حضرت مولانا بشير احمد صاحب قاسمى بستوى رحمہ الله KB 331 PDF
اك ديا اور بجھا اور بڑھى تاريكى
(حضرت مولانا حسين احمد مدنى رحمہ الله كے ايك مايہ ناز شاگرد حضرت مولانا بشير احمد صاحب قاسمى بستوى رحمہ الله كا سانحۂارتحال، 1923ء ــــ 2025ء)
بقلم: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
بجہرا (Bajahra) گاؤں ضلع بستى اور سنت كبير نگر ميں كئى معنوں ميں بڑى قدر ومنزلت كا حامل رہاہے، ايك تو يہ كہ اس گاؤں ميں ہر زمانے ميں علماء صلحاء، دين دار،اور پڑھے لكھے لوگوں كى ايك كثير تعداد رہى ہے، بجہرا كےآس پاس كے گاؤں ميں يہ بات مشہور تھى كہ جب ٹيلى فون وغيرہ كا دور نہيں تھا تو علاقے كے بہت سے لوگ اپنے خطوط پڑھوانے كے ليے بجہراہى كا قصد كيا كرتے تھے،دوسرےيہ كہ يہ گاؤں الحمد للہ اس وقت بھى بدعات اور ان كے اثرات سے پاك صاف تھا، جس وقت آس پاس كے علاقے بدعات وخرافات ميں ڈوبے ہوئے تھے، تيسرےيہ كہ حضرت مولانا حسين احمد مدنى رحمہ الله سے يہاں كے لوگوں كا بڑا گہرا ربط تھا، گاؤں كے اكثر لوگ حضرت مدنى سے بيعت تھے، اور آپ كے فرزند ارجمند حضرت مولانا سيد اسعد مدنى (متوفى : 2006ء) رحمہ الله كا اس گاؤںميں بار بار آنا ہوتا تھا ، مردوں كے علاوہ گاؤں كى اكثر عورتيں بھى آپ سے بيعت تھيں، ان دونوں شخصيات كے اثرات نماياں طور پر جھلكتے نظر آتے ہيں،آج بھى يہ گاؤں جمعيت علمائے ہند اور اس كى سرگرميوں ميں متحرك ہے، تبلىغى جماعت سے بھى اس كا دلى تعلق ہے، غرض كہ پورا گاؤں دينى مزاج ميں اور اس كى دلكش رعنائيوں ميں رچا بسا ہے ،يہاں كے بچوں ميں دينى اور عصرى تعليم كے رجحان كا حسين امتزاج ہے، ان سارى خوبيوں كى وجہ سے قرب وجوار ميں بجہرا گاؤں ہميشہ سے توجہ كا مركز رہا ہے۔
چہرا كھلى كتاب ہے عنوان جو بھى دو
جس رخ سے بھى پڑھو گے انہيں جان جاؤ گے
حضرت مولانا بشير احمد صاحب رحمہ الله اسى مردم خيز گاؤں كے ايك علمى اور دينى گھرانے كےچشم وچراغ تھے، اس گھرانے كى عورتيں بھى اچھى خاصى پڑھى لكھى تھيں، مولانا كے پر داداشيخ غازى ديانت الله صاحب مشہور مجاہد حضرت مولانا سيد جعفر على صاحب نقوى بستوى مجھوا ميرى رحمہ الله(Majhawwa Meer)[1] (متوفى: 1869ء)كے ہمراه سيد احمد شہيد رحمہ الله (متوفى: 1830ء) كے مجاہدين كے قافلےكےساتھ بالا كوٹ كى لڑائى ميں شامل تھے، اسى وجہ سے شيخ ديانت الله صاحب اپنے علاقے ميں غازى كے نام سے مشہور تھے، حضرت مولانا بشير صاحب كے والد محترم جناب عظيم الله صاحب عالم تو نہ تھے مگر اچھے خاصے پڑھے لكھے اور صلاة وصوم كےپابند ايك بھلے مانس تھے، آپ كا شمار علاقے كے سربرآوردہ لوگوں ميں ہوتا تھا،لوگ ان كى بڑى عزت كرتے تھے۔
تاريخِ پيدائش اور ابتدائى تعليم:
حضرت مولانا بشير احمد صاحب رحمہ الله اسى دينى ماحول ميں غالبا 1923ء ميں پيدا ہوئے، شرافت ونجابت كے آثار بچپن ہى سے چہرے بشرے سےنماياں تھے، مولانا كى بسم الله گھر پر ہوئى اور ابتدائى تعليم اپنے علاقے ہى كے گاؤں بستہ (Basta)اور بسڈيلہ (Basdila)كے مدرسہ تدريس الاسلام ميں ہوئى۔
مدرسہ تعليم الدين اونچہرہ[2](Unchahra) ميں:
مكتب كى تعليم مكمل كرنے كے بعد عربى وفارسى كى تعليم حاصل كرنے كے ليے آپ نے مدرسہ تعليم الدين اونچہرہ ضلع سنت كبير نگركا رخ كيا، اس زمانے ميں مدرسہ تعليم الدين علاقے ميں بڑى شہرت كا حامل تھا، وہاں پر آپ حضرت شيخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (متوفى: 1920ء)كے شاگرد مولانا زين العابدين اعظمى[3] رحمہ الله (متوفى: 1956ء) سے شرح جامى عربى چہارم تك كى تعليم حاصل كى، يہاں آپ كے ايك ہم درس آپ ہى كےگاؤں كے ايك ممتاز عالم دين اور شعلہ بيان مقرر حضرت مولانا صابر صاحب[4] رحمہ الله (متوفى: 1999ء) بھى تھے۔
دارالعلوم ديوبند ميں:
تعليم الدين اونچہرہ كى تعليم مكمل كرنے كے بعد مولانا زين العابدين صاحب اعظمى رحمہ الله اپنے دونوں شاگردوں كو دار العلوم ديوبند ميں داخلہ كرانے كے ليے لے گئے تھے، دار العلوم ديوبند ميں آپ كے اساتذہ ميں حضرت مولانا حسين احمد مدنى، (متوفى: 1957ء) حضرت مولانا اعزاز على امروہى، (متوفى: 1953ء) حضرت مولانا علامہ محمد ابراہىم بلياوى، (متوفى: 1967)حضرت مولانابشير احمد خان صاحب،بلند شہریؒ(متوفى : 1966ء) حضرت مولانا عبد السميع صاحب، ديوبندى رحمہ الله [5] (متوفى: 1947ء) رحمہم الله وغيرہ قابلِ ذكر ہيں۔
دارالعلوم ديوبند ميں آپ كے ہمدرس ساتھيوں ميں حضرت مولانا انظر شاہ صاحب كشميرى، (متوفى: 2008ء)حضرت مولاناوحيد الزمان كيرانوى، (متوفى: 1995ء)حضرت مولانا سيد اسعد صاحب مدنى ،(متوفى: 2006ء)اور حضرت مولانا خورشيد حسن ديوبندى(متوفى: 2012ء ) رحمہم الله خاص طور پر قابلِ ذكر ہيں، يہ تمام شخصيات بعض كتابوں ميں آپ كى ہم درس تھيں۔
دارالعلوم ديوبند سے فراغت اور تدريسى خدمات:
1947ءميں آپ نے دارالعلوم ديوبند سے فراغت حاصل كى، بخارى شريف حضرت مدنى سے پڑھى، اس كے بعد دارالعلوم ميں دو تين سال رہ كر مختلف علوم وفنون كى تكميل كى،حضرت مدنى سے آپ كا بڑا خصوصى اور والہانہ تعلق تھا، آپ فراغت كے بعد حضرت مدنى سے بيعت بھى ہوئے، اسى تعلق كى بنا پر حضرت مدنى نے اپنا خاص كرتا آپ كو عطا كركے سن 1952ء ميں مدرسہ قاسم العلوم گيا(Gaya) بہار تدريس كے ليے بھيجا تھا، وہاں پر آپ نےتين سال تك تدريسى خدمات انجام دىں۔
تعليم الدين اونچہرہ سنت كبير نگر ميں:
مدرسہ قاسم العلوم گيا كے بعدآپ مدرسہ تعليم الدين اونچہرہ ميں سن 1956ء ميں تشريف لائے اور يہاں آٹھ سال تك تدريسى خدمات انجام ديں اور اپنے علوم ومعارف سے تشنگانِ علوم كو سيراب كرتے رہے۔
مدرسہ عربیہ دینیہ مو نڈاڈیہہ بیگ(Mundadiha Beg)سنت كبير نگر ميں:
سن 1964ء ميں مو نڈاڈیہہ بیگ كے كچھ سر برآورہ لوگ مدرسہ تعليم الدين اونچہرہ آئے اور مدرسہ والوں كى بڑى منت سماجت كركے آپ كو مونڈاڈیہا بیگ لے آئے، تب سے لے كر آپ نے اپنى پورى زندگى مدرسہ عربیہ دینیہ مو نڈاڈیہہ بیگ كوسنوارنے اور نكھارنے اور نونہلانِ اسلام كى آبيارى ميں صرف كردى،تقريبا60 سال سے زائد كا عرصہ آپ نے يہاں گزارا ، مونڈاڈیہہ بیگ والوں نے بھى آپ كو بڑى عزت اور احترام كے ساتھ ركھا، اور آپ نے بھى كبھى كوئى شكايت كا موقع نہيں ديا، بڑی خاموشی اور دیانتداری کے ساتھ خدمات انجام دیتے رہے، اس ادارے کو پروان چڑھا نے میں آپ کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے ،مونڈاڈیہہ بیگ کے بیشتر بزرگ بلکہ قرب و جوار کے وہ علماء جو اس وقت بڑے بڑے اداروں كےمختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ سب آپ ہی کےتربیت یافتہ ہیں، طلبہ کے ساتھ آپ کا رویہ نہايت مشفقانہ تھا، ماہِ رمضان ميں آپ مونڈاڈیہہ بیگ ہى میں قیام کرتے تھے، اور گاؤں کے چھوٹے چھوٹے بچے جو رمضان ميں پڑھنے آتے تھے آپ ان كو بڑى شفقت اور محبت کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے ، مونڈاڈیہہ بیگ كى تقریبا تین نسلوں کو آپ نےزيورِ علم سے آراستہ کیا، پيرانہ سالى اور بڑھاپے كے باوجود آپ اپنا ہر ايك کام خود کرنے كى كوشش كرتے تھے، خود ہی پانی بھر کے لاتے اور وضو کرتے تھے، اور اگر كسی کو كبھى خدمت کا موقع دے بھى دیتے تو اسے دعاؤں سے خوب نوازتے تھے۔
مونڈاڈیہہ بیگ والوں كا يہ بھى بيان ہے كہ:ہمارے گاؤں میں تقریبا ادھر 60 سال تک گاؤں كے تمام مرحومین کا جنازہ آپ ہى پڑھايا كرتے تھے، اور اگركسى وجہ سے آپ کبھی گھر بھى چلے جاتے تھے تو مرحومین کےاولیاء اور ان كے ورثہ آپ کو جا کر لاتے تھے اور نماز جنازہ آپ ہى سے پڑھوایا کرتے تھے۔
بىعت وسلوك:
آپ كا اصلاحى تعلق حضرت مولانا حسين احمد مدنى رحمہ الله سےتھا، حضرت مدنى كے انتقال كے بعد، حضرت كے صاحبزادے فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنى رحمہ الله سے بيعت ہوئے۔
عادات واطوار:
حضرت مولانا بشير احمد صاحب رحمہ الله بڑے ذی وقار اور ذی علم ہونے کے علاوہ نہايت خلیق و ملنسار ،نيك فطرت ونيك طينت شخص تھے، آپ مجلسى آدمى نہ تھے، ، شريعت كے نہايت پابند تھے، مزاج ميں حد درجہ نرمى تھى، اس كے باجود اگر كوئى كام شريعت كے خلاف ديكھتے تو بہت برہم ہوتےتھے اور بر ملا ٹوك ديتے تھے، شريعت كے معاملے ميں كسى كى پروا نہيں كرتے تھے، آپ بہت زيادہ صابر وشاكر تھے ، رضائے الہى انہيں ہر حال ميں مقصودتھى، علاقے كے تمام لوگ ان كى سادگى، ان كى بزرگى، سنت نبويہ كے حد درجہ متبع ہونےكى وجہ سے ان سے بڑى عقيدت ومحبت ركھتے تھے، آپ كى ان ہى خوبيوں كى وجہ سےمسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی آپ كے بڑے معتقد تھے، اور آپ کو لاڈ اور پيار سے دادا كہہ كر بلايا کرتے تھے ، الله كے فضل وكرم سے آپ مستجاب الدعوات بھى تھے، عملیات بھی کرتے تھے ، الله تعالى نے آپ كے ہاتھ ميں بڑى شفا ركھى تھى، جب آپ سے كوئى دعا كرانے آتا تو اسے بڑى عزت و احترام سے بٹھاتے، اور دعا کرتے، اور الله تعالى كى مرضى سےوه شفا ياب ہو جاتا تھا۔
آپ نے اپنى پورى زندگی گمنامی میں بسر كى، شہرت اور نامورى سے كوسوں دور رہے، عہدوں اورمنصبوں سے ہميشہ كنارہ كشى اختيار كرنے كى كوشش كى، سادگى آپ كى سرشت ميں داخل تھى، كبھى بھى اپنے آپ كو نماياں كرنے كى كوشش نہيں كى، دنيا كى رنگينيوں سے منھ موڑ كر آپ ہميشہ آخرت كى فکر میں مشغول رہتے تھے ، اسى وجہ سے علاقے كے بھى زيادہ تر لوگ آپ سے ناواقف تھے:
میاں بس ہمیں تو پسند آگئیں
تری سادگی تیری سچائیاں
ترے طرز اسلوب و انداز کو
دعا دیتی ہیں دل کی گہرائیاں
عہدے ا ورمناصب:
حضرت مدنى سے قلبى لگاؤ كى وجہ سے آپ شروع سے اخير عمر تك جمعيت علمائے ہند سے منسلك رہے، اور اپنے علاقے ميں جمعيت كے ايك فعال ركن گردانے جاتے تھے، علاقے ميں بدعات كے قلع قمع ميں آپ كى كوششيں نہايت بار آور ثابت ہوئيں، حضرت مولانا عبد الحميد[6] صاحب رحمہ الله(متوفى: 2008ء) كے انتقال كے بعد آپ جمعيت علماء ضلع سنت كبير نگر كے صدر منتخب ہوئے، اور اخير ميں معذورى كى وجہ سےمستعفى ہوگئے، اسى طرح حضرت مولانا مفتى مرتضى صاحب رحمہ الله (متوفى: 1987ء) [7]كے انتقال كے بعد آپ شرعى پنچائت ضلع بستى كے صدر منتحب ہوئے اور جب تك صحت نے ساتھ ديا اس عہدے كو پورى جانفشانى اور ديانت دارى كے ساتھ نبھايا۔
بيمارى اور انتقال:
ادھر كچھ دنوں كو چھوڑ كر ما شاء الله من جملہ آپ كى صحت اچھى تھى، ضعف اور پيرانہ سالى كے باوجود اپنى بشرى ضروريات پورى كر ليتے تھے ، ابھى چند ايام سے پيشاب ميں دقت تھى، علاج كى بہتىرى كوششيں ہوئيں مگر وقتِ موعود آ پہونچا تھا بالآخر 11/ شعبان المعظم 1446ھ مطابق 10/ فرورى 2025 ء بوقت صبح اپنے مالكِ حقيقى سے جا ملے، انا لله وانا اليہ راجعون ؏
جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
انتقال كے وقت آپ كى عمر مبارك 102 سال سے متجاوز تھى، انتقال كے وقت تك بھى الحمد لله پورے ہوش وحواس ميں تھے، اور حسبِ معمول بات چيت بھى كر رہے تھے،مگر ہونى كوكو ن ٹال سكتا ہے، جان تو سب كى ايك دن جانى ہے، الله تعالى حضرت كو غريقِ رحمت فرمائيں آپ كى نمازِ جنازہ عصركى نمازكےبعدآپ كےخلف رشيد حضرت مولانا منير صاحب قاسمى دامت بركاتہم نے پڑھائى ۔
اللہ تعالی حضرت مولانا بشير صاحب كى خدمات کو قبول فرمائے، اور مدرسہ عربیہ دینیہ مو نڈا ڈیہہ بیگ كو ان كا نعم البدل عطا فرمائے، اور حضرت والا کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، اور ان كے جملہ لواحقين كو صبرِ جميل كى توفيق دے۔
آسماں تيرى لحد پر شبنم افشانى كرے
سبزۂ نورستہ اس گھر كى نگہبانى گرے
اولاد واحفاد:
الله كےفضل وكرم سے حضرت مولانا كثير العيال تھے، آپ كى صرف نرينہ اولاد تھيں، الله نے آپ كو 9 بيٹوں سے نوازا تھا، بىٹىاں نہيں تھيں،سب سےبڑے صاحبزادے حضرت مولانا نذير احمد صاحب قاسمى ، ان كے بعد مولانا منير احمد صاحب قاسمى، مولانا خبير احمد صاحب قاسمى، حافظ شريف احمد صاحب، جناب مختار احمد صاحب، مولانا ظفر احمد صاحب قاسمى، مولانا كلىم احمد صاحب ندوى، جناب حلىم احمد صاحب، مولانا ظہىر احمد صاحب قاسمى ، ان ميں سے اكثر ما شاء الله عالم اور حافظ ہيں اور سب صاحبِ اولاد ہيں،اور كامياب زندگى گزار رہے ہيں۔
نوٹ: اس مضمون كے مواد كى فراہمى ميں حضرت مولانا بشير احمد صاحب رحمہ الله كے برادر زادے جناب ماسٹر عبد الحفيظ صاحب دامت بركاتہم ساكن بجہرا،سابق پرنسپل كسان انٹر كالج پَچْ پكھرى، (kisan Inter College Pachpokhari) ضلع سنت كبير نگر، اور حضرت مولانا كے نواسے جناب مولانا محمود اختر صاحب ساكن ہٹوا بازار، (Hatwa Bazar) ہیڈ ماسٹر آف جونئیر اسکول ، سسوارى مغل، (Siswari Mughal)ضلع بستى، اور جناب مولانا ضمير احمد صاحب ندوى، ساكن مونڈاڈیہہ بیگ، اور جناب ڈاكٹر ظفر الہدى صاحب قاسمى ساكن اگيا (Agya) ضلع سنت كبير نگر ، كى كوششوں كا بڑا دخل ہے، الله تعالى ان تمام حضرات كو اپنى شايانِ شان اس كا بدلہ مرحمت فرمائيں آمين۔
حوالاجات
[1] حضرت مولانا سید جعفر علی نقوی بستوی برصغیر پاک و ہند کے معروف مجاہد اور عالم دین تھے۔ آپ كا وطن مالوف “مجھوا مير” ہے، آپ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ(شہید بالا كوٹ: 1830ء) کے خلیفہ، میر منشی، اور بالاکوٹ کے غازی تھے۔ آپ نے تحریکِ اصلاح و جہاد میں نمایاں کردار ادا کیا اور اپنی علمی و دعوتی خدمات کے ذریعے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی۔ آپ کی علمی و جہادی خدمات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی گئی ہیں، اور آپ کی کاوشیں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ نے “حضرت سید احمد شہید کا حج اور اس کے اثرات” کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی، جس میں حضرت سید احمد شہید کے حج اور اس کے معاشرتی اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آپ كى دوسرى تصانيف ميں” سرگزشت سفر جہاد “، اور “تاريخ احمديہ سيد احمد شہيد كے حالاتِ زندگى ” خاص طور پر قابلِ ذكر ہيں ۔آپ کی حیات و خدمات پر آپ ہى كے خاندان كے ايك فرزند حضرت مولانا مرتضى صاحب رحمہ الله (متوفى: 1995ء) سابق ناظمِ كتب خانہ دار العلوم ندو ة العلماء كے صاحبزادےحضرت مولانا عبید اللہ الاسعدی حفظہ الله نے “حیاتِ جعفر” کے عنوان سے ایک تفصیلی سوانح عمری تحریر کی ہے، جس میں آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور کارناموں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
[2] غير منقسم ضلع بستى ميں ہدايت العلوم كرہى(Karhi) اور مدرسہ تعليم الدين اونچہرہ كاشمارضلع كےقديم مدارس ميں ہوتا ہے، اول الذكركى بنياد سيد جعفر على نقوى مجھوا ميرى (متوفى: 1869ء)نے غالبا 1833ميں ركھى تھى،اورثانى الذكر كو موضع بھنگورا كے ايك خدا ترس بزرگ مياں دين محمدنےاونچہرہ گاؤں ميں كسى كے گھركےدالان ميں شروع كياتھا،پھراسكى نشاة ثانيہ حضرت مولانا زين العابدين اعظمى رحمہ الله كے ہاتھوں موضع اونچہرہ كے باسى حاجى ياسين صاحب كى زمين پر1915ءميں ہوئى، مدرسہ ہدايت العلوم اگرچہ تعليم الدين سے پرانا ہے،ليكن عربى فارسى تعليم يہاں پر تعليم الدين كےبعد شروع ہوئى تھى،ہدايت العلوم بہت دنوں تك صرف مكتب كى شكل ميں تھا۔(بروايت حضرت مولانا محمد على صاحب قاسمى چھپيا چھتونہ سابق استاذ مدرسہ تعليم الدين اونچہرہ، اور ڈاكٹر ظفر الہدى صاحب قاسمى ، سابق طالب علم تعليم الدين اونچہرہ)
[3] حضرت كا آبائى وطن موضع “سيدھا سلطان پور”، (Sidha Sultanpur) ضلع اعظم گڑھ ہے، آپ نے ضلع بستى ميں سكونت اختيار كر لى تھى اس ليے اعظم گڑھ كا علماء طبقہ بھى آپ سے نا آشنا ہے، اور حضرت مولانا حبيب الرحمن اعظمى رحمہ الله (متوفى: 2021) سابق استاذ حديث دار العلوم ديوبند نے بھى اپنى مشہور كتاب “تذكرہ علمائے اعظم گڑھ” ميں آپ كا ذكر نہيں كيا ہے، 1915ء سے غالبا 1948ء ايك لمبا عرصہ آپ نے تعليم الدين اونچہرہ ميں گزارا، اس كے بعد كچھ اختلافات كى بنا پر آپ وہاں سے الگ ہو گئے، اور ايك ڈيڑھ سال تك اونچہرہ كے قريب ايك گاؤں مدائن ميں رہے، اس وقت مدائن ميں كوئى با ضابطہ مدرسہ نہ تھا پھر بھى آپ بچوں كو تعليم ديتے رہے، 1950ءميں باغ نگر ضلع سنت كبير نگر ميں آپ نے مدرسہ قاسم العلوم كى بنياد ركھى، اور زندگى كا بقيہ عرصہ اسى ميں گزارا آپ كا انتقال 1956ء ميں ہوا، اور اسى مدرسے ہى ميں آپ مدفون ہوئے۔(بروايت حضرت مولانا محمد على صاحب قاسمى چھپيا چھتونہ (Chhapia Chhitauna)سابق استاذ مدرسہ تعليم الدين اونچہرہ، اور جناب ڈاكٹر ظفر الہدى صاحب قاسمى ، سابق طالب علم تعليم الدين اونچہرہ)
[4] حضرت مولانا صابر صاحب رحمہ الله مولانا بشير صاحب كےہم وطن تھے، آپ بھى حضرت مدنى كے شاگرد تھے، مدنى خاندان كے عاشقِ زار اورگرويدہ تھے، جمعيت كے ايك فعال اور ذمہ دار ركن تھے، دارلعلوم ديوبند سےآپ كى فراغت غالبا 1948ء كى ہے، الله تعالى نے بڑى خوبيوں سے نوازا تھا، ايك جيد الاستعداد عالم ، ايك زبردست خطيب ، شگفتہ مزاج اور مرنجا مرنج اور باغ وبہار طبيعت كے مالك تھے، آپ كے بات چيت كرنے كا انداز بڑا دل نشين تھا، سننے والے سنتے تھے اور سر دھنتے تھے، كہنے والے يہ بھى كہتے ہيں كہ: جب آپ كسى موضوع پر لب كشائى كرتے تو يوں محسوس ہوتا تھا كہ لبوں سے پھول جھڑ ر ہے ہيں، ملك كى عظيم شخصيات كى جب علاقے ميں آمد ہوتى تو ان سے علاقے كے حالات اور مختلف موضوعات پر تبادلۂ خيال كے ليےلوگوں كى نظرِ انتخاب آپ ہى پر پڑتى تھى، مدرسہ القرآن شہر خليل آباد ميں ايك طويل مدت تك آپ نے تدريسى خدمات انجام ديں، خليل آباد شہر سے بدعات كو دور كرنے ميں آپ كى كوششيں بہت حد تك لائق ستائش ہيں، اسى زمانے ميں حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنى رحمہ الله نے جمعيت علمائے ہند كے دفتر دہلى ميں خدمات كو انجام دينے كے ليے بلانا چاہا مگر علاقے كے مصالح كے پيشِ نظر آپ نے وہاں جانے سے معذرت كر لى، مدرسة القرآن خليل آباد كى انتظاميہ سے كچھ اختلافات كى بنا پر آپ اپنى طبعى غيرت مندى كى وجہ سے الگ ہوئے، شہر كے لوگوں نے ايك دوسرا مدرسہ (مدرسہ قاسم العلوم خليل آباد) كھول كر آپ كو وہاں بلانا چاہا، مگر آپ كا دل وہاں سے اچاٹ ہو چكا تھا ، يہاں سے آپ مدرسہ اصلاح المسلمين چھپيا معافى (Chhapia Mafi)ضلع سنت كبير نگر منتقل ہو گئے، چھپيا معافى والوں نے آپ كو بڑے اعزاز واكرام سے ركھا، اور آپ بھى تا دمِ صحت يہيں پر مقيم رہے، ايك طويل عرصے تك آپ علم كے موتى بكھيرتے رہے، آپ كا انتقال مارچ كے مہينے ميں 1999ء ميں ہوا تھا، الله تعالى آپ كے درجات كو بلند فرمائيں آمين۔
[5] آپ حضرت مولانا بلال اصغر صاحب رحمہ الله سابق استاذ دارالعلوم ديوبند (متوفى: 2023ء)کے دادا تھے، مولانا بلال صاحب کے والد مولانا عبد الاحد صاحب رحمہ الله (متوفى: 1979ء) اور آپ كے نانا مولانا عبد الشکور دیوبندی مہاجر مدنیؒ (متوفی: 1963ء، مدفونِ جنت البقیع) بھی دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
[6] آپ كا شمار غير منقسم ضلع بستى كى چنيدہ شخصيات ميں ہوتا ہے،آپ مدنى خاندان اور جمعيت علمائے ہند كے گرويدہ تھے،1987ء ميں آپ ضلعى جمعيت علمائے ہند كے صدر منتخب ہوئے، اور تا دمِ حيات اسى عہدے پر برقرار رہے، آپ كى جدو جہد اور بے مثال كوششوں سے علاقے كے بہت سے متنازعہ مسائل حل ہوئے، ان مسائل ميں ايك اہم مسئلہ بڑے جانور كى قربانى كا بھى تھا، آپ كے تفصيلى حالات ايك مجلہ “افكارِ خادم “كے كسى خصوصى شمارے ميں درج ہيں، تفصيل كے ليے مراجعت كريں، افكارِ خادم آپ كے خلف رشيد مولانا سراج حميدى صاحب كى ادارت ميں نكلتا ہے۔
[7] آپ كا شمار ضلع بستى كى مقتدر شخصيات ميں ہوتا ہے، اپنے زمانے كے زبردست عالم دين اور مفتى تھے، جمعيت علمائے ہند سےگہرا ربط تھا ، پورى زندگى جمعيت علماء ضلع بستى كے صدر رہے، آپ كا وطن مالوف دريا باد (Daryabad) ضلع سنت كبير نگر ہے، ليكن آپ دودھارا (Dudhara) ضلع سنت كبير نگر ميں سكونت اختيار كر لى تھى، 31/ دسمبر 1987ء ميں آپ كا انتقال ہوا اور يكم جنورى 1988 كو تدفين ہوئى۔
حضرت مولانا بشير احمد صاحب قاسمى بستوى رحمہ الله KB 331 PDF


Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.