زكاة كے غير مستحقين افراد

زكاة كن لوگوں كو نہيں دينى چاہئے، زكاة كے غير مستحقين افراد

زكاة كن لوگوں كو نہيں دينى چاہئے

بقلم: محمد ہاشم بستوى

آپ كو معلوم ہونا چاہئے كہ زكاة اسلام كا ايك اساسى اور بنيادى ركن ہے، زكاة كى فرضيت كا اصل مقصد غريب مسلمانوں كى مدد اور اسلام كى سر بلندى ہے، زكاة صرف غريب مسلمانوں كا حق ہے ہر كسى كو اس كا دينا لينا صحيح نہيں ہے، زكاة كے مستحقين كو الله تعالى نے سورہ توبہ ميں بيان كر ديا ہے اس كو جاننے كے ليے آپ نيچے دئيے ہوئے لنك پر كلك كريں:

زكاة  كے مستحقين افراد

زكاة كے غير مستحقين افراد:

 اس مضمون ميں ان لوگوں كے بارے ميں بتايا جائے گا جو زكاة كے مستحق نہيں ہيں، يا جن كو زكاة نہيں دى جا سكتى:

1 – امیر اور مالدار  اور صاحبِ نصاب  افراد:

زکاة کا مقصد غريبوں كو  مالی امداد فراہم کرنا ہے، اس لیے مالدار اور صاحب نصاب افراد زکاة کے مستحق نہیں ہیں۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے:

“لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي”. (رواه الترمذي في سننه: 652)

ترجمہ: صدقہ کسی مالدار یا تندرست اور کمائی کرنے والے کے لیے جائز نہیں ہے۔ سنن ترمذى، رقم حديث: 652

نوٹ: زكاة كے مسئلہ ميں مالدار ہونے كا مطلب يہ ہے جس كے اتنا سونا، چاندى اموالِ تجارت يا نقدى ہو، جو چاندى كے نصاب كو پہونچ جائے، اور چاندى نصاب ساڑھے باون تولہ ہے جو 612 گرام كا ہوتا ہے، اگر كسى كے نصاب كے بقدر مال نہ ہو تو زكاة كى رقم لے سكتا ہے۔

2 – محمد رسول اللہ اور ان کی اولاد:

نبی کریم صلى الله عليہ وسلم اور آپ كى  آلِ بیت  كو زکاةنہيں دى جا سكتى ،  کیونکہ آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ: آل محمد كو زكاة لينى جائز نہيں ہے،   یہ مال امت کے فقراء اور ضرورت مندوں کے لیے مخصوص ہے۔  حدیث میں آتا ہے:

“إن الصدقة لا تنبغي لآل محمد، إنما هي أوساخ الناس”.  (رواه مسلم في صحيحه: 1072)

(زکاة محمد ﷺ کی آل کے لیے جائز نہیں، کیونکہ یہ لوگوں کے مال کی میل کچیل ہے۔( صحيح مسلم رقم حديث: 1072)

3-  والدین، اولاد اور شریک حیات:

وہ افراد جن کی کفالت خود  انسان کے اپنے  ذمے ہو، جیسے والدین، دادا، نانا، اولاد، پوتے، نواسے اور بیوی، ان کو زکاة دینا جائز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ضروریات پوری کرنا انسان کا شرعی فرض ہے۔

4 – کافر اور غیر مسلم:

زکاة کا مقصد غريب مسلمانوں كا تعاون ہے، اور ان   كى  مالی حالت کو بہتر بنانا ہے، لہذا زکاة كى رقم  غیر مسلم کو نہیں دی جا سکتی، الا یہ کہ وہ “المؤلفة قلوبهم” (دل جیتنے کے لیے) کے زمرے میں آئیں، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے۔ البتہ صدقہ نافلہ وغيرہ غير مسلم كو دے سكتے ہيں۔

5 – طاقت ور اور كام كے قابل افراد:

ایسے افراد جو جسمانی طور پر تندرست ہوں اور کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن جان بوجھ کر محنت نہ کریں، وہ زکاة کے مستحق نہیں ہیں۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے:

“لا تحل الصدقة لغني ولا لذي قوة مكتسب”. (رواه أبو داود في سننه: 1633)

ترجمہ: صدقہ اور زكاة  کسی مالدار یا کمانے کی طاقت رکھنے والے شخص کے لیے جائز نہیں ہے۔ (سنن ابوداود، رقم حديث: 1633)

6 – وہ لوگ جنہیں زکاة دینے سے گناہ یا معصیت میں مدد ملے:

ایسے افراد جو زکاة كے  مال كو غلط کاموں میں استعمال کریں یا اسے معصیت کے راستے پر خرچ کریں، مثلا: شرب نوشى، اور دوسرى سماجى برائياں،ايسے لوگوں كو زكاة مال نہيں دينا چاہئے۔

خلاصہ:

جس شخص پر زكاة فرض ہے اسے مستحقين ِ زكاة كى چھان بين كركے زكاة كو اسے صحيح مصرف ميں دينا ضرورى ہے، ورنہ زكااة ادا نہيں ہوگى،  اور زكاة كے صحيح مستحقين وہ افراد ہيں جن الله تعالى نے سورہ توبہ م آيت نمبر 60 ميں بيان كرديا ہے، اس كے حساب سے  زکاة ان افراد کو دی جا سکتی ہے جو فقیر، مسکین، عاملين يعنى زكاة وصدقات كى رقم وصول كرنے والے، قرضدار، مسافر یا اللہ کی راہ میں جہاد  کرنے والے ہوں،  اور زکاة کے غیر مستحقین میں:  مالدار صاحب نصاب، آلِ بیت، والدین، اولاد، بیوی، غیر مسلم (عام حالات میں)، اور کام کرنے کے قابل طاقت ور افراد شامل ہیں، ان كو زكاة نہيں دى جا سكتى ہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply