں کذاب راوی ہے اور سات عدوننی احادیث ذکر کی ہیں، ان میں صرف ایک حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اس کو بھی اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس کی مؤید دوسری احادیث ہیں اور فضائل اعمال میں ضعیف السند احادیث معتبر ہوتی ہیں اور باقی احادیث صحیح نطیرہ اور حسن ہیں۔

ایصال ثواب کے متعلق فقہاء حنبلیہ میں سے علامہ ابن قدامہ کی تصریحات

علامہ عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :

جس شخص پر حج فرض ہو یا اس نے حج کی نذر مانی ہو اور وہ خود حج کرنے پر قادر ہو، اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا فرض حج یا نذر مانا ہوا حج کسی سے گرائے اور نفلی حج کی دو صورتیں ہیں :

(١) اس نے حجۃ الاسلام نہیں کیا توہ وہ نہ خود نفلی حج کرسکتا ہے نہ کسی سے نفلی حج کرا سکتا ہے۔

(٢) اس نے حجۃ الاسلام کرلیا ہے تو وہ کسی سے نفلی حج کراسکتا ہے خواہ وہ حج کرسکتا ہو یا عاجز ہو۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

اگر وہ شخص خود حج کرنے سے عاجز ہو یا بہت بوڑھا ہو تو وہ کسی اور شخص سے حج کرا سکتا ہے۔

(المغنی ج ٣ ص ٩٣، ملخصاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤٠٥ ھ)

نیز علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :

جس شخص کے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں یا حج کرنے سے عاجز ہوں، اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ ان کی طرف سے حج کرے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابورزین کو یہ حکم دیا : ” حج عن ابیک واعنمر “ اپنے باپ کی طرف سے حج کرو اور عمرو کرو اور ایک عورت نے آپ سے سوال کیا کہ میرا باپ فوت ہوگیا اور اس نے حج نہیں کیا تو آپ نے فرمایا : تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔ امام احمد نے کہا : خواہ و اپنے ماں باپ کی طرف سے فرض حج کرے یا حج نفل کرے۔ حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے حج کرتا ہے تو وہ حج اس کی طرف سے اور اس کے ماں باپ کی طرف سے قبول کیا جاتا ہے اور ان کی روحیں آسمان میں خوش ہوتی ہیں اور اللہ کے نزدیک وہ شخص نیکو کار لکھا جاتا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا ان کا فرض ادا کیا تو وہ قیامت کے دن نیکو کاروں میں اٹھایا جائے گا اور حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے باپ یا اپنی ماں کی طرف سے حج کیا تو اس کا حج بھی ہوگیا اور اس کو دس حج کرنے کا ثواب ملے گا یہ تمام احادیث ” سنن دارقطنی “ میں ہیں۔

شیخ ابن تیمیہ کے قرآن مجید سے ایصال ثواب کے ثبوت پر دلائل

شیخ ثقی الدین احمد بن تیمیہ شبلی متوفی ٧٩٨ ھ سے سوال کیا گیا۔

قرآن مجید میں ہے : ” ۔۔ “ (النجم : ٦٩) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب ابن آدم مرجاتا ہے تو تین کے سوال اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، صدقہ جاریہ وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور وہ ایک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٦) کیا اس کا یہ تقاضا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے پاس نیک اعمال سے کوئی چیز نہیں پہنچتی۔

شیخ ابن تیمیہ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس آیت میں اور اس حدیث میں یہ بات نہیں ہے کہ میت کو دعاؤں سے نفع نہیں پہنچتا اور یہ بات ہے کہ اس کی طرف سے جو نیک عمل کیے جائیں، وہ اس کو نہیں پہنچے اس پر متفق ہیں کہ میت کو ان چیزوں سے نفع پہنچتا ہے اور اس پر کتاب سنت اور اجماع سے دلائل ہیں اور جو اس کی مخالفت کرے وہ اہل بدعت سے ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اَلَّذِینَ یَحمِلُونَ العَرشَ وَمَن حَولَہٗ یُسَبِّحُونَ بِحَمدِ رَبِّہِم وَیُؤمِنُونَ بِہٖ وَیَستَغفِرُونَ لِلَّذِینَ اٰمَنُواج رَبَّنَا وَسِعتَ کُلَّ شَیئٍ رَّحمَۃً وَّعِلمًا فَاغفِر لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ وَقِہِم عَذَابَ الجَحِیمِرَبَّنَا وَاَدخِلہُم جَنّٰتِ عَدنِنِ الَّتِی وَعَد تَّہُم وَمَن صَلَحَ مِن اٰبَآئِہِم وَاَزوَاجِہِم وَذُرِّیّٰتِہِمط اِنَّکَ اَنتَ العَزِیزُ الحَکِیمُ (المومن : ٧۔ ٨)

عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور جو اس کے ارد گرد ہیں اپنے ب کی تسبیح حمد کے ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں ( اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہر چیز کا اپنی مغفرت اور اپنے علم سے مطالبہ کیا ہوا ہے سو تو ان کو بخش دے جو توبہ کریں اور تیرے راستے کی اتباع کریں اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا اے ہمارے رب ان کو ان جنتوں میں داخل کر دے جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے نیک ہوں ! بیشک تو بہت غالب، بےحد حکمت والا ہے

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ فرشتے مؤمنین کے لیے مغفرت کی عذاب سے بچانے کی اور انمول جنت کی دعا کرتے ہیں اور فرشتوں کی یہ دعا بندو کا عمل نہیں ہے اور اس سے بندو کو نفع ہوتا ہے، پس واضح ہوگیا کہ انسان کو اس کے بغیر کے عمل سے نفع پہنچا۔

اسی طرح ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا :

 اللہ ُ وَاستَغفِر لِذَنبِکَ وَلِلمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنٰتِ ط (محمد : ١٩)

آپ اپنے بظاہر خلاف اولیٰ کاموں کی مغفرت طلب کیجئے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے۔

اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی :

رَبَّنَا اغفِر لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلمُؤمِنِینَ یَومَ یَقُومُ الحِسَابُ (ابراہیم : ٤١ )

اے میرے رب ! میرے لیے مغفرت فرما، اور میرے والدین کے لیے اور مؤمنوں کے لیے جس دن حساب ہو گا

 اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا :

رَبِّ اغفِرلِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَن دَخَلَ بَیتِیَ مُؤمِنًا وَّلِلمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنٰت ِط (نوح : ٢٨ )

اے میرے رب ! میرے لیے مغفرت فرما، اور میرے والدین کے لیے اور جو مومن میرے گھر داخل ہو اور مؤمنین مردوں اور مرمن عورتوں کے لیے۔

یہ نبیوں اور رسولوں کی دعائیں اپنی امتوں اور مؤمنوں کے لیے ہیں اور ان کی یہ دعائیں انسان کے اعمال کا غیر ہیں اور ان کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قبول فرمائے گا اور ان سے انسان کو نفع ہوگا اور اس کی مغفرت ہوگی۔

شیخ ابن تیمیہ کے سنن متواترہ سے مالی صدقات اور عبادات بدنیہ کے ایصال ثواب پر دلائل

سنن متواترہ سے دوسروں کے اعمال کا نفع آور ہونا ثابت ہے جن کا انکار کفر ہے، مثلاً مسلمانوں کا میت کی نماز جنازہ پڑھنا اور نماز میں ان کے لیے دعا کرنا، اسی طرح قیامت کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شفاعت کرنا کیونکہ ان کے ثبوت میں احادیث متواترہ ہیں، بلکہ مرتکب کبائر کی شفاعت کا اہل بدعت کے سوا کوئی انکار نہیں کرتا اور یہ ثابت ہے کہ آپ اہل کبائر کی شفاعت کریں گے اور آپ کی شفاعت اللہ تعالیٰ سے دعا اور اس سے سوال کرنا ہے، پس یہ امور اور ان کی امثال قرآن اور سنن متواترہ سے ثابت ہیں اور ایسی چیزوں کا منکر کافر ہے اور ایسی چیزیں احادیث صحیحہ سے بہ کثرت ثابت ہیں :

(١) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : میری ماں کا انتقال ہوگیا، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو نفع ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں !ٗ اس نے کہا : میرا ایک باغ ہے اور میں آپ کو گواہ کرتا ہوں میں نے اس باغ کو اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کردیا۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٨٨٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٦٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦٥٥ )

(٢) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور انھوں نے کوئی وصیت نہیں کی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتیں تو کچھ صدقہ کرتیں، پس اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کر دوں تو کیا اس سے ان کو نفع ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٨٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٠٤)

(٣) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرا باپ فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں اس کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا اس کا فائدہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٣٠)

(٤) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ العاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا اور ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کردیئے اور عمرو نے اس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کا اقرار کرتا پھر تم اس کی طرف سے روزہ رکھتے یاصدقہ کرتے تو اس کو نفع ہوتا۔ ( مسند احمد ج ٢ ص ١٨٢)

(٥) ” سنن دار قطنی “ میں ہے کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ تھے ‘ میں زندگی میں ان کے ساتھ نیکی کرتا تھا ‘ اب میں ان کی وفات کے بعد کیسے ان کے ساتھ نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا : اب ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لیے روزہ رکھو ‘ اور اپنے صدقہ کے ساتھ ان کے لیے صدقہ کرو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٧٨٣)

(٦) امام مسلم نے اپنی کتاب کے شروع میں ابو اسحاق طالقانی سے روایت کیا ہے ‘ انھوں نے کہا : میں نے عبداللہ بن المبارک سے کہا : اے ابو عبدالرحمن ! حدیث میں ہے کہ نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے ماں باپ کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزے کے ساتھ ان کے لیے روزہ رکھو ‘ عبداللہ بن مبارک نے کہا : اے ابو اسحاق ! یہ کس سے روایت ہے ؟ میں نے کہا : یہ شہاب بن حراس کی حدیث ہے ‘ انھوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ‘ میں نے کہا : وہ کس سے روایت کرتا ہے ؟ انھوں نے کہا : حجاج بن دینار سے ‘ انھوں نے کہا : وہ بھی ثقہ ہے ‘ وہ کس سے روایت کرتا ہے ؟ میں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ‘ انھوں نے کہا : اے ابو اسحاق ! حجاج اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کئی سواریوں کی مسافت کو قطع کرنا ہے لیکن صدقہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور واقعہ اسی طرح ہے جس طرح عبداللہ بن مبارک نے کہا ‘ کیونکہ یہ صدیث مرسل ہے۔ (مقدمہ مسلم رقم الحدیث : ٦١ )

اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ میت تک پہنچتا ہے ‘ اسی طرح عبادات مالیہ جیسے غلام آزاد کرنا ‘ ان کا اختلاف صرف اس چیز میں ہے کہ عبادات بدنیہ مثلاً نماز ‘ روزہ اور تلاوت قرآن ان کو دوسرے کی طرف سے کرنا جائز ہے یا نہیں ‘ جب کہ صحیح حدیث میں ہے :

(٧) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کا ولی (وارث) اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٩١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤١١)

(٨) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ‘ ایک عورت نے کہا : یا رسول اللہ ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس کے ذمہ نذر کے روزے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : یہ بتاؤ کہ اگر اس کے ذمہ کسی کا قرض ہوتا تو کیا اس کی طرف سے وہ قرض ادا کیا جاتا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر تم اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤١١)

(٩) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری بہن کا انتقال ہوگیا اور اس کے ذمہ دو ماہ کے مسلسل روزے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو تم اس کو ادا کرتیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : پھر اللہ کا حق ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٩١)

(٠١) حضرت عبداللہ بن بریدہ بن حصیب اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہا : بیشک میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے ہیں ‘ اگر میں اس کی طرف سے یہ روزے رکھ لوں تو آیا اس کی طرف سے یہ روزے ادا ہوجائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٤١١)

لہٰذا ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ میت کے ذمہ جو نذر کے روزے ہیں ان کو رکھا جائے گا اور وہ قرض کی ادائیگی کے مشابہ ہیں اور ائمہ کا اس میں اختلاف ہے اور جن کے پاس یہ احادیث پہنچ گئیں، انھوں نے اس میں اختلاف نہیں کیا، اس مسئلہ میں ان ائمہ کا اختلاف ہے جن کے پاس یہ احادیث نہیں پہنچیں ( میں کہتا ہوں : ان ائمہ نے ان احادیث میں تاویل کی ہے اور روزہ رکھنے کے حکم سے روزہ کا فدیہ دینا مراد لیا ہے تاہم ان کے نزدیک بھی کسی کی طرف سے نفل روزہ اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے خواہ جس کی طرف سے یہ نفلی عبادت ادا کی جائے وہ زندہ ہو یا مردہ۔ سعیدی غفرلہ) اور رہا حج تو وہ سب کے نزدیک دوسرے کی طرف سے ادا کرنا کافی ہے اور اس کے متعلق یہ احادیث ہیں :

(١١) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، ابھی اس نے حج نہیں کیا تھا کہ وہ فوت ہوگئی، آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : اس کی طرف سے حج کرو، یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا کرتیں ؟ اللہ کا قرض ادا کرو، اللہ تعالیٰ قرض کی ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 1852، صحیح مسلم رقم الحدیث 1148)

(٢١) حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عرت نے کہا : یا رسول اللہ ! میری ماں فوت ہوگئی اور اس نے حج نہیں کیا، آیا اس کے لیے یہ کافی ہوگا کہ میں اس کی طرف سے حج ادا کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! بخاری کی روایت میں ہے : حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : ایک عورت نے کہا : میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی، آیا اس کے لیے میرا حج کرنا کافی ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 6699، صحیح مسلم رقم الحدیث 1149)

ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میت کی طرف سے حج فرض ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی طرح نذر مانے ہوئے حج کو بھی میت کی طرف سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی طرح فرض روزوں کو بھی میت کی طرف سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کو حکم دیا ہے وہ بعض احادیث میں میت کی اولاد تھی اور بعض احادیث میں میت کا بھائی تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو میت کے ذمہ قرض کے مشابہ قرار دیا ہے اور قرض ہر ایک کی طرف سے ادا کیا جاسکتا ہے اور یہ اس پر دلیل ہے کہ یہ کام بھی ہر شخص کرسکتا ہے اور اس میں اولاد کی تخصیص نہیں ہے۔ کیونکہ بعض احادیث میں آپ نے بھائی کو بھی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کتاب، سنت اور اجماع علماء سے یہ واضح ہوگیا کہ میت کی طرف سے عبادات کو ادا کرنا اور ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور (النجم :39) اس کے خلاف نہیں ہے، اسی طرح وہ حدیث بھی اس کے خلاف نہیں ہے جس میں یہ فرمایا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے سب اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوا تین کے۔ (صحیح مسلم :1131) اور یہ حق ہے بلکہ یہی حق ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اس کو دوسرے کے عمل سے فائدہ نہیں ہوگا جب کہ اس حدیث میں یہ ہے کہ اس کی اولاد کی دعا سے اس کو فائدہ ہوگا۔

(ماخوذ از تبيان القرآن)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply