darul uloom deoband

دار العلوم دیو بند اور ہندوستان كى جنگِ آزادى

از: حضرت مولانا قیام الدین صاحب  القاسمی جنرل سیکرٹری جمعیتہ علماء ضلع بستی یوپی ، پرنسپل مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوابازار بستی

ایشیا کی عظیم اسلامی یونیورسٹی دار العلوم دیو بند کو یہ فخر حاصل ہے، کہ آزادئ ہند کیلئے جس مرد مجاہد نے سب سے پہلے ہندوستان کو دار الحرب قرار دیکر انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کیا، وہ دار العلوم دیو بند کى فکرى اساس سے ہم آہنگ تھا، یعنی خاندان ولی اللہی كے چشم وچراغ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی  (1746ء – 1824ء – 1159ھ – 1239ھ) کی ذات اقدس ہے جو دارالعلوم دیو بند کے موسس اعلی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوى (1703ء – 1762ء – 1114ھ – 1176ھ) کے فرزند  ارجمند ہیں، نیز یہ کہ بانیان دارالعلوم دیو بند انیسویں صدی کے آغاز ہی سے اپنی فکری و عملی ہمہ گیریت و آفاقیت کے ساتھ بشکل ِتحریک ولی اللہی سرگرم عمل رہے اور فرنگی بادِ صرصر کے رخ کو موڑ نے کیلئے نبرد آزما ہوتے رہے اور مزاحمت کرتے رہے۔

ع:  تاريخ كا  جب بھى رخ بدلا،  بدلا ہے ہميں ديوانوں نے

رفتہ رفتہ  يہ مزاحمت ایک زبردست تحریک بن گئی جو ہندوستان کی آزادی کیلئے اس قدر سر گرم ہوئی کہ انگریز جیسی نا قابل تسخیر طاقت اسے نہ دبا سکی۔ اور یہ ایسا کیوں؟ جی ہاں ! انگریزوں ں نے حکومت واقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھینا تھا اس لئے قدرتی طور پر مسلمان ہی زیادہ مشتعل تھے اسے خوبی کہئے یا اس قوم کی خامی کہ جب یہ قوم مشتعل ہو جاتی ہے، اس کی غیرت وحمیت کوللکارا جاتا ہے تو وہ یہ نہيں دیکھتی کہ فریق مخالف کی طاقت کیا ہے؟ ان نتائج سے بے پرواہ ہو کر اس سے ٹکرا جاتی ہے چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز کے فتوئ جہاد سے پورے ہندوستان کی زمین تھرا  اٹھی ۔

آزادی کی سرگرمیوں کا آغاز آپ کے تربیت یافتہ حضرت سید احمد رائے بریلوی  (1786ء – 1831ء – 1201ھ – 1246ھ) اور حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید  (1779ء – 1831ء – 1193ھ – 1246ھ) آزادی کی قیادت میں ہوا۔ مجاہد کبیر سید احمد رائے بریلوی کون ہیں؟ یہ شاه عبد العزیز محدث دہلوی کے خلیفہ ہیں جنکے ہاتھ پر چالیس ہزار سے زائد غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ۔ تو مجاہدین کی ايك  جماعت جن کے رہبر مجاہد کبیر سید احمد اور سرخیل ِآزادی مولانا شاہ اسماعیل شہید تھے تحریکِ آزادی کی جنگ اس طرح نہ لڑنا چاہتی تھی کہ محض شہادت پالیں بلکہ اس کے پیشِ نظر اولا ایسے حالات پیدا کرتے تھے کہ جن سے آزادئ ہند کیلئے راہیں ہموار ہو جائیں اس لئے انہوں نے حالات کے پیشِ نظر اس عظیم نصب العین کیلئے یہ طریق اختیار کیا کہ پہلا محاذ سکھوں کے مقابلہ میں کھولا،  ان بزرگان دین کا خیال تھا کہ اگر ہمیں یہاں غلبہ مل جاتا ہے تو پھر پورے ہندوستان میں جنگ آزادی بڑی کامیابی سے لڑی جاسکتی ہے۔  چنانچہ مجاہدین سرحد کیطرف روانہ ہوئے جہاں جہاں سے یہ گذرتے گئے سینکڑوں مسلمان ان کے ساتھ ہوتے جاتے اور تحریک کا دائرہ وسیع ہوتا جا تا بالآخر یہ حضرات (سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید ) شمال مغربی ہند میں بحالت سرگرم جہاد میں بالاکوٹ پر ۱۸۳۱ء میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیئے۔

سید صاحب کی شہادت کے بعد اضمحلال پیدا ہوا مگر جانشین نے بہت جلد جماعت کے نظام کو سنبھال لیا اس کو استحکام بخشا اور اس کے دائرے کو وسیع کیا اور جماعت کا صحیح رخ بھی متعین ہو قدرتی طور پر انگریزی حکومت از خود نشانہ پر آگئی اور جنگ شروع ہو گئی۔ تحریکِ سید کے لازوال ولولے کے بارے میں ولیم ولسن ہنٹر لکھتا ہے:  یہ تحریک کسی رہ نما کی موت وحیات سے بالکل مستغنی ہوگئی تھی ، شہدائے بالا کوٹ کی شہادت کے بعد بھی مجاہدین  كى یہ بستی قائم رہی ان کا جذبۂ جہاد زندہ رہا، انگریزی فوجوں کوکئی بار شکستیں دیں اور کبھی کبھی مجاہدین کے حملوں کا دباؤ اتنا بڑھ جاتا تھا کہ بڑی سی بڑی فوج اس کے دفاع میں لگانے کی ضرورت پڑتی تھی اس تحریک کو ختم کرنے کیلئے انگریزوں نے پوری طاقت لگادی کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ لڑائی تو سرحد میں لڑی جارہی ہے لیکن اس کے اثرات سے پورا ملک جوالا مکھی بنا ہوا ہے، اس طرح سرحد میں چھوٹی بڑی لڑائیاں مجاہدین کی انگریزی فوجوں سے ہوتی رہیں کہ پورے ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ برپا ہو گیا بالا كوٹ كے شہدا غيرت وحميت كے وہ چراغ روشن كر گئے جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تحریک دیو بند تحریک ریشمی رومال تحریک جمعیتہ علماء ہند اور تحریکِ خلافت کے تاریک خاکوں میں رنگ بھرتے رہے، یہاں تک کہ آزادی کا سورج چکا جمہوریت کا بول بالا ہوا انگریزوں کو برصغیر سے نکلنا پڑا۔

 بموقعہ ہنگامہ ۱۸۵۷ فکر ِولی الہی کا یہ کارواں بانیان دارالعلوم دیو بند کے مرشد کامل شیخ العالم حاجی امداد اللہ مہاجر مكى (1817ء – 1899ء – 1233ھ – 1317ھ)  کے شاگر د رشید مولانا نصیر الدین دہلوی  (1780 ء – 1838ء – 1194ھ – 1254ھ) (جنہوں نے واقعہ بالاکوٹ کے بعد سید احمد رائے بریلوی کی تحریک جہاد کو ایک نئی روح پھونکی ) کی قیادت و امامت میں ہندوستان کی تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کیلئے سرگرم عمل رہا۔

 ۱۸۵۷ء کے معرکہ کے متعلق حضرت مولا ناحسین احمد مدنی شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند (1879ء – 1957ء – 1296ھ – 1377ھ)  کا بیان چشم دید شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام مولا نامد کی تحریر فرماتے ہیں:  پھر جہاد کی تیاری ہوئی اور اعلان کر دیا گیا حضرت حاجی امداد اللہ صاحب کو امام مقر رکیا گیا اور مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند (1832ء – 1880ء -1248ھ – 1297ھ)  کو سپہ سالا رِ فوج ا قرار دیا گیا،  اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (1829ء – 1905ء – 1244ھ – 1323ھ) کو قاضی بنایا گیا،  اور مولانا محمد منیر نانوتوی  (تقریباً 1830ء – 1880ء) اور حافظ ضامن صاحب تھانوی کو میمنہ اور میسرہ  ( داہنے بازو اور بائیں بازو کے) افسر مقرر کئے گئے ، چونکہ اطراف و جوانب میں مذکورہ بالا حضرات کے تقوی و علم کا بہت زیادہ شہرہ تھا ان حضرات کے اخلاص وللہیت سے لوگ بہت زیادہ متاثر تھے اس لئے بہت تھوڑی مدت میں جوق در جوق لوگوں کا اجتماع ہونے  لگا۔

مجاہدین ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے اور تھانہ بھون و اطراف میں حکومت قائم کر لی گئی اور انگریزوں کے ماتحت حکام نکال لئے گئے اسی دوران یہ خبر آئی کہ انگریز حکام کی طرف توپ خانہ سہارنپور سے شاملى کو بھیجا گیا ہے ، ایک پلٹن لا رہی ہے ، رات کو یہاں سے گزرے گی ، اس خبر سے لوگوں میں تشویش ہوئی کیونکہ جو ہتھیار  ان مجاہدین کے پاس تھے وہ تلوار ، تو پ دار بندوقیں اور بر چھے وغیرہ تھے مگر توپ کسی کے پاس نہ تھی توپ خانہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائیگا۔ حضرت گنگوہی نے فرمایا: فکر مت کرو، سڑک ایک باغ کے کنارے سے گزرتی تھی ،حضرت گنگوہی کو تيس یا چالیس مجاہدین پر حضرت حاجی امداداللہ نے افسر مقرر کر دیا تھا آپ اپنے ماتحتوں کو لیکر باغ میں چھپ گئے اور سب کو حکم دیا کہ پہلے سے تیار  رہو، ایک دم فائر کرنا چنانچہ جب پلٹن معہ توپ خانہ باغ کے سامنے پہونچی تو سب نے ایک دم فائر کر دیا ، پلٹن گھبرا  گئی کہ خدا جانے کس قدر یہاں آدمی چھپے  ہيں، توپ خانہ چھوڑ كر سب بھاگ گئے،  حضرت گنگوہى نے توپ خانہ کھینچ کر حضرت حاجی صاحب کی مسجد کے سامنے لا کر ڈال دیا، اس سے لوگوں ميں ان حضرات كى فراست اور ذہانت ، اور فنون حرب  كى مہارت كا سكہ بيٹھ گيا۔

شاملى اس زمانہ میں مرکزی مقام ضلع سہارنپور سے متعلق تھا وہاں تحصیل بھی تھی کچھ فوجی طاقت وہاں بھی رہتی تھی ، قرار پایا کہ اس پر حملہ کیا جائے چنانچہ چڑھائی اور قبضہ کر لیا گیا جو طاقت پولیس اور فوج کی وہاں تھی وہ مغلوب ہوگئی اور حافظ ضامن صاحب اس ہنگامہ میں شہید ہو گئے ، حافظ ضامن کا شہید ہونا تھا کہ معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا انکی شہادت سے پہلے روزآنہ خبر آتی تھی کہ آج فلاں مقام پر انگریزوں سے چھین لیا گیا آج فلاں مقام پرہندوستانیوں کا قبضہ ہو گیا اور یہی حال ہر جگہ کی خبروں کا تھا۔ حضرت مدنی لکھتے ہیں کہ:  حضرت شیخ الہند فرماتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ تمام معاملہ جوش و خروش جنگ و جدال کا حضرت حافظ ضامن صاحب کی شہادت کیلئے کیا گیا تھا۔ بہر حال حافظ صاحب کی شہادت اور دہلی کے سقوط کی خبر سے لوگوں کی ہمتیں بالکل پست ہو گئیں ۔

 سرسید احمد مرحوم بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  (1817ء – 1898ء – 1234ھ – 1316ھ) تحریر فرماتے ہیں کہ:  قتل و خونریزی شاملی میں ۴ ار ستمبر ۱۸۵۷ء کو ہوئی جو دن فتح دہلی کا تھا (لائل محمد نس آف انڈیا ) ۱۹ ستمبر ۱۸۵۷ء کو بہادر شاہ ظفر (1775ء – 1862ء – 1189ھ – 1279ھ) گرفتار ہوئے دہلی پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہوا تو فتح مند فوجوں نے اطراف دہلی پر بھی قبضہ شروع کر دیا ، چند روزہ بعد ہی تھا نہ بھون کا نمبر آگیا فصیل توڑ دی گئی دروازے اڑا دیئے گئے مٹی کا تیل ڈال كر   مكانوں كو آگ لگا دى گئی، جو ملا اس کو تہ تیغ کیا گیا، قیمتی مال وا سباب  سے فوج نے اپنی جیبیں بھریں، تھانہ بھون ایک اجڑا ہوا د یار بن گیا، یہ چاروں بزرگ ( حاجی امداد الله مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا میر احمد نانوتوی) باہر نکلنے پر کامیاب ہو گئے ، علاقہ تھانہ بھون کے یہ رہنما جنہوں نے انگریزوں کی زبان میں بغاوت اور غدر میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا تھا پھر بھی ہر قسم کی سزا سے بچ جانا کرشمہ خداوندی کے سوار اور کیا کہا جاسکتا ہے،  مولانا رشید احمد گنگوہی کی گرفتاری جولائی ۱۸۵۹ ء میں عمل میں آئی پھر چھ ماہ بعد رہا کر دیئے گئے تحریک ۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد حاجی امداد اللہ مکہ مکرمہ ہجرت فرما گئے اور وہیں سے آخر تک ہندوستانی تحریک کی قیادت فرماتے رہے،  مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند اور مولانا رشید احمد گنگوہی سر پرست دار العلوم دیو بند و مولانامحمد منیر اور انکے برادر محترم مولانا محمد مظہر (تقریباً 1825ء – 1885ء)  کو مشورہ سے ہندوستان چھوڑا گيا۔

  ابھى شہيدوں كا  خون خشک ہونے نہیں پایا تھا یعنی ہنگامہ ۱۸۵۷ء سے صرف آٹھ سال بعد ۱۸۶۶ء بمطابق ۱۲۸۳ھ میں کہ ان بزرگوں نے تحريك كى  نشاة ثانیہ کیلئے دارالعلوم دیو بند، جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد، مظاہر علوم سہارنپور کے تعلیمی و تربیتی حلقے قائم کر دیئے، دارالعلوم دیو بند کی ابتدا نہایت معمولی تھی لیکن اللہ کے کرم اور بانیوں کے حسنِ نیت سے جلد ہی اس نے ترقی شروع کر دی ۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی نے شروع ہی سے اسے اپنی سر پرستی میں لے لیا اسکے علاوہ مولا نا محمد یعقوب صاحب(1833ء – 1884ء – 1249ھ – 1301ھ)  کو اس مدرسہ کی توسیع میں بڑا دخل ہے وہ خود لگ جامع العلوم بزرگ تھے انکے والد مولا نا ملوک علی ، (تقریباً 1800ء – 1851ء)  سرسید احمد خاں ( بانی علیکڈھ مسلم یونیورسٹی ) اور مولا نا محمد قاسم نانوتوی ( بانی دارالعلوم دیو بند کے استاذ تھے اور اس وجہ سے ان کا حلقہ اکثر بہت وسیع تھا کہ وہ خود ڈ پٹی ایجو کیشنل انسپکٹر کے معزز عہدے پر اور مامور تھے اور جدید محکم تعلیم کے نظام اور طریقۂ کار سے بخوبی واقف تھے جس سال مدرسہ کا آغاز ہو اسی سال انہوں نے اپنی اعلیٰ ملازمت اور معقول مشاہرے کو قربان کر کے علوم اسلامی کی خدمت کیلئے مدرسہ دیو بند میں پچیس روپنے کی مدرسی قبول کر لی اور وہ دار العلوم کے پہلے صدر مدرس ہوئے۔

دار العلوم دیوبند کی سرگرمیاں محض درس و تدریس تک محدود نہیں رہیں بلکہ اس نے قومی ملکی اور سیاسی معاملات میں بھی اندرونِ حدود شرعیہ بڑھ چڑھ کر قائدانہ حصہ لیا اور ابتک لے رہا ہے، اور اس کے اکابر وفضلا کے کارنامے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں ۔ جنہوں نے سیاسیات سے علیحدگی کا اعلان کیا مگر دین و مذہب اسکی ہمہ گیر تفسیر میں ان بزرگوں کے عقیدے کے مطابق وطنی سیاست اور جدو جہد آزادی ایک فرض کی حیثیت رکھتی تھی، اس احساس فرض کا نتیجہ تھا کہ جیسے ہی ۱۸۵۸ء میں انڈین نیشنل کانگریس قائم کی گئی اس جماعت کے سر براہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے اور آپکے ساتھیوں نے مسلمانوں کیلئے کانگریس ميں شرکت کا فتوی صادر کیا اور برطانیہ سامراج کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ہیں اور خان بہادروں کے پھینکے ہوئے تمام  تير پوری جوانمردی سے اپنے سینوں پر لئے پھر بیسویں صدی کے شروع میں مؤتمر الانصار اور جمعیۃ الانصار کے نام سے ایک نظام قائم کیا گیا اس نظام کا اندرونی ر یہ تھا کہ بقول شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ۱۹۰۷ء میں حضرت شیخ الہند مولا نا محمود حسن دیوبندی نے ریشمی خط کی تحریک شروع کی اور ۱۹۱۴ء تک اسے اس حد تک پہونچا دیا کہ اگر کچھ ملک کے خائن خیانت نہ کرتے تو اسی وقت ہندوستان آزاد ہو چکا ہوتا۔

 ۱۹۱۴ء میں ریشمی رومال کی تحریک ناکام ہوئی اس کے رہنما جو دارالعلوم  دیو بند سے وابستہ تھے حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبید اللہ سندھی (1872ء – 1944ء – 1289ھ – 1363ھ) ، اور دوسرے اکابرین جلا وطن ہوئے لیکن ابھی پورے پانچ سال گزر نے نہیں پائے تھے کہ انہیں بزرگوں کے ساتھیوں نے جو ہندوستان میں تھے نئی کروٹ لی اور ۱۹۱۹ء میں جمعیۃ علماء ہند کی باضابطہ تشکیل کر دی جس نے انڈین نیشنل کانفرنس کے ساتھ دوش بدوش تحریک آزادی میں حصہ لیتے ہوئے اور جانی و مالی قربانیاں پیش کرتے ہوئے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو ۱۵/۱۴ اگست کی درمیانی رات کو بارہ بجے مکمل آزادی حاصل کرلی۔

پورا ہندوستان محو خواب تھا تو ہندوستان کا مقدر جاگ گیا اور ہندوستانی وقت کے مطابق ٹھیک بارہ بجے آل انڈیا ریڈیو سے ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہو گیا ۔ افسوس کہ آخر میں برطانیہ کا جادو کام کر گیا اور جسم ہندوستان کے دوٹکڑے کر کے اسکی شہ رگ کا خون کھینچ لیا گیا اور تقسیم وطن کے بعد فرقہ پرست عناصر کی ایک خاص ذہنیت کے پیش نظر انہیں علماء مجاہدین کے زیرنگرانی ۲۸/۲۷ دسمبر ۱۹۴۸، کولکھنو میں منعقد ہونیوالی آزاد کا نفرنس نے مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ بخشا اور آزاد ہندوستان میں سیکولر نظام اور جمہوری آئین کے نفاذ  کے تحت ملک کی اقلیتوں کو مساوات اور برابری کے حقوق حاصل ہوئے ۔

بہر حال یہ حریت و آزادی اور جمہوریت جس عنوان سے بھی آئی وہ نتیجہ ہے انہیں کوششوں کا جنکے مبارک ناموں سے سرِورق مزین ہے، اور ثمرہ ہے ان مدارس اسلامیہ کا جو فکر ولی الہی اور دارالعلوم دیو بن تحریک سے وابستہ ہیں۔ بحمد اللہ آج بھی ارباب دار العلوم و یو بند مدارس اسلامیہ، جمعیۃ علماء ہند اور دیگر ذیلی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے مادر وطن ہندوستان کی تعمیر و تحفظ کیلئے اہم رول ادا کر رہے ہیں ، لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم مجاہدین آزادی اور مدارس اسلامیہ کی ان خدمات کو ملک کی قومی تاریخ میں نظر انداز کر دیا گیا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ آج مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیکر بدنام کیا جا رہا ہے جو سراسر تعصب اور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ سب سے بڑی جمہوریہ ہندوستان میں اسطرح کی فرقہ واریت مادر وطن کی سالمیت و جمہوریت کیلئے نہایت ہی نا قابل تلافی نقصاندہ ثابت ہوگا، جسکو وقت کا مورخ معاف نہیں کریگا۔ لہذا سیکولر تصورات سے ہم آہنگی اور مادر وطن کی خدمت کے جذبہ سے ارباب حکومت کو چاہئے کہ اس نوعیت کی ذہنی مضر اثرات کی روک تھام کرے اور اس کیلئے موثر تد بیر اپنائے۔

ميرا عزم اتنا بلند ہے كہ پرائے شعلوں كا ڈر نہيں

مجھے خوف آتشِ گل سے ہے كہيں يہ چمن كو جلا نہ دے

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply