hamare masayel

زندگی میں دئیے ہوئے مال میں کسی دوسرے کا حق نہیں

(سلسلہ نمبر: 451)

زندگی میں دئیے ہوئے مال میں کسی دوسرے کا حق نہیں

سوال: ایک مسٔلہ معلوم کرنا ہے وراثت کے تعلق سے:

ایک آدمی گھر ہی پرکام کرتا تھا اسکے کوئی بزنس وغیرہ نہیں تھا اسکے بچے پردیس چلے گئے اور آمدنی اپنے والد کو بھیجتے گئے اس پیسے سے والد نے گاؤں میں زمین جائیداد بنائی اور بچوں کی شادی وغیرہ کی اس بیچ بچوں نے پردیس میں کچھ زمینیں خریدیں والد کی جانکاری اور رضامندی سے والد نے اپنی زندگی میں پردیس کی زمینیں اور گاؤں کی زمینیں بیٹوں کے درمیان تقسیم کردیا، اور بیٹیوں کو نہیں دیا اور گاؤں کی زمین کا کچھ حصہ اپنے استعمال کے لئے رکھ لی، اب انکا انتقال ہوچکا ہے اور بھائی اپنے بہنوں کو حصہ دینا چاہتے ہیں اب کس طریقہ سے اور کن کن چیزوں میں حصہ دیں، آیا باپ کی تقسیم شدہ زمینوں میں بھی حصہ دینا پڑیگا یا تقسیم کے بعد جو اپنے استعمال کے لئے رکھے تھے۔ اور پردیس میں جو زمینی ہیں کیا اس میں بھی دینا چاہیے جبکہ ان کا اپنے بھائیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا ارادہ تھا  اور اگر اسمیں بھی دینا چاہیے تو اسکی کیا صورت ہوگی،  جبکہ کچھ لوگوں وہ زمین بیچ کر دوسرا بزنس شروع کیا ہے اور کچھ مکان وغیرہ بنا لیا ہے۔

المستفتی: عبداللہ مقیم حال ریاض۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 والد اپنی زندگی میں اولاد کو جو دیتا ہے اور اولاد اس پر قبضہ کرلے، اس کو ہبہ کہتے ہیں، اور ہبہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو برابر دیا جائے، پھر بھی اگر والد کم زیادہ دیدے تو ہبہ صحیح ہو جائے گا، اس لئے والد نے اپنی زندگی میں جو جائیداد لڑکوں کو دیدیا اب اس میں لڑکیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے، اسی طرح لڑکوں نے جو جائیداد خود خریدی تھی اور باپ کو مالک نہیں بنایا تھا، اس میں بھی بہنوں کا حصہ نہیں ہے، البتہ والد نے جو جائیداد اپنے لئے بچائی تھی، اس میں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو حصہ ملے گا۔

الدلائل

ولو وهب رجل شیئًا لأولادہ في الصحة، وأراد تفضیل البعض في ذٰلک علی البعض۔ روی المعلی عن أبي یوسف أنه لا بأس به إذا لم یقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سویٰ بینہم یعطي للابنة مثل ما یعطي للابن، والفتویٰ علی قول أبي یوسفؒ. (فتاویٰ خانیۃ 3/279).

وفي الخلاصۃ: المختار التسویۃ بین الذکر والأنثیٰ في الہبۃ، ولو کان ولدہ فاسقًا۔ (البحر الرائق / کتاب الہبۃ 7/288 کراچی، 7/490 زکریا).

وذہب الجمہور إلیٰ أن التسویۃ مستحبۃ، فإن فضل بعضًا صح وکرہ. (فتح الباري 5/214 دار الفکر بیروت).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

28- 12- 1441ھ 19- 8- 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply