hamare masayel

جائداد کسی ایک لڑکے کے نام کرنا، وراثت کے احکام

جائداد کسی ایک لڑکے کے نام کرنا

سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بکر کے چار بیٹے ہیں اور بکر مستقل بیمار رہتا ہے اور اسکا چھوٹا بیٹا عمر مستقل خدمت میں لگا رہتا ہے جس سے خوش ہوکر بکر نے اپنی ساری پراپرٹی عمر کے نام رجسٹرڈ ایگریمنٹ کردی اور اس کا انتقال ہوگیا (سرکاری طور پر کسی کو عمل دخل کی گنجائش نہیں رہی۔

1- کیا عمر کیلئے شرعی طور پر یہ پراپرٹی جائز ہے؟

2 -ایسی کسی پراپرٹی کا خریدنا کیسا ہے؟

المستفتی : مفتی أجود اللہ پھول پوری

 الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

صورت مسئولہ میں بکر نے اپنی زندگی میں جب عمر کے نام ساری جائداد کردیا اور عمر کا قبضہ بھی ہوگیا تو شرعاً عمر اس جائداد کا مالک ہوچکا ہے اب اگر وہ اس کو فروخت کر رہا ہو تو اسے خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نوٹ: والدین کی خدمت نہ کرنا بہت ہی بری بات ہے اسی لئے خدمت نہ کرنے والے بچوں کو محروم کرنے کی شرعاً گنجائش ہے، لیکن اگر دوسرے بچے بھی ضرورت مند ہوں (خواہ باپ کے ساتھ حسن سلوک نہ کرتے ہوں) تو انھیں محروم نہیں کرنا چاہیے، اب اگر عمر جائداد کو اپنے بھائیوں میں شرعی اعتبار سے تقسیم کردے تو والد کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی ہوگی، اور اس کے نتیجہ میں اسے دنیا وآخرت میں بہت کچھ ملے گا۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا﴾. [النساء:7].

وقال الله تعالى: ﴿آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا﴾ [النساء: 11].

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سوّوا بين أولادكم في العطية، فلو كنتُ مفضلا أحداً لفضلتُ النساء. أخرجه سعيد بن منصور والبيهقي.

وعن أنس بن مالک رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وسلم: من قطع میراث وارثه، قطع اللّٰه میراثه من الجنة یوم القیامة۔ (مشکاة المصابیح، کتاب البیوع/ باب الوصایا، الفصل الثالث 266، وکذا في سنن ابن ماجه، کتاب الوصایا/ باب الحیف في الوصیة، ص: 194 رقم: 2709 دار الفکر بیروت).

إن الوالد إن وهب لأحد أبنائه هبة أکثر من غیره اتفاقاً أو بسبب علمه أو عمله أو بره بالوالدین من غیر أن یقصد بذٰلک إضرار الاٰخرین ولا الجور علیهم کان جائزاً علی قول الجمهور۔ أما إذا قصد الوالد الإضرار، أو تفضیل أحد الأبناء علی غیره بقصد التفضیل من غیر داعیة مجوزة لذٰلک؛ فإنه لا یبیحه أحد. (تکملة فتح الملهم 2/71 مکتبة دارالعلوم کراچی).

یملک الموهوب له الموهوبَ بالقبض، فالقبض شرط لثبوت الملک، لا لصحة الهبة. (شرح المجلة لسلیم رستم باز: 1/473 رقم المادة: 861 کوئٹه).

لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان عالما متأدبا ولا یعطی منهم من کان فاسقًا فاجرًا. (مجمع الأنهر: 3/47).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 15/9/1439ه31/5/2018م الخميس

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply